میڈیا کا تعصب اور اس کاحل

پوسٹ ٹروتھ کے دور میں رائے عامہ کی مناسب تشکیل لازمی

0

سید معز الر حمان ، ناندیڑ

نج تھیوری اور مسلم سماج؛ مثبت حکمت عملی سے نفرت کو محبت میں تبدیل کرنا ممکن
اجتماعی زندگی کو بنانے اور بگاڑنے والی سب سے بڑی طاقت حکومت ہے اور جس جگہ سیکولر ڈیموکریسی رائج ہو وہاں حکومت کے صحیح یا غلط ہونے کا انحصار اس امر پر ہے کہ عوام الناس صحیح آدمیوں کے ہاتھ میں اقتدار سونپتے ہیں یا غلط آدمیوں کے ہاتھ میں ۔بگاڑ کے لیے کام کرنے والے تمام لوگ کسی دوسرے کام پر اتنی طاقت صرف نہیں کرتے جتنی عوام کو بہکانے پر صرف کرتے ہیں تاکہ وہ کبھی بھی صحیح انتخاب کرنے کے قابل نہ ہو سکیں۔ عوام کو بہکانے کے لیے سب سے آسان طریقہ مین اسٹریم الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے دیکھ کر تعمیری کام کرنے والوں کا دل بیٹھ جاتا ہے اور ہمت ٹوٹ جاتی ہے لیکن ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا ملک نیک اور تعمیر پسند افراد سے کبھی بھی خالی نہیں رہا اور ہماری قوم بحیثیت مجموعی خیر کے کاموں کو پسند کرنے والی ہی رہی ہے۔ اس لیے اگر ان کے سامنے حقائق کو پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں۔ موجودہ دور پوسٹ ٹروتھ (post-truth) دور مانا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو حقیقت (fact) کے بجائے ایسی چیزیں دکھائی جاتی ہیں جو ان کے جذبات عقائد اور نظریات سے مناسبت رکھتی ہوں۔ اور یہی وہ ہتھیار ہے جسے استعمال کر کے حکومت لوگوں کو دیش بھکت بنا سکتی ہے یا پھر فسادی بھی بنا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگ فسادی کیسے بن رہے ہیں؟ انہیں کوئی کہتا تو نہیں ہے کہ فساد برپا کرو؟ تو پھر یہ کام کیسے کیا جاتا ہے؟ تو اسے سمجھنے کے لیے سائیکالوجی کا ایک تصور جسے ’’نج‘‘ NUDGE کہتے ہیں جاننا ہو گا۔ آئیے اس کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔
‘’’نج تھیوری‘‘ (NudgeTheory) ایک نفسیاتی اور معاشی تصور ہے جو انسانی رویوں کو متاثر کرنے کے لیے چھوٹی، غیر محسوس ترغیبات یا ’’نج‘‘ (nudge) کے استعمال پر مبنی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد لوگوں پر زبردستی یا پابندی عائد کیے بغیر ان کے فیصلوں میں بہتر انتخاب کی طرف راغب کرنا ہے۔ اس تھیوری کو سب سے پہلے امریکی ماہرینِ معاشیات رچرڈ ایچ تھیلر H Thaler Richard اور کیس آر سنسٹین Cass R Sunstein نے 2008 میں اپنی کتاب Nudge میں متعارف کرایا۔ تھیلر کو اس کام پر 2017 میں معاشیات کا نوبل انعام بھی ملا۔ یہ تھیوری "Behavioral Economics” سے جڑی ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ انسان مکمل طور پر عقلی فیصلے نہیں کرتا بلکہ اس کا انتخاب جذبات، عادات اور ماحول سے متاثر ہوتے ہے۔ نج تھیوری کی ابتدا مغربی ممالک میں حکومتی پالیسیوں اور کاروباری حکمت عملیوں کے طور پر ہوئی مثلاً لوگوں کو صحت مند کھانے، بچت کرنے یا ماحولیاتی تحفظ کی طرف راغب کرنا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، کینٹین میں صحت مند کھانوں کو آسانی سے قابل رسائی جگہ پر رکھنا ایک ’’نج‘‘ ہو سکتا ہے اور اسی طرح ورلڈ بینک نے میکسیکو میں اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے پر لوگوں کو یہ میسیج دینا شروع کیا کہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں آپ کی بچت کتنی ہے اس سے لوگوں کو زیادہ پیسے بچانے کرنے کا ایک نج ملا اور لوگوں نے گیارہ فیصد زیادہ بچت کی۔ اس کامطلب کیا ہے؟
