مودی کے زوال میں بھاگوت کا عروج!

عوامی مسائل حل کرنے کے لیے اندھ بھکتی کا خاتمہ لازمی

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

للن ناگپوری نے کلن احمد آبادی سے کہا تم نے اپنے جاں باز چیتے کا نیا بھاشن سنا یا نہیں؟ مزہ آگیا بلکہ موڈ بن گیا۔
ارے بھیا سری نگر کے شیرِ کشمیر اسٹیڈیم میں بھیگی بلی بن کر مخالفین کو کوسنے والی تقریر دیکھ کر میرا تو موڈ ہی خراب ہوگیا۔
اوہو کلن میں پردھان جی کی نہیں بلکہ اپنے ناگپوری چیتے بھاگوت کی بات کررہا تھا۔
ارے ہاں، قومی انتخاب میں پارٹی کی ناکامی کے بعد وہ کچھ زیادہ ہی اچھل کود کر رہے ہیں لیکن میں ان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔
کیا بات کرتے ہو؟ اپنے سرسنگھ چالک کے بارے میں ایسی بات کہنے سے پہلے تمہاری زبان کیوں نہیں جل گئی؟
کلن بولا بھیا ان کا تو ایسا ہے کہ آج کچھ کہتے ہیں اگلے دن اس کے بالکل متضاد بیان دے دیتے ہیں۔ مجھے تو وہ کنفیوژڈ آدمی لگتا ہے۔
للن قہقہہ لگا کر بولا تم نے صحیح کہا، دوسروں کو کنفیوژ کرنے کے لیے کبھی کبھار ایسا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اچھا تو ٹھیک ہے تم کنفیوژ ہونے کے لیے ان کی باتیں سنو اور سر دھنو مجھے اس بک بک میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ارے بھیا وہ جیسے بھی ہیں ہمارے سرسنگھ چالک ہیں اور جب تک اس عہدے پر فائز ہیں ان کا احترام تو کرنا ہی پڑے گا نا؟
کلن بولا اچھا اب بلا وجہ کی تعریف و توصیف چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ آخر وہ کون سا بیان ہے جس نے تمہیں بلیوں اچھلنے پر مجبور کر دیا؟
ارے بھیا انہوں نے اعلان کیا ’یہ کہا جاتا ہے کہ سناتن دھرم کے عروج کا وقت آگیا ہے۔ یہ آ گیا ہے۔ ہم اس کے گواہ ہیں‘۔
یار یہ عجیب آدمی ہے۔ دو سال قبل جب ہمارے 303 ارکان پارلیمنٹ اور 62 پکے حامی تھے تو یہ ڈرا رہا تھا کہ سناتن خطرے میں ہے اور اب ۔۔۔
اچھا چھپن انچ والے پردھان جی کے ہوتے سناتن یا ہندتوا خطرے میں کیوں کر ہوسکتا ہے؟
للن ایک کام کرو تم گوگل میں تریپورہ کے اندر موہن بھاگوت کی 27 اگست 2022 والی تقریر کھول کر پڑھ لو سب پتہ چل جائے گا۔
للن نے کہا دیکھو بھیا تم مجھے محنت کرنے کے لیے نہ کہو سیدھے بتاؤ کہ بھاگوت جی نے کیا کہا تھا؟
انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے مذہب کی حفاظت کرنی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر اس کے لیے اپنی زندگی تک قربان کردینی چاہیے۔
للن نے کہا یار ہم اپنی جان کیوں دیں؟ اس کام کے لیے تو اپنے اگنی ویر ہی کافی ہیں۔ ویسے بھی ہم لوگ قربانی وربانی میں یقین نہیں رکھتے۔
اور ہاں بھاگوت جی نے یہ بھی کہا تھا کہ سناتن دھرم سب کو اپنا مانتا ہے۔ یہ کسی کو تبدیل نہیں کرتا۔
للن نے سوال کیا اچھا تو یہ ہر دوسرے دن گھر واپسی کی خبر آتی ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟
