
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
گندم کی قیمتیں آسمان پر، پیداوار میں کمی کا خدشہ ۔کشمیر میں بارشوں کی کمی، زراعت اور باغبانی کو خطرہ
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سنگین نتائج جہاں پوری دنیا کو بھگتنے ہوں گے، وہیں اس بار فروری کے پہلے ہفتے سے ہی گرمی نے اپنے تیور دکھانا شروع کر دیے ہیں۔ عام طور پر مارچ کے مہینے میں 30 ڈگری سیلسیس کا درجہ حرارت ہوتا ہے مگر دہلی اور ملک کے کئی حصوں میں فروری میں ہی درجہ حرارت 29.7 ڈگری کے قریب پہنچ گیا ہے۔
اڈیشہ، کیرالا، دمن دیو، اترپردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور مہاراشٹر کے ودربھ علاقے میں درجہ حرارت 35 سے 38 ڈگری سیلسیس تک درج کیا گیا، جبکہ کننور ہوائی اڈے پر گزشتہ ماہ ہی پارہ 40.4 ڈگری تک جا پہنچا جو 1901 کے بعد سب سے زیادہ تھا۔ اسی دوران جموں و کشمیر، لداخ، مظفر آباد اور گلگت کے بڑے حصوں میں درجہ حرارت 5 ڈگری سے زائد ریکارڈ کیا گیا۔
اس اضافے میں لانینا اور نہ ہی ایل نینو کا اثر نمایاں ہے، جبکہ پہلے اسے نوامی کا اثر سمجھا جاتا تھا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق مارچ سے مئی تک جنوبی ہند اور شمال مشرق کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پورے ملک میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہے گا اور لُو کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ جنوری 2025 میں عالمی درجہ حرارت صنعتی دور (1850-1900) کے مقابلے میں 1.7 ڈگری زیادہ رہا، جبکہ فروری میں یہ اضافہ 1.34 ڈگری رہا جو 1901 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
توانائی کے توازن میں بگاڑ کا مطلب یہ ہے کہ کرۂ ارض شمسی توانائی کو جذب تو کر رہی ہے مگر اس کے اخراج کی صلاحیت کمزور پڑ چکی ہے۔ اسی لیے زمین کہیں زیادہ تیزی سے گرم ہو رہی ہے اور عالمی تپش کے خطرات مزید بڑھ رہے ہیں۔ سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں تیزی سے برف کے تودے پگھلنے سے سمندری پانی کا بہاؤ متاثر ہوگا، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی نظام پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔
سائنس داں موری پیلیٹیو نے ناسا کے سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ کرنے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ ماونٹ ایورسٹ پر جمی ہوئی برف میں 150 میٹر کی کمی آئی ہے۔ مزید یہ کہ 6100 میٹر سے اوپر کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ حالیہ موسم سرما میں گرم اور خشک موسم کے باعث برف کی تہیں کمزور ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ نئی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایسے حالات میں 24 فیصد اسپیشیز کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔
اسی طرح، سرما کے اختتام میں تاخیر اور قبل از وقت بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث مہاجر پرندوں (migratory birds) نے فروری کے وسط میں ہی گرمی کی شدت محسوس کرتے ہوئے واپسی شروع کر دی ہے۔
ایمس کے شعبہ نفسیات کے ایک ماہر کے مطابق، موسم میں ہونے والی غیرمعمولی تبدیلیوں اور قبل از وقت گرمی کے باعث ہارمونی تبدیلیاں بھی دیکھی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں چڑچڑاپن اور غصے کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔
ان تمام وجوہات کے پیش نظر حکومت پر لازم ہے کہ فوری اور مؤثر کارروائی کرے، ورنہ ماحولیاتی بحران انسانی صحت، روزمرہ کی ضروریات، حیاتیاتی تنوع (biodiversity) اور غذائی قلت (malnutrition) جیسے سنگین مسائل کو مزید شدت دے سکتا ہے۔
