معیاری کتابوں کی اشاعت روشن مستقبل کی ضمانت
بچوں میں مطالعہ کا شوق:زمینی سروے پر مبنی ایک جائزہ
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
بچوں کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب قیمت کی کتابیں از حد ضروری۔ معصوم قارئین کی بڑھتی ہوئی تعداد قابل ستائش
حقیقت یہ ہے کہ علم کے برعکس جو بھی ہے وہ جہالت ہے اور جہالت انسان کو گمراہی میں مبتلا کر دیتی ہے اور یہ گمراہی ہی ہے جو انسان کو بآسانی شیطان کا آلہ کار بنا دیتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا صمٌ بکمٌ عمیٌ فھم لا یرجعون (البقرہ۔18) صمٌ (بہرہ Deaf) بکمٌ (گونگا Dumb )اور عمیٌ (اندھا Blind) جاہل کی صفات ہیں جبکہ قرآن نے آنکھ، کان اور دل کو نعمتوں میں شمار کیا ہے اور ان نعمتوں کا ذکر ‘علم’ کے پس منظر میں کیا ہے۔ کہا گیا کہ: کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔اور فرمایا: اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصْروالْفُوادَ کُلُّ اُولَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئوُلاً (بنی اسرائیل:36) یقینا آنکھ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔اس پس منظر میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ "مطالعہ” انسان کو مشاہدۂ حق کے قابل بناتا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا جلال الدین رومیؒ کا یہ مقولہ لائق توجہ ہے، "آدمی دید است باقی لحم و پوست” یعنی آدمی صرف صلاحیتِ بصارت سے عبارت ہے بقیہ جو کچھ ہے وہ صرف گوشت و کھال ہے۔ اس بصیرت افروز مقولہ کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں صاحب فرماتے ہیں "یہ کیفیت زندگی کی مصروفیت ومعمولات (گہما گہمی) میں آدمی کو گم ہو جانے سے بچاتی ہے” برخلاف اس کے موجودہ حالات میں جہاں شب و روز کی مصروف ترین زندگی اور حصول معاش و حد درجہ لذت نفس نے انسان کو مادیت کے غلبہ میں مبتلا کر دیا ہے، ضروری ہے کہ مطالعہ کا شوق اور ذوق پیدا کیاجائے۔ ساتھ ہی بچپن ہی سے بچوں میں بھی مطالعہ کا رجحان پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں میں مطالعہ کی کیفیت، رجحانات اور دلچسپیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مقامی، علاقائی اور شہری سطح پر سروے اور جائزے لیے جائیں اور جو نتائج سامنے آئیں ان کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔اسی سلسلے میں ‘انسٹیٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی’ کے ذریعہ راقم نے آٹھ تا پندرہ سال کی عمر کے بچوں کی عادات خواندگی پر مبنی ایک آن لائن سروے کیا جس کی مختصر تفصیلات یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔اس سوال نامے کا مقصد کم عمر مسلم بچوں کے پڑھنے کی عادات کے بارے میں جامع ڈیٹا اکٹھا کرنا تھا۔ساتھ ہی جوابات کی روشنی میں تجزیہ پر مبنی جائزے میں مسلمان بچوں کی دلچسپیوں کے پیش نظر مطالعے کے فروغ، رجحانات اور شعبہ جات کی نشان دہی کرنا ہے تاکہ ایک جانب والدین اور تربیت یافتگان حضرات، بچوں کے ادیب اور پبلشرز، بہتری اور نئے امکانات کی جانب توجہ فرمائیں تاکہ بچوں میں بھی مطالعہ کے شوق اور ذوق کو پروان چڑھانا آسان ہو۔
"بچوں کی عادت خواندگی” کے عنوان سے اِس آن لائن سروے کو چھ اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں ابتدائی معلومات حاصل کی گئیں جس میں نام، جنس، کلاس، عمر کا گروپ (آٹھ تا پندرہ سال) اسکول میں تعلیم کا میڈیم، ای میل آئی ڈی، وہاٹس ایپ نمبر، مقام اور ریاست کی تفصیلات درج تھیں۔دوسرے حصہ میں بچوں کے پڑھنے کی فریکوئنسی کو جاننے کے لیے چند سوالات کے جواب طلب کیے گئے۔ سوالات اس طرح تھے:
(1) آپ ایک ہفتے میں کتنی بار کتابیں پڑھتے ہیں؟
