
مفتی حامد پٹیل کو برطانوی تعلیمی ادارے کا صدر بنانے پر ہنگامہ کیوں برپا ہے؟
آفسٹڈ کے عبوری چیرمین کے تقرر پر نفرتی مہم۔ مسلم شناخت نشانہ!
لندن: (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)
آفسٹڈ (Ofsted) برطانیہ کا قومی تعلیمی ریگولیٹری ادارہ ہے جو تمام عمر کے سیکھنے والوں، بشمول اسکولی بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے والے اداروں کے معیار کی نگرانی کرتا ہے۔ پچھلے دنوں معروف ماہر تعلیم مفتی حامد پٹیل کو اس ادارے کا عبوری چیئرمین مقرر کیا گیا ہے، جس پر دائیں بازو کے حلقوں میں شدید بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ اس سے قبل، آفسٹڈ ( آفس فار اسٹینڈرڈز ان ایجوکیشن، چلڈرنس سروسز اینڈ سکلز ) نے 11 مارچ کو ان کی تقرری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ:
"مفتی حامد پٹیل آفسٹڈ بورڈ کے عبوری چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں گے، جب تک کہ مارچ 2025 میں مستعفی ہونے والی ڈیم کرسٹین ریان کا کوئی مستقل جانشین مقرر نہیں ہو جاتا۔”
آفسٹڈ کے چیف انسپکٹر مارٹن اولیور نے ان کی تقرری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"مجھے بہت خوشی ہے کہ سر حامد عبوری چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔ حکومت ڈیم کرسٹین کے جانشین کی بھرتی کے عمل میں ہے، اور میں ان کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں۔”
مفتی حامد پٹیل کون ہیں؟
مفتی حامد حامد پٹیل 2019 سے آفسٹڈ بورڈ کے رکن ہیں اور آئندہ پانچ ماہ تک اس کے عبوری چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔ اس کے علاوہ، وہ اسٹار اکیڈمیز کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔اسٹار اکیڈمیز کے تحت 36 پرائمری اور سیکنڈری اسکول شمالی انگلینڈ، ویسٹ مڈلینڈز اور لندن میں چل رہے ہیں۔ اس ٹرسٹ کو کامیابی اور پسماندہ طلبہ کی ترقی کے حوالے سے برطانیہ میں ایک مثالی ماڈل سمجھا جاتا ہے۔
مفتی حامد پٹیل برطانوی تعلیمی نظام میں ایک فکری اور تدریسی رہنما کے طور پر معروف ہیں۔ وہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیچنگ کے وائس چیئرمین رہ چکے ہیں، جو تعلیمی معیار اور جدت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، وہ برطانیہ کی ایجوکیشن آنرز کمیٹی اور کنفیڈریشن آف اسکول ٹرسٹس کے سربراہ بھی ہیں، جہاں وہ تعلیمی معیار میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔
وہ برمنگھم یونیورسٹی میں تعلیم کے اعزازی پروفیسر بھی ہیں اور تدریسی تحقیق کو عملی طور پر اسکولوں میں نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
برطانوی حکومت نے 2015 میں انہیں کمانڈر آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر (C.B.E) کے خطاب سے نوازا اور 2021 میں انہیں "نائٹ” کا اعزاز بھی دیا گیا، جو کہ ان کی تعلیمی خدمات کا اعتراف ہے۔
نفرتی عناصر مشتعل کیوں ہیں؟
مفتی حامد پٹیل کی تقرری پر نہ صرف برطانیہ بلکہ بھارت کے دائیں بازو کے کارکنان بھی مشتعل نظر آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی ہے اور متعدد اسلاموفوبک تبصرے سامنے آئے ہیں۔
مثلاً، ایک صارف نے طنز کیا:
"اب برطانوی بچوں کو بتایا جائے گا کہ زمین چپٹی ہے اور وہ دوزخ میں جائیں گے!”
ایک اور صارف نے لکھا:
"برطانیہ اب مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ اس کا تعلیمی نظام بھی اسلامائز ہو رہا ہے!”
برطانیہ میں بھی کچھ افراد نے یہ تقرری اسلامائزیشن کے تناظر میں دیکھی۔ ایک صارف نے لکھا:
"کیا یہ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام پر اسلامی کنٹرول کی ایک اور مثال نہیں؟”
بعض اکاؤنٹس نے یہاں تک الزام لگایا کہ مفتی حامد پٹیل کی سربراہی میں "برطانیہ میں مدارس کا نظام رائج ہو جائے گا” اور "یہ تقرری دہشت گردوں کی دراندازی ہے!”
مسلم کونسل آف برطانیہ کا ردعمل
دوسری طرف، مسلم کونسل آف برطانیہ نے مفتی حامد پٹیل کی تقرری کو "تاریخی” قرار دیا اور ان پر ہونے والے اسلاموفوبک حملوں کی مذمت کی۔کونسل کے ترجمان نے کہا:
"ہم مفتی حامد پٹیل کی آفسٹڈ کے عبوری چیئرمین کے طور پر تقرری کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے برطانوی مسلمان ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ عناصر ان کی صلاحیتوں کے بجائے ان کی مسلم شناخت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔”
یہ سوال اہم ہے کہ کیا کسی ماہر تعلیم کی مسلم شناخت تعلیمی معیار کو متاثر کر سکتی ہے؟ مفتی حامد پٹیل کی کارکردگی برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں نمایاں اصلاحات کی نشاندہی کرتی ہے، اور وہ ہمیشہ تعلیم میں میرٹ، معیار اور جدت کے داعی رہے ہیں۔تاہم، دائیں بازو کی برہمی ظاہر کرتی ہے کہ کچھ حلقے کسی بھی مسلمان کی ترقی کو خطرہ سمجھتے ہیں، چاہے وہ برطانوی سماج کے لیے کتنا ہی کارآمد کیوں نہ ہو۔ لیکن ان کی تقرری پر ہونے والا رد عمل اس امر کو واضح کرتا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کو آج بھی مخصوص حلقے شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ آیا جدید معاشرے میں میرٹ سے زیادہ تعصب اہم ہے؟ اور اگر مسلمان کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائے تو کیا وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے گا؟
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025