ایک سائنسی رپورٹ میں ماہرین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ 2024 اب تک کا سب سے گرم سال رہا ہے، بلکہ یہ پیرس معاہدے میں متعین کردہ 1.5 ڈگری کی حد کو بھی عبور کر چکا تھا۔ یہ تحقیق ماحولیاتی ماہرین کے ایک گروپ نے کی جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ مستقبل میں درجہ حرارت کی شدت سے بچاؤ شاید ممکن نہ ہو، کیونکہ یہ مسئلہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، جسے ہم "Human Induced Climate Change” کہہ سکتے ہیں۔
اس رپورٹ میں ناسا، نووا، برکلے اور ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن جیسے اداروں نے معاونت فراہم کی ہے۔ تحقیق کے مطابق، آئندہ برسوں کے موسمی حالات کا انحصار بڑی حد تک 2025 کی موسمیاتی صورتحال پر ہوگا۔ یہ واضح ہے کہ پیرس معاہدے اور کئی COP کانفرنسوں کے باوجود عالمی ماحولیاتی حالات میں بہتری کے بجائے مزید بگاڑ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
دنیا کے تمام ممالک اپنی خود غرضی کی وجہ سے ماحولیاتی حدوں کو پامال کر چکے ہیں۔ آج گرمی کی شدت میں اضافہ ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی ترقی کا نتیجہ ہے، مگر وہ اس کے ذمہ داری لینے سے انکار کرتے ہیں اور کسی اجتماعی اقدام سے بھی گریز کر رہے ہیں۔
10 جنوری کو جاری کردہ اس رپورٹ نے دنیا بھر کو خبردار کیا ہے کہ 2025 میں ایک بار پھر شدید گرمی کے لیے تیار رہیں۔ ایسے حالات میں جنگلات کی آگ، پانی کے بحران اور زمین کی زرخیزی میں کمی جیسے مسائل مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ 2024 میں دنیا نے متعدد قدرتی آفات کا سامنا کیا اور کوئی بھی ملک ایسا نہیں تھا جو شدید گرمی کی زد میں نہ آیا ہو۔ مختلف ناموں سے اٹھنے والے بحری طوفانوں نے زندگی کو درہم برہم کر دیا ہے۔ بھارت میں بھی مونسون کی غیر یقینی شدت نے تباہی مچائی اور بارشوں کے غیر متوقع طوفانوں نے معمولات زندگی متاثر کیے۔
کیرالا کے وائناڈ اور ہماچل پردیش کے کئی علاقے شدید بارشوں کی لپیٹ میں آئے، جبکہ ممبئی اور دہلی بھی بار بار زیر آب آتے رہے۔ نتیجتاً، ہزاروں افراد شدید گرمی اور سیلابوں کے باعث لقمۂ اجل بن گئے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اس مسئلے کو اجتماعی طور پر حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ 2024 کی شدید گرمی دنیا کو جھنجھوڑ چکی ہے اور تقریباً 180 ممالک نے اسے براہِ راست محسوس بھی کیا۔ اگر 2025 میں بھی یہی صورتحال رہی تو پیرس سمجھوتے کا 1.5°C کا ہدف مکمل طور پر ناکام مانا جائے گا اور ہم اپنی بربادی کے ایک قدم مزید قریب پہنچ جائیں گے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ 2024 میں آنے والی قدرتی آفات، جیسے طوفان، سمندری ہلچل یا ایل نینو جیسی تبدیلیاں، سب سمندر اور زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثراتِ بد ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری لا محدود سہولتوں اور خواہشات کے باعث درجہ حرارت کا 1850 کی سطح سے 1.5°C اوپر چلا جانا ہے، جو عالمِ انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ ہماری طرزِ زندگی، توانائی کا بے دریغ استعمال اور قدرت کے وسائل کا استحصال ہی اس بحران کی جڑ ہے۔
سال بہ سال گندم کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور اس سال بھی قیمتیں بلند رہنے کا امکان ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق مارچ سے مئی تک گرمی معمول سے زیادہ رہنے کا خدشہ ہے، جس کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے۔ گزشتہ چار سالوں سے گندم کی قیمتوں میں اضافہ موسمیاتی خرابی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس سال کا فروری 125 سالوں میں سب سے گرم رہا ہے۔ موسمیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مارچ اور اپریل کے دوران ملک کے بیشتر حصوں میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہے گا۔ گرم ہوائیں مارچ میں شدت اختیار کر سکتی ہیں، جو گندم کے دانہ بننے کے عمل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
