مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے کا کہنا ہے کہ مراٹھا کوٹہ کے لیے مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف درج تمام مقدمات واپس لے لیے جائیں گے
نئی دہلی، ستمبر 12: مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے نے پیر کو کہا کہ ریاستی حکومت ان لوگوں کے خلاف تمام مقدمات واپس لے لے گی جنھوں نے اس ماہ کے شروع میں جالنا قصبے میں مراٹھوں کے ریزرویشن کوٹہ کے لیے احتجاج کیا تھا۔
یکم ستمبر کو جالنا میں پولیس اور مراٹھا کمیونٹی کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین کے پتھراؤ کے نتیجے میں 40 پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے اور پولیس نے ان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ ریاستی ٹرانسپورٹ کی 15 سے زیادہ بسوں کو بھی آگ لگا دی گئی تھی۔
یہ تشدد 2 ستمبر کو بھی جاری رہا تھا کیوں کہ ضلع میں مظاہرین کی طرف سے مبینہ طور پر مزید گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا۔ مہاراشٹر کے کئی دوسرے بڑے شہروں بشمول سولاپور، ناندیڑ، چھترپتی سمبھاجی نگر اور ناگپور میں بھی مراٹھا ریزرویشن کے مطالبے کی حمایت میں مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔
اس وقت پولیس نے 40 لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور جالنا میں تشدد کے سلسلے میں 600 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
پیر کو شندے نے کہا کہ یہ ریاستی حکومت کی ترجیح ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ مراٹھا برادری سماجی اور تعلیمی بنیادوں پر پسماندہ ہے تاکہ اسے ریزرویشن ملے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ہم کوئی بھی [کمزور] فیصلہ لے کر کسی کو دھوکا نہیں دینا چاہتے۔ جو فیصلہ ہم لیتے ہیں اسے قانونی طور پر مکمل ہونا چاہیے۔ حکومت کا موقف ہے کہ مراٹھا برادری کو دیے گئے تحفظات فول پروف ہونے چاہئیں۔‘‘
ریزرویشن کے مطالبے پر بحث کے لیے پیر کو ممبئی میں ایک آل پارٹی میٹنگ بھی ہوئی۔ شندے نے کہا کہ میٹنگ کے دوران تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے مراٹھا لیڈر منوج جارنگ پاٹل پر زور دیا کہ وہ اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ جارنگ پاٹل 29 اگست سے انشن پر ہیں۔
شندے نے کہا کہ ریاستی حکومت مراٹھوں کو ریزرویشن فراہم کرے گی اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ دیگر برادریوں کو کسی قسم کی ناانصافی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت مظاہرین پر لاٹھی چارج کرنے والی پولیس کارروائی کی حمایت نہیں کرتی ہے۔
2018 میں مہاراشٹر حکومت، جس کی سربراہی اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما دیویندر فڈنویس کر رہے تھے، نے ریاست گیر احتجاج کے بعد مراٹھوں کے لیے ملازمتوں اور تعلیم میں 16 فیصد ریزرویشن کو منظوری دی تھی۔ 2019 میں بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا لیکن کہا کہ 16 فیصد کوٹہ جائز نہیں ہے۔
2020 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر روک لگا دی۔ ایک سال بعد سپریم کورٹ کی ایک بڑی بنچ نے اس ریزرویشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کر دیا تھا۔