مودانی: جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

برطانوی اخبارات کے واضح انکشافات کے باوجود اڈانی گروپ پر ای ڈی اور سی بی آئی کی کوئی جانچ نہیں

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

پانچ ریاستوں میں شکست کے خوف سے ‘ون نیشن ون الیکشن’ کا شوشہ چھوڑ دیا گیا
کیا اڈانی نے غلط طریقے سے اپنے شیئرس کے بھاو بڑھا کر اسی منافع سے ہوائی اڈے، بندرگاہیں اور بھارت کےدیگر اثاثے خرید ے؟
مودی سرکار کے لیے اڈانی ایک ناسور بن چکا ہے جو دنیا بھر کی دوا دارو یعنی لیپا پوتی کے بعد جب درد کچھ کم ہوتا ہے تو دوبارہ کہیں نہ کہیں سے نمودار ہوکر زخموں کو کھرچ دیتا ہے۔
اس بیماری کا علاج صرف جراحی ہے تاکہ اسے جسدِ معیشت سے نکال کر پھینک دیا جائے لیکن وزیر اعظم ایسا کرنے کی جرأت نہیں کر پا رہے ہیں۔ نہیں معلوم کہ چھپن انچ کے سینے والے وزیر اعظم کے ہاتھوں کو کس نے باندھ دیا ہے؟ اڈانی کے معاملے مودی جی کو پیش رفت کرنے سے کون سی بیڑی روک رہی ہے؟ اس قدر واضح انکشافات کے باوجود ان کی زبان پر قفل کیوں پڑا ہوا ہے؟ ان سوالات کے جوابات راہل گاندھی نے پچھلے دنوں چھتیس گڑھ کے اندر ایک لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے دیے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ’’پی ایم مودی اڈانی پر جانچ کا حکم نہیں دے سکتے، کیونکہ اگر ایسا ہوا اور سچائی سامنے آ گئی تو نقصان اڈانی کا نہیں بلکہ کسی اور کا ہوگا‘‘
ملک کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ یہ کوئی اور کون ہے؟ اڈانی کے معاملے میں حکومت ہند کی ساری پردہ پوشی کے باوجود اس معاملے کا بار بار ابھر جانا امیر مینائی کے اس ضرب المثل شعر کی یاد دلاتا ہے؎
قریب ہے یارو روز محشر، چھپے گا کشتوں کا قتل کیوں کر؟
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
بے دین سیاستداں انتخابات کو ہی روز محشر سمجھتے ہیں۔ برسرِ اقتدار سیاسی ٹولے نے اس آئینے میں اپنی شکست کا منظر دیکھ کر اسے ٹالنے کی خاطر ’ایک ملک ایک انتخاب‘ کا شوشہ چھوڑ دیا ہے تاکہ اس کی مدد سے پانچ صوبوں کے انتخابات کو ملتوی کیا جا سکے اور ان میں شکست کے قومی انتخاب پر ہونے والے منفی اثرات کو ٹالا جاسکے۔ لیکن ’بکرے کی اماں کب تک خیر منائے گی؟
‘راہل گاندھی نے رائے پور میں حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے قومی معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ وہ مخصوص تاجروں کے لیے کام کر رہی ہے۔ اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر انہوں نے جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے سبب چھوٹے تاجروں کی بربادی کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ وہ اقدامات وزیر اعظم مودی کے دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اٹھائے گئے تھے۔ وزیر اعظم کا سب سے گہرا دوست گوتم اڈانی ہے جس کے ذاتی جہاز میں بیٹھ کر پی ایم مودی حلف برداری کی خاطر احمد آباد سے دہلی گئے تھے۔ ایک زمانے میں وہ سائے کی مانند ان کے ساتھ لگا رہتا تھا لیکن ہنڈنبرگ اور راہل گاندھی کی بدولت اس بار وہ ان کے ساتھ امریکہ نہیں جاسکا اور نہ جنوبی افریقہ گیا۔ اس کے باوجود جوہانسبرگ سے لوٹتے ہوئے یونان جا کر انہوں نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔
