نئی حکومت کی تشکیل کے بعد سے مسلمانوں پر پے در پے افتاد

متعصب جماعتیں ایک طرف۔نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کے تئیں مخلص نہیں؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

مسلمانوں کو سیاسی حکمت عملی سے اپنی قیادت اورمسلم نمائندگی کو مضبوط کرنا ہوگا
منی پور کا دورہ اچھی بات ہے لیکن ہجومی تشدد کے مظلومین کی بھی داد رسی ہو!
اٹھارویں لوک سبھا کے انتخابات میں ملک کی کسی بھی سیاسی پارٹی کو بھر پور اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ بی جے پی 543رکنی لوک سبھا میں محض 240 حلقوں میں کامیابی حاصل کرکے اپنے حلیفوں کو ساتھ لے کر حکومت بنانے کے موقف میں آگئی۔ آندھراپردیش کی تلگو دیشم اور بہار کی جنتا دل ( یو ) ملک میں جمہوری قدروں کی بحالی کا جذبہ اپنے اندر رکھتے ہوئے بی جے پی سے دوستی ختم کر دیتیں تو آج ملک کی صورت حال بالکل مختلف ہوتی۔ ان دو سیکولر پارٹیوں کی ابن الوقتی نے 2024 کے انتخابی نتائج کے بعد پھر ایک مرتبہ ملک میں نفرت اور تشدد کی سیاست کو بڑھاوا دینے میں بی جے پی کا ساتھ دیا ہے۔ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہونے والے وزیراعظم نریندرمودی کی سوچ میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کا نعرہ دینے والے وزیر اعظم گزشتہ ایک ماہ سے مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ اندیشے بڑھتے جا رہے ہیں کہ آنے والوں دنوں میں حالات اور بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ نفرت اور عصبیت کا زہر اب بھی سماج میں گھولنے کی مذموم کوشش جا ری ہے۔ ملک میں آئے دن کہیں نہ کہیں مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا جارہا ہے۔ مہاراشٹر امیں گزشتہ دنوں ایک عالم دین کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اترپردیش میں ضلع مظفرنگر کے شاملی میں فیروز قریشی نامی مسلم شخص کو شرپسند عناصر نے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ جھارکھنڈ میں دو مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ مسجدکے امام شہاب الدین اور اختر انصاری ہجومی تشدد کا شکار ہوئے۔طرفہ تماشا یہ کہ پولیس ان تمام بدبختانہ کارستانیوں کو ہجومی تشدد ماننے سے انکار کر رہی ہے۔
یکم جولائی 2024 سے جو نئے فوجداری قوانین ملک میں نافذ کیے گئے ان قوانین کے مطابق پانچ یا پانچ سے زائد افراد کسی شخص کو مذہب، ذات یا علاقہ کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اس میں اس کی جان چلی جاتی ہے تو اس واقعہ میں ملوث افراد کو سزائے موت دی جائے گی یا عمر قید ہوگی اور انہیں جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ مذکورہ بالا تمام واقعات ہجومی تشدد کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن پولیس کا ادعا ہے کہ نئے قوانین میں یہ کہا گیا کہ پولیس یہ طے کرے گی کہ واقعی یہ دانستہ یعنی ’قتل عمد‘ تھا یا پھر اتفاقی طور پر کسی شخص کا قتل ہوگیا۔ چنانچہ جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد میں ملوث افراد کے خلاف نئے قوانین کے مطابق تادم تحریر مقدمہ دائر نہیں کیا گیا۔ شاملی کے ہجومی تشدد کے معاملے میں یوپی پولیس نے تو انصاف کا ہی قتل کر دیا۔ شرپسند عناصر جنہوں نے فیروز قریشی کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا، ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی البتہ پولیس کی جانب داری پر سوال اٹھانے والے مسلم نوجوانوں کو نئے فوجداری قانون بی این ایس 2023کے تحت 196اور 353دفعات لگا کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر لکھ کر قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ پولیس کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ جن لوگوں نے ایک بے گناہ کو نشانہ بنا کر اسے ہلاک کر دیا ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جارہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس خاطیوں کو سزا دینا نہیں چاہتی ہے۔
نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ جوکچھ سابق میں ہوا ہے اب کم از کم اس کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت ملک کے تمام طبقات کے ساتھ غیرجانب درانہ رویہ اختیار کر تے ہوئے سب کے ساتھ انصاف اور مساوات کا سلوک روا رکھے گی۔ اس حقیقت سے بھی ملک کے باخبر طبقے بخوبی واقف ہیں کہ بی جے پی کو 2024کے پارلیمانی انتخابات میں جو کامیابی ملی ہے وہ اس کے توقعات کے بالکل بر عکس ہے۔ بی جے پی قیادت نے اپنے طور پر 370لوک سبھا کی سیٹوں پر کامیاب ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور این ڈی اے کے حلیفوں کے ساتھ وہ 400سے زائد حلقوں میں اپنی کامیابی کی بات کررہی تھی۔ اس مشن میں بی جے پی کو عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ مودی حکومت کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ اب اس کی من مانی چلنا ممکن نہیں ہے۔ لوک سبھا میں ایک مضبوط اپوزیشن موجود ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں این ڈی اے حکومت کو بہت سارے معاملات میں گھیرتی رہیں گئیں۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بھی موجودہ حکومت ملک میں فرقہ پر ستی کی سیاست سے اپنے دامن کو بچانے کے بجائے اس میں تیل کیوں ڈال رہی ہیں؟ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے بھی گز شتہ دنوں اپنے ایک مضمون میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیاکہ ملک کے وزیر اعظم ملک کے عوام کی اخلاقی تائید سے محروم ہونے کے باوجود اپنے طرز حکم رانی کو نہیں بدلے ہیں۔ غرور و تکبر آج بھی ان میں موجود ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے وہ آج بھی تفشیشی ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں۔ جو شر پسند عناصر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو پھیلا کر سماجی تانے بانے کو توڑ رہے ہیں ان کی مبینہ طور پر سرپرستی حکومت کر رہی ہے۔ ڈارنے دھمکانے کی پالیسی اب بھی چل رہی ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ جو معاندانہ سلوک اس وقت حکومت کا ہے اس سے مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ بڑھتا جا رہا ہے۔ جب کسی طبقہ کی جان و مال اور عزت و آبرو ہی خطرے میں پڑ جائے تو اس کا فکرمند ہونا لازمی ہے۔ ملک کے ان بدلتے حالات میں اندیشہ ہے کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کو نہ صرف حاشیہ پر لادے گی بلکہ ان کے لیے نت نئے مسائل کھڑے کردیے جائیں گے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں سے بھی ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ ان ریاستوں میں مسلمانوں کے لیے اطمینان و سکون میسر نہیں ہے۔ اترپردیش کی حکومت نے دینی مدارس کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ ان مدارس کو غیر مسلمہ قرار دے کر انہیں حکومت کی جانب سے بند کر دیا جا رہا ہے۔ آسام میں دینی مدارس کے خلاف کاروائیاں زوروں پر جاری ہیں۔ نئی حکومت کے ان سارے اقدامات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی حکومت مسلمانوں سے سیاسی انتقام لے رہی ہے۔ مسلم رائے دہندوں نے لوک سبھا انتخابات میں جس انداز میں اپنے ووٹ کا متحدہ استعمال کیا اس سے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ خاص طور پر یوپی میں مسلمانوں کے متحدہ ووٹ کے نتیجہ میں وہاں سیکولر پارٹیوں کو کامیابی ملی اور بی جے پی کو کڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کے ووٹ منتشر ہوجاتے اور بکھر جاتے تو بی جے پی کا چار سو پار کا نشانہ پورا ہو جاتا۔ بی جے پی کو اسی بات کا غم ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی شعور نے اس کی کامیابی میں رخنہ ڈال دیا۔ یہی وہ غصہ ہے جس کی وجہ سے نئی حکومت کی تشکیل کے بعد سے مسلسل فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا کر ملک کی اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف ورغلایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد، ان کی املاک پر بلڈوزر چلانے کی کارروائیاں اور نئے نئے قوانین کی تدوین کرکے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ چونکہ مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے اس لیے اب ان کو اپنی اس غلطی کی سزا بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ان بھیانک حالات کو دیکھتے ہوئے بھی ملک کی سیکولر پارٹیاں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں سے تو بڑی ہمدردی جتائی گئی لیکن ملک میں اس وقت جس انداز میں مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کیا جا رہا ہے اس پر سیکولر پارٹیوں کی جانب سے کسی ردعمل کا سامنے نہ آنا بہت سارے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ لوک سبھا کے اپوزیش لیڈر راہل گاندھی منی پور کا دورہ کرتے ہیں اور وہاں متاثرہ افراد سے مل کر ان کے غم کو باٹنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا یہ اقدام قابل ستائش ہے لیکن اسی کے ساتھ اگر وہ ہجومی تشدد کا شکار مسلم خاندانوں سے مل کر ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے تو کم ازکم مسلمان یہ سمجھتے کہ وہ ملک کے تمام مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو حاصل کرتی ہیں لیکن مصیبت کے وقت ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتیں۔ آخر وہ کیا سیاسی مجبوریاں ہیں کہ انڈیا الائنس میں شامل پارٹیاں کھل کر مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو کرنے اور ان کو حل کرنے کے بارے میں سنجیدگی کا ثبوت نہیں دیتی۔ زبانی وعدے، طفل تسلیاں اور مسلمانوں کو سبز باغ دکھا نے کی ان ساری لایعنی حرکتوں سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہونے والا ہے؟ بی جے پی نے تو صاف اعلان کر دیا کہ اسے مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ پارٹیاں جو مسلمانوں کے ووٹوں کی اپنے آپ کو حقدار سمجھتی ہیں وہ اپنی ذ مہ داری نبھانے میں کیوں ناکام ہوتی جارہی ہیں۔ بی جے پی کی ذلت آمیز شکست میں مسلمانوں کے غیر معمولی رول کے باوجود ملک میں ان کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کو دیکھتے ہوئے، کانگریس اورسماجودای پارٹی کے علاوہ دیگر سیکولر پارٹیوں کا رویہ مسلمانوں کی مایوسی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ مسلمانوں کے تئیں سیکولر پارٹیوں کے رویہ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ :
جن سہاروں پہ میں نے بھروسہ کیا
وقت پران سہاروں نے دھوکا دیا
ملک کی سیکولر پارٹیوں کو یہ حقیقت سامنے رکھنی ضروری ہے کہ اس ملک کے مسلمان کوئی سیاسی غلام نہیں ہیں۔ مسلمان یہ نہیں چاہتے کہ کسی کا حق مار کر انہیں کچھ دیا جائے۔ وہ اپنے دستوری حقوق سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ انڈیا الائنس میں شامل پارٹیاں اس بات کی خوشی منارہی ہیں کہ انہیں غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی لیکن اس کا میابی کے پیچھے کس کاکتنا کردار تھا اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان اس مرتبہ متحدہ طور پر سیکولر پارٹیوں کا ساتھ نہ دیتے تو انڈیا الائنس کے لیے اتنی بڑی کامیابی ممکن نہیں تھی۔انتخابی نتائج کے بعد ہر سیاسی پارٹی نے یہ بات تسلیم کی کہ سیکولر پارٹیوں کو جو ناقابل یقین کامیابی ملی وہ دراصل اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی بھر پور تائید کا نتیجہ ہے۔ اس لیے ملک کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ غیر واجبی نہیں ہے کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے بارے میں مصلحت سے کام نہ لیں بلکہ وہ علی الاعلان مسلمانوں پر ہونے مظالم کے خلاف احتجاج بلند کریں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے پارلیمنٹ کے حالیہ سیشن میں نیٹ اسکام پر زبردست احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دی۔ اسی طرح ہجومی تشدد اور بلڈوزر پالیٹکس کے خلاف بھی اٹل موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرنا چاہیے تھا۔ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے احساسات اور ان کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہوجاتی ہیں تو آنے والے اہم ریاستوں بشمول یوپی کے اسمبلی انتخابات میں مسلم قیادت کوایک نیا سیاسی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا تاکہ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی بھی ختم ہو سکے اور سیکولر پارٹیوں کو معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں کے سنگین مسائل پر ان کی دانستہ خاموشی کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
***

