
ڈاکٹر سلیم خان
ٹرمپ کا امریکہ کو عظیم بنانے کا نعرہ کئی ممالک کے لئے خطرہ !
یوکرین نے یوروپ اور امریکہ کے رشتوں میں جو دراڑ ڈالی ہے اس پر بچپن کی ایک کہانی یاد آتی ہے۔ جنگل کے اندر دو بیل رہاکرتے تھے ۔ان میں بڑی دوستی تھی۔ وہ آپس میں اتحادو و اتفاق سے رہتے اور ہر مصیبت و آفت کا مل کر مقابلہ کرتے تھے۔پرانے زمانے کا شیر جب بھی ان کو آنکھیں دکھاتا تو دونوں متحد ہو کر اسے کھدیڑدیتےاور پھر وہ دُم دبا کر بھاگ جاتا۔ اس دوران شیر کے بیٹے نے ہاتھی سے دوستی کرلی ۔ پھر بھیڑ، بکری اور بھیڑئیے نے ایک اتحاد میں شامل ہوکر اپنی پوزیشن مضبوط کرلی نیز جنگل کی لومڑی پر حملہ کردیا ۔ ابتداء میں دونوں بیل لومڑی کی حمایت میں ایک ساتھ تھے مگر آگے چل کر ایک بیل شیر کا ہمنوا بن گیا اس طرح دونوں بیل ایک دوسرے سے بدظن ہوکر باہم دشمن ہوگئے۔
آگے چل کر جب شیر ایک بیل پر حملہ کرے گا تو دوسرا بیل اس کی مدد کو نہیں آئے گا۔بعید نہیں بیلوں کی باہمی لڑائی میں لومڑی چالاکی سے شیر اور ہاتھی کے اتحاد میں شامل ہوجائے۔ شیرکی زبان پر پھر سے خون لگ گیا ہے۔ قوی امکان ہےکہ اب شیرپہلے ایک بیل کا شکار کرے اور پھر دوسرے کو ترنوالہ بنالے ۔
موجودہ دور میں دیکھا جائے تو امریکہ اور یورپ میں یوکرین کی وجہ سے دراڑ پڑگئی ہے نیز روس اور چین میں بھی دوستی ہوچکی ہے۔ اب امریکہ بھی روس کا طرفدار بن رہا ہے جس کی وجہ سے یورپ تنہا ہوچکا ہے. عین ممکن ہے کہ باہمی افتراق و انتشار دونوں کے لئے نقصان کا باعث بن جائے اور روس کی قسمت چمک جائے ۔
چونکہ پچھلے چند مہینوں میں ہی ٹرمپ امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کا نعرہ لگا کر وارد ہوئے ہیں ۔ ایسے میں امریکہ دوبارہ عظیم کیسےبنے گا ؟ اس سوال کا جواب صدر ٹرمپ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ان کا خیال ہے پچھلے 80 سال سے امن قائم کرنے کے نام پر امریکہ کا استحصال ہوا ہے۔ اب ٹرمپ امریکہ کے مفاد میں سودے بازی کرکے اسے پھر سے سپر پاور بنانا چاہتے ہیں ۔ اس بابت ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح دنیا زیادہ خطرناک ہو جائے گی اور امریکہ خود کمزور اور غریب ہوجائےگا۔
ٹرمپ نے 24 فروری کو فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ یوکرین پر بات چیت کے بعد کہا تھا کہ میری پوری زندگی ڈیلز کے گرد گھومتی ہے۔ سوداگری کا یہ انداز عالمی بساط پر تباہی مچا سکتا ہے اس لیے کہ روس اس کا فائدہ اٹھا کر اپنے اوپر سے پابندی اٹھوالے گا۔ امریکہ کے جرمنی اور آسٹریلیا میں موجود فوجی اڈے بند ہوجائیں گے۔ چین سنگا پور اور تائیوان میں اپنی برتری قائم کرلے گا۔ مشرق وسطیٰ میں اگر ایران اور سعودی عرب اسی طرح ساتھ رہیں تو وہاں سے امریکہ کا عمل دخل ختم ہوجائے گا ۔ اس طرح امریکہ تو عظیم نہیں بن سکے گا لیکن یوروپ نے پچھلے 80سالوں میں امریکہ کو ساتھ لے کر نیٹو کے پرچم تلے جو عالمی فتنہ و فساد برپا کررکھا ہے اس پر لگام لگے گی۔ یہ علامہ اقبال کی اس پیشن گوئی کے مصداق ہے جس میں انہوں نےبرسوں پہلے فرنگی جواریوں کے انجام بد سے عالمِ انسانیت کو آگاہ کردیا تھا :
جہانِ نو ہورہا ہے پیدا جہانِ پیر مررہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا قمار خانہ
