میں ایک سچا محب وطن ہوں، میں نے ہمیشہ بیرون ملک اپنے ملک کا دفاع کیا: ڈاکٹر ظفر الاسلام خان
نئی دہلی، اپریل 30: دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اور تجربہ کار صحافی ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے بدھ کے روز کویت سے متعلق ’’ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے‘‘ کے بارے میں اپنے ٹویٹ پر وضاحتی بیان جاری کیا۔
ڈاکٹر خان نے بیان میں کہا ہے ’’میں نے اپنے ملک کے خلاف کسی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے شکایت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں اس ملک کا محب ہوں اور میں نے ہمیشہ بیرون ملک اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی میں ہمیشہ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ہمارے ملک میں موجود مسائل پر آواز اٹھاتا رہا ہوں، لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہم اور ہمارا سیاسی، آئینی اور عدالتی نظام ان سے نمٹنے کے قابل ہے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’میری جانکاری کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں نے بیرونی طاقتوں سے کبھی بھی اپنے ملک کے خلاف شکایت نہیں کی۔ میں دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کی طرح قانون کی حکمرانی، ہندوستانی آئین اور ہمارے ملک کے بہترین اداروں پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ پچھلے دو ہفتوں میں عرب دنیا کے متعدد افراد نے ٹویٹر پر ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور کورونا وائرس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی مذمت کی۔
ڈاکٹر خان نے اپنا ٹویٹ 28 ہفتہ کو اپنے ٹویٹر ہینڈل پر شائع کیا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا ہے کہ میڈیا کے کچھ حصوں نے ان کے خیالات کو مسخ کیا ہے۔
انھوں نے کہا ’’میں نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ شیئر کیا۔ اس ٹویٹ میں مزید کچھ شامل نہیں کیا جانا چاہیے جیسا کہ کچھ میڈیا اداروں نے کیا ہے۔ ڈاکٹر خان نے خبردار کیا ’’چند الیکٹرانک میڈیا فورموں پر میرے خیالات کو مسخ کیا گیا ہے اور مجھ سے بہت سے غلط بیانات/آرا منسوب کی گئی ہیں۔ میں ان کے خلاف مناسب قانونی اقدامات اٹھاؤں گا۔‘‘
اپنے ٹویٹ کے بارے میں اپنی پوزیشن کو مزید واضح کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’یہ ٹویٹ اس پس منظر میں ہے کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے معاملات سے کس طرح سے نمٹا گیا ہے، خواہ وہ لنچنگ ہو، فسادات ہوں، یا میڈیا کا رویہ۔‘‘
ڈاکٹر خان، جو کئی دہائیوں سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے لکھ رہے ہیں، نے کہا ’’میں نے ہمیشہ عربی میڈیا میں اور الجزیرہ جیسے چینلز پر اپنے ملک کا دفاع کیا ہے، جہاں کارگل جنگ کے دوران ہندوستان کا دفاع اب بھی بہت سے لوگوں کو یاد ہے۔‘‘