منی پور شرمناک واقعہ : جماعت اسلامی ہند کی  خواتین ونگ کا مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ

نئی دہلی،21جولائی :۔

منی پور کی دو خواتین کی برہنہ پریڈ اور ان میں سے ایک کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے واقعہ کے 26 سیکنڈ کی ویڈیو نے انسانیت  کو شرمسار کر دیا ہے ۔پورے ملک میں اس بہیمانہ فعل کے خلاف غصہ اور ناراضگی ہے ۔

ملک میں مسلمانوں کے سب سے بڑی اور فعال تنظیم  جماعت اسلامی ہند  کے شعبہ خواتین نے اس واقعہ میں ملوث مجرموں کو فوری اور مثالی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔جماعت اسلامی ہند (شعبہ خواتین) کی قومی سکریٹری مسز رحمت النساء اے نے ایک بیان میں کہاکہ "منی پور میں خواتین کی برہنہ پریڈ اور اجتماعی عصمت دری  کا ویڈیو انتہائی افسوسناک ہے اور اس نے ہر ہندوستانی کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کی خاتون رہنما نے کہا، "یہ حیوانیت کا عمل انسانیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور اس نے ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادیوں کی خوفناک خواتین مخالف ذہنیت کو بے نقاب کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کسی بھی  طرح کی رعایت کئے بغیر مجرموں کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی کی جانی چاہئے اور حکومت کو منی پور میں فسادات کو روکنے کے لئے فوری طور پر کارروائی کرنی چاہئے۔

ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے منی پور تشدد پر اپنی خاموشی توڑ  ی ہے ۔ انہوں نے جمعرات کو پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔حالانکہ گزشتہ دو ماہ سے جاری منی پور میں تشدد پر وزیر  اعظم نے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔  اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کے   کارکنوں  کے ذریعہ ان کی خاموشی پر تنقیدیں کی گئیں اور سوالات اٹھائے گئے ۔

جمعرات کو چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے ازخود نوٹس کی کارروائی میں اس واقعہ کی مذمت کی اور تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ آئینی جمہوریت میں اس طرح کے واقعات ناقابل قبول ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ اور ویڈیو گزششتہ چار مئی کا ہے اور 19 جولائی کو سوشل میڈیا پر شیئر کئے جانے کے بعد منظر عام پر آیا ہے  ۔

واضح رہے کہ یہ   واقعہ منی پور ہائی کورٹ کی طرف سے میٹیوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کے بعد ہندو میئتی  اور کرسچن کوکی برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات شروع ہونے کے ایک دن بعد پیش آیاتھا ۔ 3 مئی کو شروع ہونے والا تشدد اب بھی جاری ہے۔ اب تک تقریباً 160 افراد ہلاک اور 50,000 اپنے آبائی علاقوں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ جہاں ان میں سے ایک بڑی تعداد منی پور میں ریلیف کیمپوں میں رہ رہی ہے، وہیں کئی دیگر نے پڑوسی ملک میزورم میں پناہ لی ہے۔

وائرل ہونے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ہجوم میں موجود مرد دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں جن میں سے ایک 21 سالہ اور دوسری 52 سالہ ہے۔ جنسی حملوں میں ملوث افراد میں 14 سے 15 سال کی عمر کے لڑکے بھی شامل ہیں۔ پولیس ایف آئی آر کے مطابق اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کی عمر 21 سال تھی۔

میڈیا رپورٹس  کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا کے تبصرہ اور وزیر اعظم کے بیان کے بعد پولیس نے اس  خوف ناک جرم میں ملوث ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا۔ ملزم کی شناخت خیرم ہیروداس کے نام سے ہوئی ہے۔

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (تھوبل ضلع منی پور) سچیدانند سوئیبم نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ پولیس کو 19 جولائی کو ویڈیو کے ذریعے واقعہ کے بارے میں معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ویڈیو میں تصاویر کے ذریعے مجرموں کی شناخت اور گرفتاری کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، لواحقین کے اہل خانہ نے پولیس کے دعوے کی مخالفت کی۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے 18 مئی کو ایف آئی آر درج کرائی تھی لیکن پولیس نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو کیس کو تھانے منتقل کرنے میں ایک ماہ لگا جس کے دائرہ اختیار میں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ لیکن مقدمہ منتقل ہونے کے بعد بھی پولیس نے کوئی کارروائی شروع نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 19 جولائی کو ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہی کارروائی شروع ہوئی۔

وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے ٹویٹ کیا: "فی الحال ایک مکمل تحقیقات جاری ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے،  سزائے موت تک پر غور کیا جائے ۔