اڈانی گروپ نے پچھلے پانچ سالوں میں بندرگاہ کے کاروبار سے بہت زیادہ منافع کمایا ہے۔ ماضی میں یہ کام حکومت کرتی تھی اور یہ منافع سرکاری خزانے میں جاتا تھا مگر اب اڈانی کے راستے سے بی جے پی کی تجوری میں جاتا ہے۔ دی وائر نے تین مضامین کی ایک سیریز لکھ کر آندھرا پردیش میں گنگاورم بندرگاہ کیس کی اسٹڈی کے ذریعہ یہ ثابت کیا ہے کہ کس طرح حکومت نے اس گروپ کے کاروبار کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ یہی ’مودانی‘ ماڈل ہے جس پر موجودہ معیشت کا دار و مدار ہے۔ اڈانی یہ کاروبار عالمی سطح پر کرتے ہیں اور ان کا یہ جال اسرائیل تک پھیلا ہوا ہے۔ ابھی حال میں جوہانسبرگ سے لوٹتے ہوئے وزیر اعظم یونان گئے۔ پچھلے 40 سالوں میں کوئی ہندوستانی وزیر اعظم وہاں نہیں گیا تھا اس لیے یہ ایک ’تاریخی‘ دورہ تھا۔ تاہم اس کا مقصد سفارتی کم تجارتی زیادہ تھا۔ وزیر اعظم مودی نے 25؍ اگست کو ایتھنز میں یونانی وزیرطاعظم کیریاکوس میتسوٹاکیس کے ہاتھوں ملک کا دوسرا سب سے بڑا اعزاز حاصل کیا اور قومی ذرائع ابلاغ میں اس کا خوب چرچا بھی ہوا مگر کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آخر یونان جیسے چھوٹے سے ملک میں بھی وشوگرو کو پہلے کے بجائے دوسرے نمبر پر کیوں رکھا گیا؟ اس طرح گویا جنوبی افریقہ کے ناروا سلوک کا اعادہ ہو گیا۔
وزیر اعظم کی پذیرائی تو خیر ہاتھی کے دکھانے والے دانت تھے اندر کے کھانے والا دانت یونان کی سب سے بڑی بندرگاہ پیریس پر تبادلہ خیال تھا۔ بریکزیٹ ممالک کی خاطر متبادل برآمدی راستے پر موجود ایتھنز خود کو ’گیٹ وے ٹو یورپی یونین‘ کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ یورپ کو ہندوستان، ایشیا اور افریقہ سے جوڑ سکے۔ اس طرح بندرگاہ کے ساتھ ہی گوتم اڈانی کا گروپ بھی خبروں میں آگیا۔ یونان کے اخبارات نے لکھا کہ اڈانی گروپ یونانی بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور پرکاوالا بندرگاہ کے علاوہ وولوس بندرگاہ پر بھی اس کی نظر ہے۔ وہاں کے اخبار نے یہاں تک لکھ دیا کہ ’وزیر اعظم مودی کے اڈانی کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات ہیں اور ایجیئن میں ایک بندرگاہ تک اڈانی کی رسائی اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ ‘اس بابت کچھ اور اخبارات نے الیگزینڈروپولی نامی بندرگاہ میں بھی میں بھی دلچسپی کا ذکر کیا۔
پی ایم مودی نے اپنے دورے کو ہندوستان-یونان شراکت داری کو دفاعی معاملات تک بھی وسعت دی۔ اس ملاقات کے دوران انہوں نے 2030ء تک دو طرفہ تجارت کو دگنا کرنے کے ہدف کے بارے میں بات کی اور زرعی پیداوار کے شعبے میں ایک معاہدے کا بھی اعلان کیا۔ اس طرح گویا مودی کا یہ دورہ رسمی ہی نہیں بلکہ تجارتی نوعیت کا بھی تھا اور ایک معنیٰ میں سرکاری خرچ پر اڈانی کی مارکٹنگ ہو رہی تھی۔ اپنے چہیتے سرمایہ دار کے لیے ایک بندرگاہ کا ٹھیکہ لینے میں وزیر اعظم کامیاب ہوگئے۔ فی الحال مودی کا معاملہ ’سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘ کا سا ہوگیا ہے۔ اِدھر مودی جی بیرون ملک دورے سے لوٹے اُدھر اڈانی گروپ ایک بار پھر مبینہ سنگین مالیاتی گھوٹالے میں پھنس گیا۔ برطانیہ کے معروف انگریزی اخبار دی گارجین نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام لگا دیا ہے کہ اس نے بیرون ملک کچھ ایسے مالیاتی ریکارڈ کی دستاویزات دیکھی ہیں جن میں اڈانی خاندان نے خفیہ طور پر اپنی ہی کمپنیوں کے شیئرز خرید کر ہندوستانی اسٹاک مارکیٹ میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے اس حوالے سے کچھ دستاویزات گارجین اور فائنانشل ٹائمز کے ساتھ شیئر کی ہیں۔ نئی دستاویزات میں ماریشس میں ایک نامعلوم اور مشکوک آف شور آپریشن کو اڈانی کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر 2013 سے 2018 تک اپنے ہی گروپ کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافے کے لیے خریدے۔ اس بدعنوانی کا ماسٹر مائنڈ ویسے گوتم اڈانی کا بھائی ونود اڈانی ہے لیکن ان کے ساتھ دو مزید شریک کار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک متحدہ عرب امارات کا ناصر علی شعبان علی اور دوسرا چین نژاد چنگ لنگ ہے۔ اڈانی کی سرمایہ کاری نہ صرف انفراسٹرکچر بلکہ دفاعی شعبے میں بھی ہے۔ ایسے میں غیر ملکیوں کی شمولیت اسے سنگین بنا دیتی ہے۔ اس لیے ان کے کردار کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے۔ ان غیر ملکی شہریوں کے ذریعہ ہندوستانی شیئر مارکیٹ کو متاثر کرنے کی کوشش بھی تحقیق طلب ہے۔ اس پر وزیر اعظم کی خاموشی شکوک و شبہات میں اضافہ کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک بھر میں کہرام مچانے والی سی بی آئی اور ای ڈی جیسی ایجنسیاں اڈانی گروپ معاملے کی جانچ کیوں نہیں کر رہی ہیں؟ ان کو آخر کون روک رہا ہے؟ ڈی آر آئی کے 2014 والے خط کا منظر عام پر آتے ہی حزب اختلاف نے اڈانی گروپ کو کلین چٹ دینے والے سابق سیبی سربراہ یو کے سنہا کے کردار پر سوال اٹھایا جنہیں اڈانی کے این ڈی ٹی وی میں ڈائرکٹر بنا کر نوازا گیا جو ایک طرح سے رشوت کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح پی ایم مودی جعلی طریقہ سے اپنی شہرت بڑھاتے ہیں اسی طرح حصص کی قیمتوں کا یہ اضافہ بھی جعلی تھا۔ اس سے عوام کو جھانسا دے کر انہیں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا گیا ۔ اس طرح گویا مودانی ماڈل کی دھوکہ دہی سیاست سے لے کر معیشت تک پھیل گئی۔ اڈانی گروپ کو چاہیے تھا کہ وہ اطمینان سے ان الزامات کی تردید کرتا مگر چور کی داڑھی میں تنکا اس راہ میں حائل ہوگیا اور اس نے آناً فاناً ایک وضاحتی بیان جاری کرکے اسے غیر ملکی تنظیموں کی سازش قرار دے دیا۔ اس بوکھلاہٹ سے واضح ہوگیا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ اس رپورٹ کے بعد اڈانی گروپ کے شیئرز میں زبردست گراوٹ آئی اور اس کی مارکیٹ کیپ 150 بلین ڈالر تک کم ہو گئی۔ ہنڈنبرگ کی رپورٹ کے بعد 3 سے 33ویں نمبر پہنچنے والا اڈانی گروپ بڑی مشکل سے مئی میں 18 ویں پر آیا تھا مگر اب پھر ایک جھٹکے میں 24ویں مقام تک کھسک گیا ہے۔
گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی نے ساتھیوں سمیت خفیہ طور پر اڈانی گروپ کی کمپنیوں میں حصص خریدنے سے انکار کر دیا مگر منکشف دستاویزات حصص کی قیمتوں میں ہیرا پھیری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان انکشافات کے بعد کانگریس پارٹی نے مودی حکومت سے پوچھا کہ شیل کمپنیوں میں جو 20 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے اس کا مالک آخر کون ہے؟ پارٹی نے اس معاملے کی تفتیش کے لیے جے پی سی یعنی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا مطالبہ کر دیا۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے وزیر اعظم مودی اور گوتم اڈانی کے تعلقات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ امسال 28؍ جنوری سے 28؍ مارچ تک کانگریس  نے وزیر اعظم مودی سے اڈانی کے حوالے سے سو سوالات پوچھے تھے لیکن کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اڈانی کی شیل کمپنیوں میں لگے 20 ہزارکروڑ روپے کا مالک کون ہے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’سرمایہ کاری میں شفافیت نہیں ہے اور شیل کمپنیوں کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔
جے رام رمیش کے مطابق راہل گاندھی نے ایوانِ پارلیمان میں یہ مسائل اٹھائے تو انہیں ایوان سے نااہل قرار دے کر نکال دیا گیا۔ یہ صرف اڈانی کا نہیں ہے بلکہ مودانی کا معاملہ بھی ہے۔ اصل مسئلہ وزیر اعظم مودی اور اڈانی کے درمیان تعلقات کا ہے۔ نئی دہلی میں جی-20 کے سربراہی اجلاس سے نو دن قبل عالمی اخبارات میں انکشاف نے وزیر اعظم سمیت ان کے چہیتے دوست کی عزت بھرے بازار میں نیلام کردی ۔مذکورہ بالا انکشافات نئے نہیں ہیں بلکہ سیبی کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی کو ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ کا دعویٰ کرنے والے مودی نے رفع دفع کروا کر اقتدار میں آتے ہی اپنے دوست کو کلین چٹ دلوا دی۔ ڈی آر آئی کے ڈائریکٹر جنرل نجیب شاہ نے جنوری 2014 میں اپنے سیبی ہم منصب کو اسٹاک مارکیٹ میں اڈانی گروپ آف کمپنیوں کے لین دین کے متعلق لکھا تھا اور اپنے خط کے ساتھ ایک سی ڈی بھی منسلک کی تھی جس میں اڈانی پاور پروجیکٹ میں بڑھائی گئی رسیدوں کے الزامات کی بابت تحقیقات سے متعلق مطلوبہ ثبوت موجود تھے۔
اس خط میں کہا گیا تھا کہ: اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ اڈانی گروپ میں لوٹی گئی رقم کا ایک حصہ ہندوستانی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری اور ڈس انویسٹمنٹ کے طور پر آیا ہوگا۔ اس خط و کتابت سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیبی جنوری 2014 میں اڈانی کی تحقیقات کر رہا تھا۔ اس معاملے میں سیبی کی ذمہ داری تھی کہ وہ تفتیش کرکے اڈانی کو کٹہرے میں کھڑا کرتا مگر اس نے کلین چٹ دے دی۔ مودی سرکار نے اڈانی کمپنیوں کو اسٹاک کی قیمتوں میں مبینہ ہیرا پھیری، اندرونی تجارت اور رشوت خوری کی راہ آسان کرنے کے لیے قوانین وضع کیے۔ اس معاملے میں سیبی کا کردار اس وقت زیر بحث آیا جب سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ ماہرین کی کمیٹی نے 2018 سے غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں کے ضوابط میں یکے بعد دیگرے ترامیم کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ماہر ین کی کمیٹی نے اکتوبر 2020 میں تحقیقات شروع کر کے اڈانی کا اعمال نامہ کھول دیا۔ اس طرح ممبئی میں انڈیا کے اجلاس سے عین پہلے ان انکشافات نے راہل گاندھی گاندھی کے وارے نیارے کر دیے۔ انہوں نے 31؍ اگست کو اڈانی گروپ معاملے پر مرکز کی مودی حکومت سے غیر ملکی اخبارات کی رپورٹ کا تذکرہ کرکے پی ایم مودی کے سامنے تلخ سوالات کرنے کے بعد کہا کہ ان کا اثر ہندوستان کی شبیہ و سرمایہ کاری پر پڑتا ہے۔
راہل گاندھی کے مطابق پی ایم مودی کے ایک قریبی گوتم اڈانی نے ایک بلین ڈالر کا استعمال شیئر خریدنے کے لیے کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کس کا پیسہ ہے؟ اڈانی کا یا پھر کسی اور کا؟ اس کی جانچ ہونی چاہیے۔ راہل گاندھی نے سوال کیا کہ ’’پی ایم مودی آخر اڈانی معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ جی-20 کے لیڈر ہندوستان آنے والے ہیں جو سوال پوچھیں گے کہ ایک کمپنی اتنی خاص کیوں ہے؟ بہتر ہوگا کہ ان کے آنے سے پہلے ان سوالات کے جواب دیے جائیں اور جے پی سی جانچ کرائی جائے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ’دی گارجین‘ اور ’فائنانشیل ٹائمز‘ نے شیئر پرائس کو بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کے ثبوت شائع کیے ہیں۔ راہل گاندھی نے وضاحت کی کہ اڈانی نے غلط ڈھنگ سے اپنے شیئر کا بھاو بڑھا کر جو منافع کمایا اسی سے ہوائی اڈے، بندرگاہیں اور بھارت کے دیگر سرمایے خریدے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ پیسہ کس کا ہے؟ اڈانی کا ہے یا کسی اور کا؟ اور اگر کسی اور کا ہے تو وہ اور کون ہے؟ اس طرح اشارے کنایے میں مودی پر نشانہ سادھا گیا۔ ممبئی میں انڈیا کے اجلاس اور اڈانی پر سوالات کی بوچھاڑ کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر مودی سرکار کی جانب سے پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر جانکاری دی کہ ’’پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس 18 ستمبر سے 22 ستمبر تک طلب کیا جا رہا ہے۔ اس دوران پانچ اجلاس ہوں گے‘‘ اس ابتدائی ٹویٹ میں خصوصی اجلاس کے ایجنڈے سے متعلق کوئی وضاحت نہیں تھی۔ خصوصی اجلاس کے اعلان نے سیاسی حلقوں کو حیران کر دیا کیونکہ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس عام طور پر نومبر کے آخری ہفتہ میں ہی شروع ہوتا ہے۔ اس سے دو ماہ قبل اچانک یہ اجلاس موضوعِ بحث بن گیا ہے کیونکہ رواں سال کے آخر میں پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس دوران ’ون نیشن ون الیکشن‘ کا شوشا بھی چھوڑ دیا گیا۔ اس سے کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ یہ پانچ صوبوں کے انتخابات کو اگلے سال تک ٹالنے کی ایک چال ہے تاکہ ان میں شکست کے منفی اثرات سے بچا سکے اور کچھ لوگوں نے کہا کہ پارلیمانی انتخاب کو پہلے کروانے کی سازش ہے تاکہ بی جے پی کی تیزی سے گھٹتی ہوئی ناراضی کے قابو سے باہر ہوجانے سے قبل انتخاب کروالیا جائے۔ دونوں صورتوں میں شکست کے قوی امکانات کا خوف مشترک تھا۔
راہل گاندھی نے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کو حکم راں طبقہ کی گھبراہٹ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی اڈانی معاملہ سامنے آتا ہے تو کچھ اسی طرح کی گھبراہٹ برسر اقتدار طبقہ کی طرف سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ بولے ’’مجھے لگتا ہے کہ شاید یہ گھبراہٹ کی علامت ہے۔ اسی قسم کی گھبراہٹ تب دیکھنے کو ملی تھی جب میں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں، اڈانی کے بارے میں تقریر کی تھی۔ یہ گھبراہٹ ہی تھی کہ اچانک میری پارلیمانی رکنیت منسوخ کر دی گئی تھی‘‘ راہل گاندھی نے مزید کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ گھبراہٹ ہی ہے، کیونکہ معاملہ وزیر اعظم کے بہت قریب ہے۔ جب بھی آپ اڈانی معاملے کو چھوتے ہیں تو پی ایم بہت بے چین ہو اٹھتے ہیں‘‘
اس طرح کی گھبراہٹ کا علاج پارلیمانی اجلاس نہیں ہے بلکہ اس خوف سے نکلنے کی خاطر وزیر اعظم کو چاند کے ٹور پر جانا پڑے گا۔ ویسے لالو پرساد نے اس کا ایک اور حل بتایا ہے۔ ان کے مطابق ’’سائنسدانوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ہم اِسرو کے سائنسدانوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ مودی جی کو پیچھے نہ چھوڑیں۔ انہیں چاند کے بجائے اب سورج پر پہنچانا چاہیے۔ اس سے دنیا بھر میں مودی جی کا نام روشن ہوجائے گا‘‘۔ لالو پرساد یادو نے پی ایم مودی کے سورج پر سفر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا ۔ وزیر اعظم کی خدمت میں اس سے اچھا مشورہ اور کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ وہ اگر سورج سے قریب پہنچ کر لال آنکھوں سے دیکھیں گے تو شاید وہ بھی ڈر کر سرد ہو جائے گا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 اڈانی گروپ نے پچھلے پانچ سالوں میں بندرگاہ کے کاروبار سے بہت زیادہ منافع کمایا ہے۔ ماضی میں یہ کام حکومت کرتی تھی اور یہ منافع سرکاری خزانے میں جاتا تھا مگر اب اڈانی کے راستے سے بی جے پی کی تجوری میں جاتا ہے۔ دی وائر نے تین مضامین کی ایک سیریز لکھ کر آندھرا پردیش میں گنگاورم بندرگاہ کیس کی اسٹڈی کے ذریعہ یہ ثابت کیا ہے کہ کس طرح حکومت نے اس گروپ کے کاروبار کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ یہی ’مودانی‘ ماڈل ہے جس پر موجودہ معیشت کا دار و مدار ہے۔ اڈانی یہ کاروبار عالمی سطح پر کرتے ہیں اور ان کا یہ جال اسرائیل تک پھیلا ہوا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023