ارے بھائی میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ کنفیوژڈ آدمی ہے لیکن تم نہیں مانے۔ہاں یار یہ سمجھنا تو مشکل ہے کہ اس وقت سناتن دھرم زوال پذیر تھا اور اب عروج پر آگیا ۔
اوہو للن سمجھتے کیوں نہیں؟ دراصل پردھان جی کے عروج میں بھاگوت کا زوال اور ان کی پستی میں ان کی بلندی ہے۔ کیا سمجھے؟
یار کلن مجھے یاد پڑتا ہے کہ بھاگوت جی نے ایک بار کہا تھا کہ ’سچے دل سے پوجا کرنا انسان کو اپنے بھگوان کی طرف لے جاتا ہے‘۔
جی ہاں میں نے بھی وہ ویڈیو دیکھی تھی لیکن تروپتی جیسے مندر میں پوجا پاٹ کے بعد مویشی کی چربی اور مچھلی کے تیل والے لڈو کھانا کیسا ہے؟
للن نے کہا ارے یہ تو مہاپاپ ہے، ہندو ہردیہ سمراٹ پردھان جی کے ہوتے یہ نہیں ہوسکتا؟
اپنی سرکار کے حامی چندرا بابو نائیڈو نے الزام لگایا کہ تروپتی بالاجی کے مندر میں یہ ہورہا تھا اور اس کے لیے وائی ایس آر کی سرکار ذمہ دار تھی۔
یار لیکن کیا اپنے مندر کے سادھو سنت اتنے بھولے بھالے ہیں کہ ان کو پتہ نہیں چلا یا پھر وہ بھی اس بد عنوانی میں ملوث تھے؟
کلن بولا بھیا یہ تو مجھے نہیں پتہ لیکن رام مندر کے پران پرتشٹھا کے وقت تروپتی سے چار ٹن یعنی ایک لاکھ لڈو ایودھیا میں بھی بٹے تھے۔
اچھا تب تو سبھی کا دھرم بھرشٹ ہوگیا ہوگا۔ وہاں تو یوگی کے ساتھ اپنے شیر اور چیتا یعنی پردھان اور بھاگووَت دونوں موجود تھے۔
ہاں یار اچھا ہی ہوا جو شنکر آچاریہ نہیں آئے ورنہ ان کا بھی دھرم بھرشٹ ہوجاتا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سناتن دھرم کا کون سا عروج ہے؟
بھیا لڈو کو چھوڑو بھاگوت نے امریکہ، چین اور روس کو نشانہ بناکر کہا کہ وہ طاقت ور قومیں دنیا پر راج کرنا چاہتی ہیں اور ہم روحانیت کا احساس دلاتے ہیں۔
کلن بولایہ کیسی روحانیت ہے کہ ڈبل انجن سرکار میں ایک فوجی کی منگیتر کے ساتھ اوباش نوجوان چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور جب وہ شکایت درج کروانے کے لیے پولیس اسٹیشن جاتی ہے تو وہاں پولیس والے بجائے اس کی رپورٹ درج کرنے کے الٹا اس کے ساتھ بدسلوکی کرنے لگتے ہیں۔
ہاں یار پردھان جی نے اوڈیشہ میں اپنی سالگرہ منائی اور خواتین کو بااختیار بنانے کا نعرہ لگایا مگر افسوس کہ اس کے فوراً بعد یہ سانحہ رونما ہوگیا۔
کلن نے کہا اور وہ مظلوم عورت نہ صرف فوجی کی منگیتر بلکہ وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی تجارت کرتی تھی۔
اچھا اس کے باوجود ڈبل انجن پولیس تھانے میں اس کے ساتھ بد سلوکی ہو گئی تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ یار یہ تو بڑی شرم ناک صورت حال ہے۔
کلن نے کہا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے قبل شہر اندور میں بھی فوجی اہلکاروں اور ان کی خاتون ساتھی کے ساتھ ایسا خوف ناک واقعہ پیش آچکا ہے۔
للن نے حیرت سے بولا اچھا میں تو دن رات کولکاتا کی ویڈیو دیکھتا رہا مگر اپنی ڈبل انجن سرکار میں یہ کیسے ممکن ہے؟
ارے بھیا کولکاتا کے بارے میں تو سی بی آئی نے عدالت میں کہہ دیا کہ اسے اس معاملے میں اجتماعی عصمت دری کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