آئی ایم ڈی کی پیش گوئی کے مطابق، مارچ 2025 میں وسطی اور جنوبی بھارت کے زیادہ تر علاقوں میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں گرمی کا زیادہ اثر ہوگا۔ گندم پیداوار سوسائٹی کے چیئرمین اجے گوئل کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اناج کے دانے سکڑ جائیں گے، جس سے ان کا وزن کم ہوگا۔ اس کے نتیجے میں حکومت کے پاس گندم کا ذخیرہ کم ہو جائے گا نتیجے میں غریب عوام خوراک کے بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کشمیر، جو اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے جانا جاتا ہے، اس بارش کو ترس رہا ہے۔ محکمہ موسمیات نے پہلے ہی جنوری میں 81 فیصد کم بارش ہونے پر الرٹ جاری کر دیا تھا۔ زراعت اور باغبانی کشمیر کی معیشت کا اہم حصہ ہیں، مگر مسلسل کم بارش کے باعث کھیت اور باغات خشک ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
سردیوں میں غیرمعمولی گرمی کے زراعت پر مختلف منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے سے مختلف قسم کے جراثیم اور کیڑے زیادہ فعال ہو جاتے ہیں، جس سے فصلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ سیب کے پتوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے زیادہ متحرک ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار کم ہو رہی ہے۔
زیادہ درجہ حرارت کے باعث کچھ ایسے حشرات بھی پیدا ہو رہے ہیں جو درختوں کے پھلوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ خوبانی، آلو بخارا، چیری، ناشپاتی اور یہاں تک کہ سیب کی فصل بھی قبل از وقت کھلنے کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے، جس سے ان کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔
اچھی سیب کی فصل کے لیے کم از کم چالیس دن کی شدید سردی ضروری ہوتی ہے، جو اس سال نہیں دیکھی گئی۔ چند سال قبل تک کشمیر میں سالانہ 20 سے 25 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد سیب پیدا ہوتے تھے، لیکن اب یہ پیداوار کم ہوکر 17 سے 18 لاکھ میٹرک ٹن تک رہ گئی ہے۔ اسی طرح، زعفران کی کاشت بھی بے موسم گرمی کے باعث متاثر ہو رہی ہے، کیونکہ کم برفباری کی وجہ سے نہ تو اس کے جڑیں پھیل رہی ہیں اور نہ ہی پودے صحیح طریقے سے نشوونما پا رہے ہیں۔
کم برفباری کی وجہ سے کئی ندیاں اور چشمے خشک ہو چکے ہیں۔ گلوبل فاریسٹ واچ کے ڈیٹا کے مطابق، 2023 میں جموں و کشمیر میں 112 ہیکٹر قدرتی جنگلات ختم ہو چکے ہیں۔ اندازے کے مطابق 1970 کی دہائی میں کشمیر میں چنار کے درختوں کی تعداد 42,000 تھی، جو اب کم ہو کر 17,000 سے 34,860 کے درمیان رہ گئی ہے۔ اسی طرح، کئی قیمتی اور نایاب جانور بھی خطرے میں ہیں۔
کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی، جھیلوں اور ہمالیائی مناظر کے لیے مشہور ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ آبی وسائل کے تحفظ اور شجرکاری کے ذریعے موسمی حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دے، ورنہ مستقبل میں ماحولیاتی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
***
کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی، جھیلوں اور ہمالیائی مناظر کے لیے مشہور ہے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ آبی وسائل کے تحفظ اور شجرکاری کے ذریعے موسمی حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دے، ورنہ مستقبل میں ماحولیاتی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025