یوکرین اور روس کا تنازع گیارہ سال پرانا ہے۔ 2014 میں روس نے حملہ کرکے کریمیہ کو یوکرین سےا لگ کرلیا تھا ۔ اس علاقہ میں روسی بولنے والےکثیرتعداد میں ہیں اس لیے جب استصواب کروایا گیا تو اکثریت نے یوکرین کے مقابلے خود مختاری کے حق میں ووٹ دےدیا ۔ 2022 میں روس نے دوبارہ حملہ کرکے دنباسک سمیت کئی سرحدی علاقوں کو یوکرین سے چھین لیا۔ مذاکرات کے دن بھی روسی حملہ جاری تھا اور کرسک پر کریملن کا قبضہ ہورہا تھا نیز یوکرین کی کمزوری پر مہر ثبت ہورہی تھی۔ امریکی انتظامیہ نے جب یہ سمجھ لیا کہ یوکرین جنگ ہار چکا ہے تو اسے معاہدے کےلیے مجبور کرکے پھر ایک بار ثابت کردیا کہ وہ حق و انصاف کے بجائے طاقت کے ساتھ کھڑا رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس معاملے میں دوست اور دشمن کی تفریق بھی نہیں کرتا۔ مغرب کی اس تاجرانہ ذہنیت کو علامہ اقبال نے کس خوبی سے بے نقاب کیا تھا(ترمیم کی معذرت)
ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ
حجاز کے شہرجدہ میں ثالثی کے دوران ٹرمپ کے مشیروں نے دباؤ ڈال کر یوکرین کو مکمل ایک ماہ کی جنگ بندی کی امریکی تجویز سے اتفاق کرنے پر مجبور کیا ۔ امریکہ اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے صحافیوں کو بتایا کہ : ’’ہم نے ایک پیشکش کی جسے یوکرینی حکام نے قبول کر لیا ہے۔اس کے تحت وہ جنگ بندی اور فوری مذاکرات پر آمادہ ہیں۔‘ یوکرینی وزیر اعظم کے پیروں تلے سے چونکہ زمین کھسک چکی ہے اس لیے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہیں یہ کڑوی گولی نگلنی پڑی اور امریکی وزیر خارجہ کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ: ’اب ہم اس پیشکش کو روسیوں کے سامنے رکھیں گے اور امید کرتےہیں کہ وہ امن کو قبول کریں گے۔ گیند اب ان کے کورٹ میں ہے۔ بدقسمتی سے اگر وہ انکار کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ امن کے راستے میں اصل رکاوٹ کون ہے؟‘ اس موقع پر یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کو لالی پاپ پکڑاتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ روبیو نے کہا کہ امریکہ فوری طور پر یوکرین کے لیے وہ فوجی امداد اور انٹیلی جنس معلومات کی شیئرنگ بحال کر رہا ہے، جو فروری 28 کو صدر ٹرمپ اوران کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد معطل کر دی گئی تھی۔
مذاکرات کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان میں، یوکرین اور امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ ’جلد از جلد‘ ایک معاہدہ کریں گے جس کے تحت امریکہ کو یوکرین کےقیمتی معدنی ذخائر تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔ یہی وہ تاوان ہے جو اپنے پیشرو جو بائیڈن کے دور میں فراہم کیے گئے اربوں ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کے بدلے ٹرمپ وصول کررہے ہیں ۔کل تک باغی تیور دکھانے والے زیلینسکی نے اس ’مثبت‘ جنگ بندی کی تجویز پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا اور اب ان کے یوروپی حامی اپنے آپ کو فریب خوردہ محسوس کررہے ہیں اس لیے کہ یوکرین نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا ۔ زیلینسکی اب امریکہ سے روس کو قائل کرنےکاتقاضہ کرتے ہوئے کہا: ’امریکی فریق ہمارے دلائل کو سمجھتا ہے، ہماری تجاویز کو قبول کرتا ہے، اور میں صدر ٹرمپ کا تعمیری بات چیت کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘ اپنے قائد کی تائید میں زیلینسکی کے اعلیٰ مشیر آندری یرماک نے بھی بولے یوکرین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ امن چاہتا ہے۔انہوں نے کہا: ’روس کو واضح طور پر یہ کہنا ہوگا کہ وہ امن چاہتے ہیں یا نہیں۔ وہ اس جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں یا نہیں ، جس کا آغاز انہوں نے کیا تھا ؟‘ لیکن اب یہ الفاظ اب بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں ۔
روسی صدر نے اس معاہدے کے حوالے سے کہا کہ روس جنگ بندی کے لیے تیار ہے لیکن یوکرین کومزیدشرائط تسلیم کرنی ہوں گی۔یہ دبنے والے کو مزید دبانے کا مزاج ہے۔ پوتن نے جنگ بندی سے متعلق کچھ معاملات پرامریکی صدرسے بات چیت کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم یقیناً جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں ،جنگ ختم ہونی چاہیے لیکن منصوبہ طویل مدتی امن پر مبنی ہو نا چاہیے کیونکہ بحران کو جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔ان کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ جنگ بندی کے احکامات کون دے گا اوروہ کس قیمت پر ہوگی یا اسے کون اداکرے گا؟ ان مسائل پر امریکی ساتھیوں سے گفت و شنید لازمی ہے۔ ویسے امریکی صدر ٹرمپ نے امید جتائی ہے کہ روس درست سمت کا انتخاب کرے گا۔ وہ روس کی جانب سے جنگ بندی دیکھنا چاہیں گے۔ ٹرمپ نے اپنی عادت کے خلاف محتاط لہجے میں کہا کہ پوتن نے اچھا، امید افزا بیان تودیا لیکن وہ مکمل نہیں تھا۔ انہوں نے بھی صدر پوتن سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ خلل تو ہوگا لیکن وہ زیادہ دیر نہیں رہے گا۔
امریکہ کے ساتھ معاہدہ طے ہوجانے کے بعد یوکرینی صدرولادیمیر زیلینسکی نے الزام لگایا کہ روسی صدر پوتن جنگ بندی کی امریکی تجویز کومسترد کرنے کی تیاری کررہے ہیں مگرامریکی صدرکو یہ بتانے سے ڈرتے ہیں کہ ان کی خواہش جنگ جاری رکھنے کی ہے۔انہوں نے کہا کہ یوکرین نے جنگ بندی کے لئے پیچیدہ شرائط نہیں رکھیں، اتحادی ممالک پوتن پردباؤبڑھائیں اورمزید پابندیاں عائد کریں۔یوکرینی صدر کے مطالبے سے پہلے ہی یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ امریکی محکمہ خزانہ نے بائیڈن انتظامیہ کی روس کو دی گئی 60 روزہ رعایت ختم کردی ہے۔ اس کی وجہ سے اب روسی بینک توانائی کے بڑے سودوں میں امریکی ادائیگی نظام سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ان امریکی پابندیوں کے سبب دیگر ممالک کے لیے روس کا تیل خریدنا مشکل ہو جائے گا۔ ان اقدامات کا مقصد روس کو30 روزہ جنگ بندی قبول کرنے کے لیے مجبورکرنا ہے لیکن جس طرح روس کے مقابلے یوکرین کمزور ہے اسی طرح برکس کا اتحاد نیٹو سے زیادہ مضبوط ہے۔ اس لیے امریکہ کی ایک نہیں چلے گی اور اس کا دباو بے اثر ہوجائےگا۔ اس کا تازہ ترین ثبوت جنگ بندی کی گفتگو کے دوران امریکہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے روس کا کرسک پر زور دار حملہ ہے ۔