(2) آپ کو کس قسم کی کتابیں سب سے زیادہ پسند ہیں؟ دوسرے سوال میں بچوں کو آپشن میں سے کوئی ایک منتخب کرنا تھا۔
(3) والدین سے بھی سوال تھا کہ آپ اپنے بچوں کو کتابیں کیسے فراہم کرتے ہیں؟(4) ہفتے میں کتابیں پڑھنے کے لیے کتنے گھنٹے صرف کرتے ہیں؟
(5) ہر ہفتے آن لائن/موبائل گیمز اور سوشل میڈیا پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
(6) پڑھنے کے لیے درج ذیل میں سے کون سا فارمیٹ پسند کرتے ہیں؟
(7) نئی کتابوں کے بارے میں آپ کو کہاں سے پتہ چلتا ہے؟ تیسرے حصہ میں ‘اسلامی ادب’ کے حوالے سے سوالات درج تھے مثلاً:
(الف) آپ کو اسلامی لٹریچر پڑھنے کی ترغیب کیسے حاصل ہوتی ہے؟
(ب) عام طور پر پڑھنے کے لیے نئی اسلامی کتابیں آپ کو کیسے فراہم ہوتی ہیں؟
(ج) کس اسلامی مصنف یا اسکالر کو آپ سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں اور کیوں؟(د) کیا آپ روایتی اسلامی کتابیں (جیسے قرآن و حدیث) پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں یا ہم عصر اسلامی لٹریچر؟ اور پڑھتے ہیں تو کیوں؟
(ہ) آپ کے لیے یہ کتنا اہم ہے کہ آپ جو کتابیں پڑھتے ہیں وہ اسلامی اقدار کی عکاسی کرتی ہیں؟
اسی طرح چوتھے حصے میں بچوں کی دلچسپیوں کے تعلق سے سوالات درج تھے، جیسے:
(الف) آج کل بچوں کی کتابوں میں آپ کس قسم کی کہانیاں یا تھیمز زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں؟
(ب) آپ کے خیال میں پڑھنا، آپ کے مستقبل اور معاشرے میں آپ کے کردار کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟
(ج) اسلامی ادب میں کون سے موضوعات آپ کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں؟
(د) اپنی مادری زبان میں اسلامی لٹریچر کی دستیابی کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں؟
(ہ) کیا آپ کسی ایسی کتاب کا نام بتا سکتے ہیں جس نے اسلام کے بارے میں آپ کی سمجھ کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہو؟
(و) اسلامی لٹریچر کی اشاعت میں مستقبل کے کن رجحانات کو دیکھنا چاہتے ہیں، خاص طور پر اخلاقیات پر مبنی موضوعات کے سلسلے میں؟
(ہ) جب آپ پڑھتے ہیں تو کیسا محسوس کرتے ہیں؟
پانچویں حصے میں بچوں کی کتابوں کی دستیابی، ان کا انتخاب اور معیار کے متعلق چند سوالات دیے گئے تھے، جیسے:
(الف) کیا آپ کو لگتا ہے کہ بچوں کے لیے وہ اسلامی کتابیں جو آپ پسند کرتے ہیں آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں؟
(ب) بچوں کی اسلامی کتابوں کے مواد کے معیار کے بارے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
اور اسی طرح چھٹے وآخری حصے میں بچوں کے مواد اور کتابوں کی اشاعت کے تعلق سے تجاویز طلب کی گئی تھیں۔ مثلاً:
(الف) آپ کے خیال میں آپ کی کمیونٹی میں بچوں میں مزید پڑھنے کی حوصلہ افزائی کے لیے کیا بہتری لائی جا سکتی ہے؟
(ب) بچوں کی کتابوں کے مصنف اور پبلشرز کے لیے کوئی تجویز یا مشورہ؟سروے میں حصہ لینے والے بچوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے والدین یا سرپرستوں کے ساتھ فارم کو پُر کریں تاکہ سوالات کو سمجھنے، جوابات دینے اور اپنے احساسات درج کرنے میں اگر کوئی دشواری ہو تو والدین یا سرپرستوں کے ذریعہ رہنمائی مل سکے۔