للن نے چونک کر سوال کیا، کیا بکتے ہو۔کہیں ممتا نے سی بی آئی کو ڈرا دھمکا کر خرید تو نہیں لیا؟
دیکھو بھیا اگر تمہارا خیال درست ہے تو ماننا پڑے گا کہ امیت شاہ سے زیادہ طاقت ور ممتا ہے کیونکہ سی بی آئی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔
للن نے پوچھا اب ممتا اور شاہ کو چھوڑو اور یہ بتاؤکہ مہاکال کے مدھیہ پردیش میں فوجیوں کے ساتھ کیا ناانصافی ہوئی؟
بھیا 11 ستمبر کو دو فوجی اہلکار اپنی خاتون ساتھیوں کے ساتھ پکنک کے لیے ’جام گیٹ‘ کے قریب پرانی فائرنگ رینج میں بیٹھے تھے۔
للن نے کہا اچھا تو اس پر کسی کو کیا اعتراض تھا؟
وہاں اچانک چھ بدمعاش پہنچ گئے۔ انہوں نے ان لوگوں کو باندھ کر مار پیٹ کی اور لوٹ مار کے بعد ان کی ایک ساتھی خاتون کی آبرو ریزی بھی کی۔
یار کمال ہے فوجیوں کے ساتھ ایسا کرنے کی جرأت کون کرسکتا ہے؟
کلن بولا ان کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ایک فوجی اور خاتون ساتھی کو یرغمال بنا کر دوسرے فوجی کو دس لاکھ روپے لانے کے لیے بھیج دیا۔
اچھا تو آگے کیا ہوا؟ کیا دس لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد ان کی رہائی ہوئی؟
نہیں، اس فوجی نے اپنے اعلیٰ افسر کو فون کر دیا اور فورس آگئی مگر تب تک دوسری خاتون ساتھی کی بندوق کی نوک پر عصمت دری ہوچکی تھی۔
للن نے سوال کیا لیکن یار یہ بتاؤ اس دوران اپنی بلڈوزر سرکار کیا کر رہی تھی؟ ایسا جنگل راج تو لالو یادو کے بہار میں بھی نہیں تھا۔
ارے بھائی اندور کے انچارج تو خود وزیر اعلیٰ موہن یادو ہیں اور وہی ریاست کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ ان کو تو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔
للن بولا بھائی یہ تو ناممکن ہے۔ اس لیے کہ ہماری طرح ان کو بھی سنگھ کی شاکھا میں چکنا گھڑا بنا دیا گیا ہوگا۔
کلن نے تائید کی اور بولا جی ہاں، وہ تو ہے۔ اسی لیے شرم و حیا سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں اور اسی لیے ہم لوگ مستعفی ہونے کی جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔
للن نے کہا یار ملک کے اندر تو حالات ٹھیک نہیں ہیں مگر عالمی سطح پر ہمارے ملک کا وقار بڑھ رہا ہے۔ بھارت بہت جلد وشو گرو بننے جا رہا ہے۔
کلن نے ہنس کر بولا یہ کس بیوقوف نے تم سے کہہ دیا؟
یار ایسے نہ بولو بھاگوت جی نے ہی کہا کہ یوگی اروند نے اعلان کیا تھا۔ پوری دنیا کا ملک کے تئیں رویہ تبدیل ہو رہا ہے جسے وہ جانتے ہیں۔
اچھا اگر ایسا ہے تو خالصتانی گرُپتونت سنگھ پنوں کی شکایت پر امریکی عدالت نے ہمارے سُپر مین اجیت ڈوبھال کو سمن بھیجنے کی ہمت کیسے کی؟
کیا بکتے ہو؟ تو کیا اس بار ہمارے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سائے کی طرح وزیر اعظم کے ساتھ امریکہ کے دورے پر نہیں جا سکیں گے؟
کیسے جائیں گے؟ اگر جائیں گے تو دھر لیے جائیں گے ۔