روس نے ویسے تو 2014 میں ہی کریمیا پر قبضہ کرلیا تھا مگر فروری 2022 میں فوجی کارروائی کرنےکے بعد سے یوکرین کے تقریباً پانچویں حصے پر قابض ہے۔ یوکرین نے اپنے مشرقی علاقوں کو روس سے واپس لینے کے لیے غیر متوقع طور پر اچانک حملہ کرکے کرسک پر قبضہ کرلیا تھا ۔ روس چونکہ اس کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے ایک وسیع و عریض علاقہ سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ یوکرین کو امید تھی کہ جب روس کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوگا تو وہ کرسک کو اپنا علاقہ واپس لینے کی خاطرسودے بازی کے لیے استعمال کرے گاتاکہ ماسکو کو ممکنہ زمینی تبادلے کے لیے مجبور کیا جاسکے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جب دونوں فریقوں کو بات چیت کے لیے آمادہ کردیا تو روس سمجھ گیا امن معاہدے پر دستخط کےبعد کرسک اس کےگلے کی ہڈی بن جائے گا اس لیے اس نے وہاں غیر متوقع زبردست فوجی مشق شروع کردی۔ روس نے اس فوجی مہم کے ذریعہ ایک ہفتے میں مغربی سرحدی علاقے کرسک بیشتر علاقوں کو دوبارہ چھین لیا۔ کرسک میں اس شکست نے یوکرین کے ان منصوبوں کو ملیا میٹ کردیا جو اس نے خطے پر اپنی گرفت کو تین سالہ جنگ کےبعد امن مذاکرات میں سودے بازی کے لیے بنایا تھا ۔
حالات کی اچانک اچانک تبدیلی چونکہ امریکہ کے زیر نگرانی ہونے والی مذاکرات واقع ہوئی ہے اس لیے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو درمیان میں کودنا پڑا۔ انہوں نے پوتن پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کے فوجیوں کی جانیں بچائیں کیونکہ یوکرین کے ہزاروں فوجی مکمل طور پر روسی فوج کے گھیرے میں ہیں اور بہت خراب اور کمزور حالت میں ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق انہوں نے صدر پوتن سے پرزور دارخواست کی ہے کہ ان فوجیوں کی جانیں بچائی جائیں۔ ان کے مطابق یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے ہولناک قتل عام ہو گا ۔ روس کے آگے اس طرح گڑگڑانے کو ٹرمپ کہتے ہیں کہ یہ ان کے ایلچی سے روس کے رہنما کی مجوزہ 30 روزہ جنگ بندی پر بات چیت کا نتیجہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے جب یوکرین کو پوری طرح بے نقاب کردیاتو یوکرین کی فوجی قیادت نے اپنی عزت بچانے کی خاطر ان دعووں کی تردید کرنی شروع کی ۔
یوکرین کے جنرل اسٹاف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ میں لکھاکہ ہمارے یونٹوں کو گھیرے میں لینے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔خو زیلنسکی نے کیف میں نامہ نگاروں کے تبصروں کانہایت سنجیدہ انداز میں جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ کرسک کے علاقے میں صورتحال واضح طور پر بہت مشکل ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ روس کو فرنٹ لائن پر موجود دیگر علاقوں سے فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ اس سے یوکرین کی افواج پر دباؤ کم ہو گیا ہے جو مشرقی لاجسٹکس کے مرکز پوکرووسک کا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ٹرمپ کا یہ بیان اس وقت آیا جب ان کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور پوتن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں تازہ ترین معلومات کا تبادلہ ہورہا ہے تاکہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی میں 30 دن کی توسیع کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر امید ظاہر کی کہ اس کا بہت اچھا امکان ہے کہ یہ خوفناک، خونی جنگ بالآخر ختم ہوجائے گی۔
