میوات: تشدد کے بعد مسلمانوں پر دوہری مار،گرفتار لوگوں میں 90 فیصد مسلمان
مسلمانوں کا الزام ،پولیس نے خاص طور پر کمیونٹی کے مردوں کو نشانہ بنایا اور ہندو ؤں کے خلاف کارروائی نہیں کی
نوح، نئی دہلی10 اگست:۔
ہریانہ کے نوح اور میوات میں ہوئے حالیہ فسادات میں میوات کے مسلمانوں پر دوہری مار پڑ رہی ہے ،ایک طرف تشدد کے دوران ان کے مکانات اور دکان جلا دیئے گئے ،اقتصادی طور پر ان کی کمر توڑ دی گئی دوسری طرف سرکار نے ان کے بچے مکانوں اور غریبوں کے آشیانوں پر بلڈوزر چلا کر ان کا مستقبل تاریک کر دیا اور اب پولیس کی کارروائی میں بھی گھر کے مردوں اور نوجوانوں یہاں تک کہ نابالغ لڑکوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔
دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد ہونے والے تشدد کے سلسلے میں 170 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔نوح پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار کیے گئے افراد میں سے 90 فیصد کے قریب مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
نوح میں تشدد کے سلسلے میں کل 56 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے خاص طور پر کمیونٹی کے مردوں کو نشانہ بنایا اور ہندو مردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
دی پرنٹ ک رپورٹ کے مطابق ، پولیس افسر نے بتایا کہ ہاں، گرفتار ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ تشدد میں ملوث ہندوؤں کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ تورو میں ایک مسجد کو آگ لگانے کے الزام میں چار لوگوں (ہندو) کو گرفتار کیا گیا ہے۔ چار دیگر افراد کی بھی شناخت ہو گئی ہے۔
دریں اثناء نوح میں مسلمان خاندان گرفتار افراد کے لیے انصاف کے منتظر ہیں اور اپنی بے گناہی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق نوح میں مقیم وکیل طاہر حسین روپڑیا کے دفتر میں، ایک بیوہ، حورجہاں بار بار اپنے بیٹوں اور داماد کو ‘بچانے’ کے لیے کہتی ہے، جب کہ حسین اس میں شامل پیچیدہ قانونی عمل کی وضاحت کر کے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ان کے بیٹے جنید (21) اور عادل (19) اور ان کے داماد انعام کو نوح پولیس نے ہندوتوا گروپوں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور ماتروشکتی درگا کے زیر اہتمام برج منڈل یاترا کے دوران تشدد کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔حورجہاں نے دی پرنٹ کو بتایا، "انعام تشدد کے دن گھر میں سو رہا تھا۔ جنید لائبریری میں تھا اور عادل انعام کی دکان کی دیکھ بھال کے لیے گیا ہوا تھا۔ گھر میں صرف ایک فون ہے۔ جنید (NEET) کی تیاری کر رہا ہے اور عادل نے انجینئرنگ کورس میں داخلہ لیا ہے۔ ان کے شوہر کا گزشتہ رمضان میں انتقال ہو گیا تھا۔ح
ورجہان نے بتایا کہ تشدد کے اگلے دن افراتفری اور جھڑپوں کے خوف سے اس نے تینوں کو پنہانہ میں اپنے چچا کے گھر جانے کو کہا تھا۔ تاہم پولیس نے اسے راستے میں ہی گرفتار کر لیا۔
کچھ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ حراست میں لیے گئے ان کے بیٹوں اور بھائیوں کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ تعلیمی، جس کے بھائی ارباز کو گرفتار کیا گیا تھا، نے کہا، "اس کی عمر صرف 17 سال ہے۔ تشدد کے دن وہ گروگرام میں تھا۔
بہرحال پولیس نے یہ اعتراف تو کیا ہے کہ 56ایف آئی آر کے تحت جو گرفتاریاں ہوہی ہیں ان میں بیشتر مسلمان ہیں۔دی پرنٹ کے مطابق نوح کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) نریندر بجارنیا نے بتایا، "تمام گرفتاریاں شواہد کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ گرفتاری سے قبل عمر کے ثبوت سے متعلق دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔
Hoor Jahan
واضح رہے کہہ نوح میں تشدد کے سلسلے میں، چھ پولیس اسٹیشنوں میں 56 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں – بیچور، جھرکہ، نگینہ، صدر، نوح سٹی اور تورو پولیس اہلکاروں، عینی شاہدین جو یاترا کا حصہ تھے اور تشدد کا شکار ہونے والے دیگر افراد کی شکایات کی بنیاد پر۔ نوح پولیس ذرائع نے بتایا کہ درج کی گئی 56 ایف آئی آرز میں سے ہر ایک کے تحت 20 سے 30 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور نوح پولیس نے فرقہ وارانہ تصادم میں ملوث 200 سے زائد افراد کی شناخت کی ہے، اور گرفتاریوں کی کوششیں جاری ہیں۔چھ لوگوں کی موت کے معاملے میں درج قتل کے سلسلے میں راجستھان کے بھرت پور سے 10 سے 12 مسلم مردوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر دستیاب تصاویر اور مناظر اور سی سی ٹی وی کیمروں میں قید تصاویر کی بنیاد پر 20 سے 39 افراد کی ابتدائی گرفتاریاں کی گئیں۔
بہر حال فی الحال ہریانہ میں تشدد کے واقعات رونما نہیں ہورہے ہیں لیکن حالات اب بھی کشیدہ ہیں ،پولیس کی تعیناتی کی وجہ سے نفرت کی آگ اندر ہی اندر سلگ رہی ہے ،ہندو تنظیموں کے جانب سے مسلمانوں کے خلاف ریلیاں نکال کر پولیس کی موجودگی میں اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی جا رہی ہے اور مسلم تاجروں کو نوح اور میوات میں آنے پر پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ جس سےاب بھی حالات کشیدہ ہیں ۔