للن بولا لیکن میں نے تو پردھان جی کو امریکی صدر سے معانقہ کرتےدیکھا اور پھر وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پرانے مکان میں لے جارہے تھے ۔
یہ تو تم نے زی ٹی وی پر دیکھ لیا ہوگا مگر تمہیں پتہ ہے اس وقت امریکی صدر کی سرکاری رہائش وائٹ ہاوس میں کیا کھیل ہو رہا تھا؟
بھیا یہ سب پردے کے پیچھے کی باتیں تو تم ہی جانتے ہو۔ ہم لوگ تو بس سامنے کی باتیں جانتے ہیں۔
ہاں تو سنو، اس وقت امریکی انتظامیہ کے لوگ سکھ دہشت گردوں کے اہل خانہ کے آنسو پونچھ کر انہیں تحفظ کی یقین دہانی کر رہے تھے۔
للن بولا یار یہ تو بڑا دوغلا پن ہے۔ سامنے سے گلے ملنا اور پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔
بھیا ہمارے پردھان جی بھی تو کبھی پوتن سے مل کر تیل خریدتے ہیں تو کبھی یوکرین جاکر ڈرون بیچتے ہیں۔ امریکہ اسی سے ناراض ہے۔
لیکن روس بھی ہم سے کہاں خوش ہے؟ میں نے اجیت ڈوبھال کی پوتن کے سامنے کرسی کے کنارے پر بیٹھی تصویر دیکھی تو بہت دکھ ہوا؟
کلن نے کہا ہاں یار اس تصویر کو دیکھ کر میرا بھی موڈ خراب ہوگیا ۔
یار کیا بتاؤں اس رات میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ سوسکا کیونکہ ایسی اہانت کا تصور بھی محال تھا۔
کلن بولا لیکن یہ سمن کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔
یار ایک دہشت گرد کی شکایت پر پردھان جی کے دائیں ہاتھ کو دورے سے قبل سمن بھیج دینا بہت بری بات ہے اسے تاریخ دے کر ٹالا جا سکتا تھا۔
کلن نے کہا دنیا بھر کی عدالتیں ہماری طرح حکومت کا پاس و لحاظ نہیں رکھتیں۔ وہ بے دھڑک فیصلے کرتی ہیں اور ڈوبھال اسی کی زد میں آگئے۔

یار کلن ہماری عدالتیں بھی ٹھیک ٹھاک ہیں تم ان کی تضحیک نہیں کرسکتے۔
مجھے کیا ضرورت پڑی ہے۔ ہماری عدالت خود ایسا کرتی ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس سریش نندہ نے بنگلورو کے مسلم علاقے کو ’پاکستان‘ کہہ دیا۔
اچھا تو کیا وہاں کوئی دنگا فساد ہوگیا تھا جو جج صاحب کو اتنا غصہ آگیا یا ’لو جہاد‘ کا معاملہ تھا؟
نہیں بھیا انشورنس کے معاملے کی سماعت ہورہی تھی تو اس دوران ان کے اندر بھاگوت جی کی آتما گھس گئی۔ پھر کیا تھا وہ پھٹ پڑے اور پھنس گئے۔
للن بولا پھٹ پڑے والی بات تو سمجھ میں آگئی مگر پھنس گئے کا کیا قصہ ہے؟
ارے بھائی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی بنچ نے اس کا از خود نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اب وہ بے چارہ کیا کرے گا؟
للن نے کہا اس میں کیا مسئلہ ہے وہ استعفیٰ دے کر ہماری پارٹی میں آجائے گا اور ہم لوگ اسے وزیر قانون بنادیں گے ۔
یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس جج نے ایک خاتون وکیل کے بارے میں کہہ دیا کہ وہ اپنے مؤکل کے زیر جامہ لباس کو بھی پہچانتی ہیں۔
یار اتنی گندی بات کوئی جج کھلی عدالت میں کیسے کہہ سکتا ہے؟
بھائی دیکھو اندر کی بات کبھی نہ کبھی باہر آہی جاتی ہے اور کیمرہ اسے قید کرلیتا ہے۔
للن نے پوچھا تب تو سارے وکیل اس جج کے خلاف اٹھ کھڑے ہو گئے ہوں گے ؟