یعنی نج ایک ایسا نفسیاتی حربہ ہے جس کا استعمال کرکے لوگوں کے رویہ میں غیر محسوس طریقے سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ نج ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس کا استعمال رویوں کو بہتر بنانے میں یا پھر لوگوں کے رویہ میں تشدد اور نفرت پیدا کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا ’’نج تھیوری‘‘ کے ذریعے تعصب کو کیسے پروان چڑھا رہا ہے؟
یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا جو دنیا کی سب سے بڑی میڈیا مارکیٹس میں سے ایک ہے، اس نے حالیہ برسوں میں ’’نج تھیوری‘‘ کے اصولوں کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنایا ہے، لیکن اکثر اسے تعصب اور ایجنڈے پر مبنی بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح میڈیا اس تھیوری کو استعمال کر کے ناظرین کے رویوں کو مخصوص سمت میں موڑتا ہے اور معاشرتی تعصبات کو تقویت دیتا ہے۔
1. نج تھیوری کا میڈیا میں اطلاق:
ہندوستانی میڈیا، خاص طور پر نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ناظرین کے سامنے معلومات کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ ان کے فیصلوں اور خیالات کو غیر محسوس طریقے سے متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرسرخیوں کا انتخاب سنسنی خیز اور جذباتی ہوتا ہے جیسے ’’کیا یہ ملک کے خلاف سازش ہے؟‘‘ یا ’’دیش کے غدار کون؟‘‘ اس طرح کے نجز ناظرین کو بغیر ثبوت کے کسی نتیجے کی طرف راغب کرتی ہیں۔
بصری اثرات: تصاویر، ویڈیوز اور گرافکس کا استعمال، جیسے مسلم کمیونٹی سے متعلق منفی واقعات کو بار بار دکھانا، ایک خاص گروہ کے خلاف تعصب کو مضبوط کرتا ہے۔
بحث کے فریم ورک: ٹی وی ڈیبیٹس میں سوالات کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نقطہ نظر کو تقویت دیں، جیسے ’’کیا مذہبی جذبات ملک کو کمزور کر رہے ہیں؟‘‘ یہ ناظرین کو لاشعوری طور پر اس طرف دھکیلتا ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کو موردِ الزام ٹھیرائیں۔
2. تعصب کو پروان چڑھانے کے طریقے:
ہندوستانی میڈیا نے ’’نج تھیوری‘‘ کو اکثر فرقہ وارانہ اور سیاسی تعصبات کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کچھ اہم طریقے درج ذیل ہیں:
مسلمانوں کے خلاف بیانیہ: حالیہ برسوں میں خاص طور پر کووڈ-19 کے دوران تبلیغی جماعت کے واقعے کو میڈیا نے اس طرح پیش کیا کہ مسلم کمیونٹی کو وبا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ بار بار ’’کورونا جہاد‘‘ اور اس کے علاوہ حالیہ وقف ترمیمی بل کے دوران ’’لینڈ جہاد‘‘ جیسے جملے استعمال کر کے ناظرین کو یہ ’’نج‘‘ دیا گیا کہ مسلمان ملک کے لیے خطرہ ہیں۔ بی جے پی اور ہندتوا ایجنڈے سے جڑے موضوعات جیسے رام مندر یا گائے کی حفاظت کو مثبت انداز میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ مخالفت کرنے والوں کو ’’غدار‘‘ یا ’’ملک دشمن‘‘ کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ یہ ناظرین کو ہندو قوم پرستی کی حمایت کی طرف دھکیلتا ہے۔ میڈیا بعض اوقات مخصوص علاقوں جیسے کشمیر یا ذاتوں کو منفی انداز میں پیش کرتا ہے جس سے ناظرین کے ذہنوں میں تعصبات جنم لیتے ہیں۔
3.معاشرتی اثرات:
اس طرح کے ’’نج‘‘ کے نتیجے میں معاشرے میں پولرائزیشن بڑھتا ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ پہلگام کے دہشت گردانہ حملہ میں بیانیہ دیا گیا کہ ’’نام پوچھ کر مارا‘‘ یہ لوگوں میں پولارائیزیشن بڑھانے کا ’’نج‘‘ تھا۔
ہجومی تشدد: میڈیا کے بیانیے نے گائے کے تحفظ یا مذہبی جذبات کے نام پر ہجومی تشدد کے واقعات کو بڑھاوا دیا، جیسے 2015 میں اخلاق احمد کا قتل یا 2018 میں بلند شہر میں پولیس انسپکٹر سبودھ کمار کا قتل وغیرہ
سوشل میڈیا کی بازگشت: واٹس ایپ اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارموں پر میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی غلط معلومات اور تعصبات تیزی سے پھیلتے ہیں جو نفرت انگیز مواد کو عام کر دیتے ہیں، جیسے ’’لو جہاد‘‘ اور ’’بْلی بائی‘‘ اور ’’سْلی ڈیلز‘‘ جیسے واقعات۔
سیاسی جماعتیں، خاص طور پر بی جے پی، اس تعصب سے فائدہ اٹھاتی ہیں، جیسے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) کے دوران میڈیا کے ذریعے مسلم مخالف جذبات کو ہوا دینا۔ اگرچہ ’’نج تھیوری‘‘ کا اصل مقصد مثبت تبدیلی لانا تھا، ہندوستانی میڈیا نے اسے اکثر منفی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ تعصبات نہ صرف اقلیتوں کے خلاف نفرت کو بڑھاتے ہیں بلکہ جمہوری اقدار اور معاشرتی ہم آہنگی کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ میڈیا کی یہ حکمت عملی ناظرین کے جذبات سے کھیلتی ہے، ان کے عقلی تجزیے کو کمزور کرتی ہے اور ایک تقسیم شدہ معاشرے کو جنم دیتی ہے۔ ہندوستانی مین اسٹریم میڈیا ’’نج تھیوری‘‘ کے اصولوں کو استعمال کر کے ناظرین کو لا شعوری طور پر تعصب کی طرف راغب کر رہا ہے جو مذہبی، سیاسی اور علاقائی پولرائزیشن کو فروغ دیتا ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرتی تانے بانے کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ ہندوستان کے کثیر ثقافتی تشخص کو بھی خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے میڈیا کی جواب دہی اور غیر جانب داری کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
نج تھیوری اور مسلم سماج
مسلم کمیونٹی ’’نج تھیوری‘‘ کو مثبت انداز میں کیسے استعمال کر سکتی ہے اور ہندوستان میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے یہ جاننا نہایت اہم ہے۔
یاد رکھیں کہ ’’نج تھیوری‘‘ ایک طاقتور ٹول ہے جسے انسانی رویوں کو بہتر سمت میں موڑنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جہاں ہندوستانی میڈیا نے اسے تعصب اور پولرائزیشن کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا، وہیں مسلم کمیونٹی اسے مثبت انداز میں اپنا کر معاشرتی ہم آہنگی، تعلیم اور خود ترقی کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔ ایسے چند اہم نکات ملاحظہ فرمائیں کہ مسلم کمیونٹی ’’نج تھیوری‘‘ کو کس طرح استعمال کر سکتی ہے اور میڈیا کے منفی ’’نج‘‘ کے مقابلے میں اسے کیسے مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
1.تعلیم اور بیداری کو فروغ دینا:
مثبت نج: مسلم کمیونٹی کے رہنما، ادارے، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تعلیمی مواقع کو نمایاں کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مساجد میں مختصر پیغامات یا پوسٹرز لگائے جا سکتے ہیں جو بچوں کی تعلیم اور خواتین کی ہنر مندی (skill development) کی ترغیب دیں، جیسے ’’اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں، مستقبل سنواریں‘‘۔
