ملک میں وقف املاک کے تحفظ کے لئے جمعیۃ علمائے ہند کی انوکھی مہم،ملک بھر میں یوم تحفظ اوقاف کا اہتمام
رمضان کے تیسرے جمعہ کو یوم تحفظ اوقاف کے طور پر منایاگیا ،جمعیۃ علمائے ہند کے زیر اہتمام مہم کے تحت ملک گیر سطح پر 25ہزار سے زائد مساجد میں اوقاف کے تحفظ پر خطبے
نئی دہلی،30مارچ :۔
اسلام میں وقف جائیداد کی بہت اہمیت ہے۔ملک بھر میں کرڑوں کی وقف جائیداد پھیلی ہوئی ہیں جو قوم اور ملت کے لئے مفید ہو سکتی ہیں مگر بیشتر اوقاف عدم تحفظ اور عدم توجہی کی وجہ سے غیر قانونی قبضوں میں ہیں اور برباد ہو رہی ہیں۔نہ اس پر حکومتیں توجہ دے رہی ہیں اور نہ ہی ملی ادارے متحدہ طور پر یکسوئی کے ساتھ اس کے حل کی تلاش کر پا رہے ہیں ۔ دریں اثنا ملک کی باوقار ملی تنظیم جمعیۃ علمائے ہند نے ملک میں اوقاف کے تحفظ اور اس کی اہمیت کے تئیں عوامی بیداری کیلئے ایک انوکھی مہم کی شروعات کی ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند نے رمضان کے تیسرے جمعہ کو بطور یوم تحفظ اوقاف کے طور پر منانے کی اپیل جاری کی تھی اور گزشتہ روز جمعہ کو اس کے تحت مساجد میں خطبے کا اہتمام بھی کیا گیا۔
جمعیۃ علمائے ہند کی جانب سے اس سلسلے میں جاری ریلیز کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی اپیل پر ملک بھر میں مساجد کے ائمہ، خطباء اور ذمہ داروں نے رمضان المبارک کے تیسرے جمعہ کو ’یوم تحفظ اوقاف‘ کے طور پر منایا۔ اس موقع پر مساجد میں ائمہ کرام نے خطبہ میں وقف کی دینی و سماجی ور فاہی اہمیت، اس میں خورد برد کرنے والوں کے لیے وعید اور وقف کی حفاظت و ضرورت کو اجاگر کیا ۔مسجد عبدالنبی دفتر جمعیۃ علماء ہند میں مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند نے اس موضوع پر اہم خطاب کیا۔
دوسری طرف گجرات، کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ ، آسام، کیرالہ ، گوا، ہریانہ، مغربی بنگال، بہار، اتر پردیش، تمل ناڈو، دہلی، جھارکھنڈ سمیت متعدد ریاستوں میں 25 ہزار سے زائد مساجد میں ائمہ کرام نے عہد لیا کہ ہم بحیثیت مسلمان اور ہندوستان کے شہری، ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ہر ممکن جد و جہد کریں گے، کسی بھی طرح کے تجاوزات، غیر قانونی قبضہ یا وقف املاک کی غیر مجاز منتقلی کے خلاف حکومت ہند اور وقف ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے میں جمعیۃ علماء ہند اور دیگر وقف پروٹیکشن اداروں کا تعاون کریں گے اور ان کے ساتھ ہر محاذ پر کھڑے ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا، ’’وقف املاک کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور ان کی دیکھ بھال اور تحفظ میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے عوامی بیداری مہم چلائیں گے، نیز ایسی مہم چلانے والوں کا تعاون کریں گے۔ ہم وقف کی جائیدادوں میں خورد برد کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کریں گے اور کوشش کریں گے کہ وقف کو واقف کے منشاء کے مطابق ہی استعمال کیا جائے۔ ہم سب صاحب ثروت اور مالدار حضرات اللہ کی رضا کے لیے اپنی جائیداد کا ایک حصہ وقف کریں گے اور اپنی اولاد کو بھی اس کی نصیحت کریں گے۔‘‘
اس موقع پر اس صورت حال کی طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ ہماری بے توجہی اور غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑی تعداد میں وقف جائیدادوں کو اونے پونے داموں میں بیچ دیا گیا۔ خود مسلمان بھی کثرت سے وقف جائیدادوں کے استحصال میں شامل ہیں۔ لگاتار واقف کے منشاء اور وقف کے اغراض و مقاصد کو بے دردی کے ساتھ نظر انداز کیا جا رہا ہے، بڑے بڑے کاروباریوں، فیکٹریوں کے مالکان اور مفاد پرست لوگوں نے وقف کی املاک پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ بہت ساری وقف اراضی پر حکومت نے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرائیں، کئی ایکڑ زمینوں کی حصار بندی کر دی۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں دس ہزار وقف جائیدادوں پر سرکاری اداروں، متولیوں اور ذاتی اداروں کا قبضہ ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اوقاف کی جائیدادوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ لاکھ ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ محض کرناٹک میں دو لاکھ کروڑ روپے کے سب سے بڑے گھوٹالے کا واقعہ پیش آیا۔ مدھیہ پردیش میں 55 ہزار کروڑ کی وقف املاک میں سے 70 فیصد زمینوں پر ناجائز قبضے ہو چکے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آندھرا پردیش میں اکتیس ہزار ایکڑ کی وقف اراضی پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے، یہی صورت حال اکثر صوبوں کی ہے۔ ایسی صورت میں جہاں یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی اقدامات کے ذریعہ وقف کو تحفظ فراہم کرے ، وہیں ملک کے مسلم عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بیدار ہو جائیں اور وقف تحفظ تحریک کا حصہ بنیں۔