منی پور میں تشدد کوحکومت کی سر پرستی حاصل  ، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم  نے متاثرہ علاقوں کا کیا دورہ

منی پور کے حالات پر فیکٹ فائنڈنگ کرنے والی نیشنل فیڈریشن آف ویمن کی ٹیم نے کہا ہے کہ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فرقہ وارانہ تشدد نہیں  

نئی دہلی ،04جولائی :۔

منی پور میں گزشتہ دو ماہ سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے،حکومت کے تمام کوششوں کے دعوے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے ۔گزشتہ کل پھر تازہ فائرنگ میں تین لوگوں کی موت ہو گئی مگر حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب حالات دھیرے دھیرے معمول پر آرہے ہیں ۔دریں اثنا منی پور کے حالات پر فیکٹ فائنڈنگ کرنے والی ایک ٹیم نے ایک حیران کن دعویٰ کیا ہے ۔ٹیم کا کہنا کہنا ہے کہ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فرقہ وارانہ تشدد نہیں بلکہ حکومت کی سر پرستی میں ہو رہا ہے  ۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ محض دو طبقات کے تشدد کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ زمین، وسائل پر شورش پسندوں کے قبضے کا معاملہ ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق  منی پور میں 3 مئی 2023 کو شروع ہوا تشدد اپنے آپ نہیں شروع ہو گیا اور نہ ہی بغیر کسی اکساوے کے ایسا ہوا۔ اس سے کئی ماہ پہلے مارچ اور اپریل 2023 سے  معمولی  واقعات ہو رہے تھے جن سے پرتشدد تصادم کے اشارے مل رہے تھے۔ لیکن حکومت نے ان سب کو نظر انداز کیا اور تشدد کو بھڑکنے دیا۔

گزشتہ دنوں    نیشنل فیڈریشن آف ویمن (این ایف آئی ڈبلیو) نے منی پور کا دورہ کیا اور اس دوران انہوں ںے وہاں متاثرین سے ملاقات کی اور ان سے گفتگو کر کے اس تشدد کے پس پردہ کارفرما اسباب کو جاننے کی کوشش کی ۔این ایف آئی ڈبلیو کی ٹیم نے  دہلی میں ایک پریس کانفرنس کر اپنی رپورٹ لوگوں کے سامنے رکھ دی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے لوگوں کی جان کی حفاظت کرنے کی جگہ اکساوے والی کارروائی جاری رکھی جس سے میتئی اور کوکی طبقات کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس ٹیم نے منی پور میں سات ریلیف کیمپوں کا دورہ کیا، جس میں 6 میتئی کے کیمپ تھے اور ایک کوکی طبقہ کا۔ یہ کیمپ امپھال ایسٹ، امپھال ویسٹ، بشنوپور اور چراچندپور ضلعوں میں ہیں۔

کوکی اور میتئی طبقہ کے درمیان پرتشدد تصادم 3 مئی کو شروع ہوا تھا اور 48 دنوں تک انھیں قابو کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ نتیجتاً امپھال سے کوکی طبقہ کے تقریباً سبھی لوگوں کو باہر نکال دیا گیا، وہیں چراچندپور (جسے کوکی طبقہ کی بالادستی والا علاقہ مانا جاتا ہے) سے میتئی طبقہ کے لوگوں کو کھدیڑ دیا گیا۔ اسی طرح کوکی کی بالادستی والے چاندیل، کانگپوکپی، تینگوپول اور سیناپتی ضلعوں سے بھی میتئی طبقہ کے لوگوں کو کھدیڑ دیا گیا۔ میتئی طبقہ کے لوگ عام طور پر امپھال ویلی میں رہتے ہیں جبکہ کوکی طبقہ کے لوگ پہاڑی علاقوں میں۔

دہلی میں پریس کانفرنس کے دوران این ایف آئی ڈبلیو کی ٹیم

این ایف آئی ڈبلیو کی جنرل سکریٹری اینی راجہ نے بتایا کہ ’’یہ کوئی مذہبی جدوجہد نہیں بلکہ سیاسی لڑائی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے ایک خفیہ ایجنڈے کے تحت ایسا ہونے دیا اور تشدد کے دوران پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ قبل میں اٹھائے سرکاری اقدام کے سبب کوکی طبقہ کے لوگوں نے تعلیم حاصل کی، مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لیا اور سرکاری ملازمتیں حاصل کر پائے، لیکن میتئی طبقہ کے بہت سے لوگ (جن سے گروپ نے ملاقات کی) اس سے خوش نہیں تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت نے امپھال کے نیو چیکون میں قبضہ بتا کر تین چرچ کو منہدم کر دیا۔ اسی طرح کوکی طبقہ کے لوگوں سے کانگپوکپی اور تینگوپول علاقوں میں جنگل اور جنگلی جانور تحفظ کے نام پر زمینیں چھین لی گئیں۔ اینی راجہ نے کہا کہ ’’کوکی طبقہ کا الزام ہے کہ میتئی طبقہ کے لوگ ان کے امن مارچ سے غصے میں تھے اور انھوں نے  کوکی وار میموریل کو جلانے کی کوشش کی اور کثیر تعداد میں چراچندپور پر حملہ کیا۔ انھوں نے میتئی اور کوکی طبقہ کے لوگوں کے گھروں پر بھی پہچان کے نشان لگائے تھے۔‘‘

ان تمام حقائق کے درمیان فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے حکومت سے گزارش کی ہے کہ دونوں طرف بفر زون بنائے جائیں اور متاثرہ کنبوں کے طلبا کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ ساتھ ہی ٹیم نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک اعلیٰ با اخیتار  کمیٹی سے پورے معاملے کی جانچ کرا کر انصاف دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