جی نہیں جس طرح فوجی اڈیشہ اور اندور کے مظالم کے خلاف نہیں بھڑکے اسی طرح کوئی بھی وکیل اس خاتون کی مدد کے لیے نہیں آیا۔
لیکن اب وہ جج کیا کہہ رہا ہے؟ مجھے تو لگتا ہے اس کو جیل جانا ہی پڑے گا؟
جی نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ غیر ارادی طور پر وہ جملہ منہ سے نکلا۔ کوئی فرد یا طبقہ اس کا ہدف نہیں تھا اور کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو اسے افسوس ہے۔
اچھا۔۔۔۔۔ کیا غیر ارادی طور پر یہ جج کسی کو قتل کردے تو معذرت کرکے چھوٹ جائے گا؟ لیکن اس خاتون والے تبصرے پر اس کا کیا کہنا ہے؟
کلن بولا وہ کہتا ہے کہ اس کا تبصرہ وکیل پر نہیں بلکہ مؤکل پر تھا ۔
کیا مطلب؟ کیا یہ جج کہنا چاہتا ہے کہ اس کا مؤکل اپنے وکیل کا زیر جامہ لباس سے پہچانتا ہے۔ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ فحش کلامی ہے۔
جی ہاں مگر دیگر وکلاء جج کی تعریف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس ویڈیو کو بنانا اور پھیلانا غلط ہے ۔
للن نے حیرت سے کہا یار یہ تو اندھیر نگری چوپٹ راج والی بات ہوگئی۔
یہی تو سناتن دھرم کا عروج ہے بھیا۔ اسی پر تو تمہارے بھاگوت جی خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں اور تم بھی ان کے پیچھے ڈھولک بجاؤ۔
یار دیکھو تم بار بار بھاگوت جی پر تیر نہ چلاؤ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دھرم سب کو اپناتا ہے، سب کو متحد کرتا ہے، ان کی ترقی کرتا ہے۔
کلن نے سوال کیا اچھا اگر ایسا ہے تو نوادہ میں دلتوں کی بستی کو آگ کس نے لگائی؟ کہاں گیا ہندو اتحاد اور کیا یہی ترقی ہے؟
ارے بھائی وہ دلتوں کی آپسی لڑائی تھی ایک طرف پاسوان اور دوسری جانب مانجھی، تم ہمیں کیوں موردِ الزام ٹھیرا رہے ہو؟
کلن نے بگڑ کر کہا اچھا تو کیا مانجھی اور پاسوان ہندو نہیں ہیں اور فی الحال جیتن رام اور چراغ پاسوان ہمارے کھونٹے سے بندھے ہوئے نہیں ہیں؟
دیکھو بھیا بھاگوت جی کہتے ہیں کہ دھرم زندگی کی بنیاد ہے، دھرم توازن اور آزادی فراہم کرکے کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ اب تم کیا کہتے ہو؟
کلن بولا میں پوچھتا ہوں کہ اگر سناتن دھرم کا عروج آگیا ہے تو آزادی اور کامیابی کہاں غائب ہوگئی؟
للن نے کہا بھائی بھاگوت جی کا کہنا ہے کہ جسم، دماغ، عقل اور روح میں ہم آہنگی سے انسان زندہ رہتا ہے۔ یہ توازن بگڑ جائے تو دیوانہ ہو جاتا ہے۔
کلن نے سوال کیا، اچھا! اگر یہ توازن ختم ہوجائے تو کیا ہو گا؟
بھیا بھاگوت کے مطابق اگر یہ ختم ہو جائے، تو انسان مر جائے گا۔
کلن بولا یار مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ توازن پوری طرح تہس نہس ہوچکا ہے اس لیے ہم لوگ من حیث القوم مرچکے ہیں ۔
کلن کی تلخ بیانی کا للن نے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور یکایک چہار سُو ایک خوف ناک سناٹا چھا گیا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024