مقابلہ: میڈیا کے ’’مسلمانوں کو کم خواندہ‘‘ دکھانے کے بیانیے کے برخلاف، کمیونٹی اپنے کامیاب طلبہ اور پیشہ ور افراد کی کہانیاں شیئر کر کے ایک متبادل بیانیہ بنا سکتی ہے جس کی ایک اچھی مثال حالیہ وقف ترمیمی بل کے دوران وزیر اعظم کی جانب سے مسلمانوں کو پنکچر والا کہنے پر مسلمان نوجوانوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم’’میں بھی پنکچر والا‘‘ بہترین جواب تھا۔
2. معاشرتی ہم آہنگی کو بڑھانا:
مسلم کمیونٹی دیگر مذاہب کے لوگوں کو اپنے تہواروں جیسے عید اور رمضان میں حصہ لینے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر محلے میں مشترکہ تقریبات کا اہتمام کرنا یا ’’پڑوسیوں کے ساتھ تہوار منائیں‘‘ جیسے پیغامات پھیلانا۔ میڈیا کے ’’مسلمانوں کو الگ تھلگ‘‘دکھانے کے بیانیے کے مقابلے میں، یہ اقدامات بین المذاہب تعلقات کو مضبوط کر سکتے ہیں اور نفرت کے بیانیے کو کمزور کر سکتے ہیں۔
3. معاشی خود انحصاری:
چھوٹے کاروبار اور ہنر سیکھنے کی ترغیب دینے کے لیے ’’نج‘‘ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر مساجد یا کمیونٹی سنٹروں میں مفت ورکشاپس کا اعلان کرنا یا ’’اپنا ہنر سیکھیں، خود کفیل بنیں‘‘ جیسے نعرے پھیلانا۔: میڈیا کے ’’مسلمان غریب اور پسماندہ ہیں‘‘ کے بیانیے کے مقابلے میں یہ کوششیں کمیونٹی کی معاشی ترقی کو اجاگر کر کے تعصب کو چیلنج کر سکتی ہیں۔ خاص کر عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے ایک رپورٹ اس سال جنوری میں شایع کی گئی ہے ’’فیوچر آف جابس‘‘ جس میں اگلے پانچ سالوں میں کن نوکریوں کی مانگ بڑھے گی اور کونسی نوکریاں ختم ہونے والی ہیں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ کو نظر میں رکھتے ہوئے آن لائن جابز کی طرف مسلم نوجوانوں اور خاص طور پر خواتین کو بھی مناسب نوکریوں کی طرف متوجہ کروانے کا کام کیا جا سکتا ہے۔
4. مثبت تشخص کی تشکیل:
مسلم نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر اپنی ثقافت، فنون اور خدمات کی نمائش کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، ’’اپنی کہانی شیئر کرو‘‘ مہم چلائی جاسکتی ہے جو مسلم کمیونٹی کے مثبت کردار کو سامنے لائے۔ میڈیا کے منفی اسٹیریوٹائپنگ جیسے ’’مسلمان دہشت گرد‘‘ یا ’’ملک دشمن‘‘ کے مقابلے میں، یہ مہم ایک متوازن اور مثبت امیج پیش کر سکتی ہے۔ اس معاملہ میں حالیہ پہلگام کے واقعے کے بعد کشمیری مسلمانوں کی جانب سے چلائی جانے والی مہم عمدہ مثال ہے۔
میڈیا کے منفی ’’نج‘‘ کے مقابلے میں حکمت عملی
ہندوستانی میڈیا نے ’’نج تھیوری‘‘ کو پولرائزیشن بڑھانے کے لیے استعمال کیا، جیسے کہ مسلم کمیونٹی کو ’’خطرہ‘‘ کے طور پر پیش کرنا۔ اس کے مقابلے میں مسلم کمیونٹی درج ذیل طریقوں سے مثبت ’’نج‘‘ کو مؤثر بنا یا جا سکتا ہے۔
1.بیانیے کو دوبارہ فریم کرنا:
میڈیا کا منفی نج:’’تبلیغی جماعت نے وبا پھیلائی‘‘ اور ’’کرونا جہاد اور ’’لینڈ جہاد‘‘ جیسے بیانیے۔
مثبت نج کا استعمال: مسلم کمیونٹی اپنی طرف سے ’’ہم نے کووڈ-19 میں لوگوں کی کیسے مدد کی‘‘ جیسے پیغامات پھیلا سکتی ہے، جیسے کہ مسلم رضاکاروں کی طرف سے ہسپتالوں یا خوراک کی تقسیم اور غیر مسلم افراد کی آخری رسومات تک ادا کرنے اور خدمت خلق کی کہانیاں شیئر کرنا۔ اس سے منفی اسٹیریوٹائپ کمزور پڑتا ہے۔
2. سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال
میڈیا کا منفی نج: واٹس ایپ اور ٹویٹر پر نفرت انگیز مواد کی گردش۔
مثبت نج کااستعمال: مسلم کمیونٹی سوشل میڈیا پر منظم مہمات چلا سکتی ہے، جیسے کہ #MuslimForPeace یا #HamaraBharat جیسے ہیش ٹیگز کے ذریعے مثبت پیغامات پھیلانا۔ یہ نفرت کے مقابلے میں اتحاد کو فروغ دے گا۔
3. کمیونٹی لیڈرشپ کو متحرک کرنا
میڈیا کا منفی نج: مسلم رہنماؤں کو "فرقہ پرست” کے طور پر دکھانا۔
مثبت نج کا استعمال: مسلم رہنما اور علماء معاشرتی بہبود کے پروگراموں جیسے خون کا عطیہ یا صفائی مہم کی قیادت کر سکتے ہیں اور بلا لحاظ مذہب لوگوں کی خدمت کرکے میڈیا کے بیانیے کو چیلنج کرتے ہوئے کمیونٹی کی مثبت تصویر پیش کرسکتے ہیں۔
4. بین المذاہب تعاون
میڈیا کا منفی نج: ’’مسلمان ہندوؤں کے خلاف ہیں‘‘ جیسا بیانیہ۔
مثبت نج کا استعمال: مسلم کمیونٹی ہندو تنظیموں کے ساتھ مل کر سماجی کاموں میں حصہ لے سکتی ہے، جیسے کہ مشترکہ طور پر سیلاب زدگان کی مدد کرنا جو نفرت کے بیانیے کو کمزور کرے گا۔ سدبھاؤنا منچ بنانا، شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے مل جل کر اقدامات کرنا، مسلم سماجی کارکنان کو اپنے ساتھ انگیج کرنا۔ اس کے علاوہ تعلیمی مہم وغیرہ۔ اسی طرح دینی مدرسوں میں جدید تعلیم کے پروگرام شروع کر کے ’’نج‘‘ دیا جا سکتا ہے کہ ’’تعلیم ہی ترقی کی کنجی ہے‘‘۔ ثقافتی پروگرام: عید یا دیگر تہواروں پر غیر مسلموں کو مدعو کر کے ’’ہم سب ایک ہیں‘‘ کا پیغام دیا جاسکتا ہے۔ مسلم ڈاکٹروں، انجینئروں، خاص کر خواتین اور سماجی کارکنوں کی کہانیاں شیئر کر کے مثبت رول ماڈلوں کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ مقامی سطح پر اتحاد، محلے کی سطح پر مشترکہ صفائی یا درخت لگانے کی مہمات کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ۔
مسلم کمیونٹی ’’نج تھیوری‘‘ کو مثبت انداز میں استعمال کر کے نہ صرف اپنی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنا سکتی ہے بلکہ ملک میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن کا مقابلہ بھی کر سکتی ہے۔ میڈیا کے منفی ’’نج‘‘ کے مقابلے میں یہ مثبت حکمت عملی معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دے گی اور تعصبات کو کم کرے گی۔ اس کے لیے کمیونٹی کو منظم انداز میںکام کرنا ہوگا، سوشل میڈیا اور مقامی سطح پر اپنی آواز کو مضبوط کرنا ہوگا اور اتحاد و ترقی کے پیغام کو عام کرنا ہوگا۔ اگر یہ کوششیں کامیاب ہوئیں تو یہ نہ صرف مسلم کمیونٹی بلکہ پورے ہندوستانی معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔
(مضمون نگار سے رابطہ کے لیے
[email protected])
***

 

***

 مسلم کمیونٹی ’’نج تھیوری‘‘ کو مثبت انداز میں استعمال کر کے نہ صرف اپنی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنا سکتی ہے بلکہ ملک میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن کا مقابلہ بھی کر سکتی ہے۔ میڈیا کے منفی ’’نج‘‘ کے مقابلے میں یہ مثبت حکمت عملی معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دے گی اور تعصبات کو کم کرے گی۔ اس کے لیے کمیونٹی کو منظم انداز میںکام کرنا ہوگا، سوشل میڈیا اور مقامی سطح پر اپنی آواز کو مضبوط کرنا ہوگا اور اتحاد و ترقی کے پیغام کو عام کرنا ہوگا۔ اگر یہ کوششیں کامیاب ہوئیں تو یہ نہ صرف مسلم کمیونٹی بلکہ پورے ہندوستانی معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025