ممبئی بم دھماکہ کیس :19 سالہ قید کے بعد بھی انصاف کٹہرے میں!

سپریم کورٹ نے برأت کو معطل کیا، مگر رہائی برقرار: مکمل انصاف یا فقط عبوری رعایت؟

0

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

ملزمین پر تشدد ثابت ہوا، مگر مجرم پولیس اہلکار قانونی کارروائی سے محفوظ!
اصل مجرموں کا کوئی سراغ نہیں، 189 مقتولین کے خاندانوں کا درد کون سمجھے؟
پچھلے دنوں ایک اہم عدالتی فیصلہ سامنے آیا جس میں بمبئی ہائی کورٹ نے 2006 کے ممبئی لوکل ٹرین سلسلہ وار بم دھماکوں کے کیس میں 12 افراد کو بری کر دیا، جن میں سے 5 سزائے موت اور 7 عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ ان ملزمین نے 19 سال کی طویل قید بھگتی، جن میں سے ایک قیدی، کمال انصاری کا 2021 میں جیل ہی میں انتقال ہو گیا۔
اب سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بریت کے فیصلے کو معطل کر دیا ہے اور معاملے کو دوبارہ سماعت کے لیے اپنے دائرہ اختیار میں لے لیا ہے۔
سپریم کورٹ کا حکم: بریت معطل، رہائی برقرار
22 جولائی 2025 کو سپریم کورٹ نے بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر عبوری حکم جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ:
بریت کے فیصلے کو فی الحال precedent یعنی نظیر کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ملزمین کی رہائی برقرار رہے گی، یعنی وہ جیل واپس نہیں بھیجے جائیں گے۔ ریاست مہاراشٹر کی اپیل پر سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قانونی طور پر چیلنج کے قابل سمجھا ہے، لیکن انسانی بنیادوں پر ملزمین کو مزید قید میں رکھنے سے انکار کیا، جو ایک وقتی ریلیف ضرور ہے مگر مکمل انصاف نہیں کہا جاسکتا۔
اس فیصلے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رد عمل نے انصاف کی بحث کو سیاسی رنگ بھی دے دیا ہے۔ بی جے پی کے رہنما کِرت سُوماتیا نے کہا کہ "تمام ملزمین کو پھانسی ہونی چاہیے” اور فیصلے کو دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں نقصان دہ قرار دیا۔ کانگریس کی ورشا گائیکواڈ اور NCP کے روہت پوار نے کہا کہ اگر واقعی ملزمین بے گناہ ہیں، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحقیقات میں اتنی سنگین غلطیاں کیوں ہوئیں؟
عدالتی فیصلے میں خاموشی کا پہلو
اگرچہ بمبئی ہائی کورٹ نے اپنے 667 صفحات پر مشتمل فیصلے میں پولیس حراست میں ہونے والے تشدد اور اس کی شدت کو تسلیم کیا، طبی شواہد کا حوالہ بھی دیا اور مقدمے کی بنیاد بننے والے اعترافی بیانات کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا، لیکن فیصلے میں کہیں بھی ان پولیس والوں کے خلاف کارروائی یا ان کی شناخت کا ذکر تک نہیں کیا جنہوں نے ملزمین پر تشدد کیا تھا۔ یہ خاموشی نہ صرف انصاف کی روح کے خلاف ہے بلکہ پولیس مظالم کے خلاف اپنا موقف مبہم و کمزور بنا دیتی ہے۔
مقدمے کی حقیقت اور پولیس کی کہانی
اس کیس میں پولیس نے ایک کہانی گھڑی کہ یہ افراد ایران کے راستے سے پاکستان گئے، وہاں بم سازی اور ہتھیار چلانے کی تربیت حاصل کی، پاکستانی ہینڈلرز کے ساتھ رابطے میں رہے، ممبئی کے لوکل ٹرین نیٹ ورک کا بغور جائزہ لیا اور پھر 11 جولائی 2006 کو سات ٹرینوں میں بم دھماکے کیے۔ لیکن اس کہانی کی بنیاد محض پولیس حراست میں لیے گئے اعترافی بیانات پر تھی جن کی قانونی حیثیت مشکوک رہی، خاص کر جب کہ ان بیانات کو دینے سے پہلے اور بعد میں شدید تشدد کے شواہد موجود ہیں۔
تشدد پر عدالتی خاموشی
ان ملزمین نے بارہا عدالت کو بتایا کہ ان پر پولیس حراست میں بھی اور پھر میں جیل میں بھی تشدد کیا گیا۔ ان الزامات کی تصدیق طبی رپورٹوں سے بھی ہوئی، مگر ٹرائل کورٹ کے جج وائی ڈی شندے نے ان پر توجہ تک نہیں دی۔ اب بمبئی ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں ان پہلوؤں پر خاموشی اختیار کی ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالت محض قانونی نکات کی بنیاد پر انصاف کرے گی یا وہ ریاستی ظلم و زیادتی پر کارروائی کرنے کی اخلاقی ذمہ داری کو بھی محسوس کرے گی؟ اگر عدلیہ اپنے اختیارات کے باوجود ظالم پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات دینے سے گریز کرے گی تو پھر عام شہری کس کے در پر انصاف کی فریاد لے کر جائیں گے؟
’بے گناہ قیدی‘ کی پکار