اس کے برعکس پوتن نے کہا کہ ان کو اس تجویز کے بارے میں ”سنجیدہ خدشات “ ہیں اور کرسک میں ہونے والے واقعات جنگ بندی کی طرف اگلے اقدامات پر اثر انداز ہوں گے۔کریملن نے بھی معاہدے کے حوالے سے ’محتاط طور پر پرامید‘ رہنے کا عندیہ دیا مگر مذاکرات میں پیش رفت سے قبل ٹرمپ اور پوتن کی براہ راست بات چیت پر اصرار کیا ۔ روسی ٹیلی ویژن پر اپنے ایک بیان میں پوتن نے بڑی چالاکی سے کہا کہ ، “ہم صدر ٹرمپ کی اپیل سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اگر یوکرینی فوجی وہ ہتھیار ڈال دیں تو انہیں زندگی اور باوقار سلوک کی ضمانت دی جائے گی۔ اس بیان میں بین السطور یہ دھمکی موجود ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ قتل عام ہوکر رہے گا جس کا ٹرمپ کو اندیشہ ہے۔ روس کے اس اڑیل رویہ سے پریشان ہوکر زیلنسکی نے روسی رہنما پر الزام عائد کیا کہ وہ جنگ بندی کے اقدام کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔زیلنسکی نے ایکس پر لکھا کہ ، ’’وہ اب جنگ بندی سے پہلے ہی انتہائی مشکل اور ناقابل قبول شرائط طے کرکے سفارتکاری کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
یوکرین اور روس کے درمیان اس کشیدگی کے بیچ جی سیون کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا تو اس میں روس کو خبردار کیا گیا کہ اگر وہ ’مساوی شرائط پر‘ جنگ بندی کو قبول نہیں کرتا تو اس پر نئی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔فرانس اور جرمنی نے بھی روس پر جنگ بندی کو روکنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ روس کی جانب سے صدر ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا یہی ظاہر کرتا ہے کہ پوتن امن کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور یہ سچائی ہے جس کا اعتراف خود امریکی بھی بلا واسطہ کرتے ہیں۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے فاکس نیوز پر ایک انٹرویو میں کہا کہ وٹکوف کے دورے کے بعد امریکہ کو ’کچھ محتاط امید‘ تھی نیز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کینیڈا میں مغربی طاقتوں کے گروپ کے اجلاس میں کہا کہ دونوں فریقوں کو ”رعایتیں“ دینا ہوں گی۔اس پیش رفت نے ثابت کردیا ہے کہ اب روس کے اوپر امریکہ اور یوروپ کا کوئی رعب داب باقی نہیں ہے۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے امریکی حکومت اب اپنے آپ کو رستم زماں سمجھنا بند کردے کیونکہ اس کے دن لد چکے ہیں۔ امریکہ بہادر جتنی جلدی یوکرین کی مانند اس حقیقت کا اعتراف کرلے اس میں اس کی اپنی اور دوسروں کی بھلائی ہے۔ ویسے امریکی تذبذب پر شہزاد احمد کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے:
میں چاہتا ہوں حقیقت پسند ہو جاؤں
مگر ہے اس میں یہ مشکل حقیقتیں ہیں تلخ
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025