 

***

 ملک کی سیکولر پارٹیوں کو یہ حقیقت سامنے رکھنی ضروری ہے کہ اس ملک کے مسلمان کوئی سیاسی غلام نہیں ہیں۔ مسلمان یہ نہیں چاہتے کہ کسی کا حق مار کر انہیں کچھ دیا جائے۔ وہ اپنے دستوری حقوق سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ انڈیا الائنس میں شامل پارٹیاں اس بات کی خوشی منارہی ہیں کہ انہیں غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی لیکن اس کا میابی کے پیچھے کس کاکتنا کردار تھا اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان اس مرتبہ متحدہ طور پر سیکولر پارٹیوں کا ساتھ نہ دیتے تو انڈیا الائنس کے لیے اتنی بڑی کامیابی ممکن نہیں تھی۔انتخابی نتائج کے بعد ہر سیاسی پارٹی نے یہ بات تسلیم کی کہ سیکولر پارٹیوں کو جو ناقابل یقین کامیابی ملی وہ دراصل اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی بھر پور تائید کا نتیجہ ہے۔ اس لیے ملک کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ غیر واجبی نہیں ہے کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے بارے میں مصلحت سے کام نہ لیں بلکہ وہ علی الاعلان مسلمانوں پر ہونے مظالم کے خلاف احتجاج بلند کریں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024