عبدالوحید شیخ، جنہیں 2015 میں اس کیس سے بری کیا گیا تھا، انہوں نے اپنی کتاب بے گناہ قیدی میں سو سے زائد پولیس اہلکاروں اور طبی افسران کے نام لیے ہیں جنہوں نے ان پر تشدد کیا یا خاموش تماشائی بنے رہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جبری اعترافات کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسانا ایک منظم عمل بن چکا ہے۔ انسداد منظم جرائم قانون یعنی مکوکا کے تحت پولیس کو 30 دن کی حراست اور 180 دن میں چارج شیٹ داخل کرنا ہوتا ہے۔ اس قانون میں پولیس کے اعلیٰ افسر، خاص طور پر ڈپٹی کمشنر آف پولیس ڈی سی پی کے سامنے دیے گئے اعترافی بیان کو رضاکارانہ قرار دینا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اس کیس میں کسی بھی ڈی سی پی نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ بیان رضاکارانہ تھا، حالانکہ ملزمین کے جسم پر واضح زخم کے نشان موجود تھے۔
اعلیٰ افسران کی بے حسی
عدالتی فیصلے میں پولیس افسران جیسے برجیش سنگھ، نول بجاج، ڈی ایم پھڈتارے، سنجے موہیتے اور دتاتریہ کارلے جیسے افسران کا ذکر تو آیا ہے مگر انہیں جواب دہ ٹھیرانے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ حتی کہ آرتھر روڈ جیل کی سپرنٹنڈنٹ سواتی ساتھے پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ملزمین کو گواہ بننے کی ترغیب دی اور گواہ بننے سے انکار پر ان سے مارپیٹ کی، لیکن ان پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسی طرح ممبئی کے اُس وقت کے پولیس کمشنر اے این رائے اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھونشی کے خلاف بھی الزامات تھے، مگر ان پر بھی کوئی کارروائی کا حکم جاری نہیں کیا گیا۔
عدلیہ کی ناکامی، انصاف کی تاخیر
یہ محض ایک مقدمہ نہیں ہے بلکہ ہندوستانی عدالتی نظام کی مجموعی ناکامی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ ملزمین میں سے گیارہ لوگوں نے پولیس حراست سے عدالتی حراست میں منتقلی کے دن ہی اپنے اعترافات سے رجوع کر لیا تھا اور بارہا عدالتی فورموں پر تشدد کی شکایات کی تھیں اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے انہیں سزائیں سنائیں اور ہائی کورٹ نے بھی ان کی زندگی کے ضائع شدہ قیمتی برسوں کے لیے نہ تو معاوضے کی بات کی اور نہ ہی ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو 19 سال تک جیل میں رکھ کر بعد میں "بری” کر دینا ہی کافی ہے؟ کیا ان کے خاندانوں کے دکھ، ان کے بکھرے ہوئے خواب اور نظامِ انصاف پر سے اٹھ چکے عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ریاست اور عدلیہ کو کوئی جواب نہیں دینا چاہیے؟
اصل مجرم کون؟
ایک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ اس جرم کے اصل مجرم کون تھے؟ اب تک اس کا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔ یہاں تک کہ 2008 میں صادق اسرار شیخ جو ایک دیگر مقدمے میں ملوث تھا، اس نے اسی مکوکا جج کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دھماکے ان کی تنظیم انڈین مجاہدین نے کیے تھے۔ اس بیان کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ اسی طرح بم دھماکوں میں "پریشر کوکر تھیوری” کو بنیاد بنایا گیا جو بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی۔ اگر عدلیہ ان شواہد کو سنجیدگی سے لیتی اور از سر نو ایک غیر جانب دار تحقیقات کا حکم دیتی تو شاید آج ہم اصل مجرموں تک پہنچ سکتے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا۔
دوہرا انصاف
اس فیصلے سے نہ صرف 12 افراد کے ساتھ نا انصافی ہوئی بلکہ ان 189 خاندانوں پر بھی ظلم ہوا جنہوں نے 11 جولائی 2006 کے دھماکوں میں اپنے عزیزوں کو کھویا تھا۔ نہ اصل مجرموں کو سزا ملی نہ ہی ریاستی تشدد کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور نہ ہی انصاف کی سچی بازیابی ممکن ہو سکی۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں انصاف کا یہ معیار، عدالتی بے حسی اور ریاستی بے رحمی کا ایک سنگم بنتا جا رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس فیصلے کو محض "بریت” کے فیصلے کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ اسے ہندوستانی عدلیہ، پولیس نظام اور جمہوریت پر ایک سنگین سوالیہ نشان تصور کیا جائے۔

 

***

 اس فیصلے سے نہ صرف 12 افراد کے ساتھ نا انصافی ہوئی بلکہ ان 189 خاندانوں پر بھی ظلم ہوا جنہوں نے 11 جولائی 2006 کے دھماکوں میں اپنے عزیزوں کو کھویا تھا۔ نہ اصل مجرموں کو سزا ملی نہ ہی ریاستی تشدد کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور نہ ہی انصاف کی سچی بازیابی ممکن ہو سکی۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں انصاف کا یہ معیار، عدالتی بے حسی اور ریاستی بے رحمی کا ایک سنگم بنتا جا رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس فیصلے کو محض "بریت” کے فیصلے کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ اسے ہندوستانی عدلیہ، پولیس نظام اور جمہوریت پر ایک سنگین سوالیہ نشان تصور کیا جائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025