لہٰذا "بچوں کی عادت خواندگی” کے عنوان سے کیے گئے آن لائن سروے میں کُل 254 بچوں نے حصہ لیا جن میں 94 فیصد بچے دہلی سے تھے تو 6 فیصد بچوں میں کچھ بچے اتر پردیش، بہار،نمہاراشٹر اور کرناٹک سے بھی تھے۔جن کی عمریں آٹھ تا پندرہ سال کے درمیان تھیں۔ تعلیمی لیاقت کے اعتبار سے تیسری تا دسویں کلاس کے بچوں نے شرکت کی۔ بچوں اور بچیوں کے لحاظ سے 75.6 فیصد بچیوں نے اور 24.4 فیصد بچوں نے اپنے احساسات درج کروائے۔ وہیں عمر کے لحاظ سے آٹھ تا پندرہ سال کے بچوں کا اوسط پچاس فیصد رہا۔ تعلیم کا میڈیم جس میں اردو، انگلش اور ہندی کا تذکرہ تھا، اس میں 52.6 فیصد انگلش، 41.9 فیصد ہندی اور 3.6 فیصد اردو کے طلبہ تھے۔ اس تعداد سے دو رجحانات کی جانب اشارے ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ والدین اپنے بچوں کو عموماً انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں جس کی ایک وجہ نظام تعلیم اور اس میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔ دوسری جانب اعلیٰ تعلیمی اداروں میں چونکہ تمام سبجیکٹس (چند زبانوں کو چھوڑ کر) انگلش میں پڑھائے جاتے ہیں اس لیے بھی بچوں کو نرسری اور پرائمری اسکولوں ہی سے انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرنا والدین کی مجبوری ہے۔ لیکن اس میں یہ بات اہم ہے کہ جس معاشی نظام کا ہم حصہ ہیں اس میں انگریزی کو خاص اہمیت حاصل ہے اور علم کے ذخائر بھی زیادہ تر انگریزی میں ہی ہیں۔ مزید یہ کہ عالمی سطح پر انگریزی کا غلبہ ہے، لہٰذا زبان اور زبان کے ذریعہ بیان کیا جانے والا مواد اور اس میں محسوس و غیر محسوس انداز میں موجود فکرکے اثرات بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔
بچوں میں پڑھنے کے رجحان اور فریکوئنسی کے پیش نظر 60.6 فیصد بچوں کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ نصاب کے علاوہ دیگر کتابیں پڑھتے ہیں۔ 25.6 فیصد بچے ہفتہ میں کچھ دن مطالعہ کرتے ہیں، 9.4 فیصد بچے ایسے ہیں جو ہفتہ میں ایک مرتبہ ہی کسی کتاب کا کچھ حصہ پڑھتے ہیں، وہیں 4.3 فیصد بچے ایسے بھی ہیں جو کبھی کبھار ہی مطالعہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ برخلاف اس کے بچوں کو کس قسم کی کتابیں پسند ہیں اس سوال کے جواب میں 57.5 فیصد بچے تاریخ اسلام (Islamic history) پر مبنی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ پچاس فیصد بچے adventure۔ 9.4 فیصد بچے فکشن اور 5.1 فیصد بچے گرافکس ناول پسند کرتے ہیں۔ یعنی موجودہ حالات میں مسلمان بچے اسلامی تاریخ کو جاننے میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور اسلامی تاریخ، اسلامی ہیروز اور اس طرح کی دیگر کتابیں پڑھنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ غالباً اس کی ایک وجہ اسلامی تاریخ کو جاننے کی دلچسپی بھی ہے اور دوسری جانب مسلم ممالک کی جانب سے مختلف اسلامی شخصیات پر مبنی سیرئیلس جو بآسانی یوٹیوب پر دستیاب ہیں، اس پس منظر میں بھی ممکن ہے اس رجحان میں اضافہ ہوا ہو۔یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ زمانہ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ تغیر برپا ہے، اس میں مسلمان بچوں کی ذہن سازی کے لیے ایک مؤثر ذریعہ اسلامی تاریخ پر مبنی شخصیات، تعلیمات اور حالات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کے بڑے مواقع دستیاب ہیں، ان موضوعات پر اگر انگریزی میں بچوں کے لیے کتابیں شائع کی جائیں تو وہ ہاتھوں ہاتھ لی جائیں گی۔ بچوں کے ادیب حضرات اور ناشرین کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس موقع پر یہ سوال بھی اہم تھا کہ بچوں کو جو کتابیں حاصل ہوتی ہیں اس کے ذرائع کیا ہیں؟ اس میں 71.7 فیصد بچوں کا جواب تھا کہ انہیں والدین کتابیں فراہم کرتے ہیں اور وہ شوق سے انہیں پڑھتے ہیں۔7.1 فیصد بچوں کا کہنا تھا کہ انہیں کتابیں تحفہ میں ملتی ہیں۔ لیکن 26.8 فیصد قابل قدر تعداد ان بچوں کی بھی سامنے آئی جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پاکٹ منی سے کتابیں خریدتے ہیں۔یہ صورتحال حد درجہ خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہے کہ موجودہ دور میں بچے جن کے بارے میں عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ کتابیں نہیں پڑھتے، درست نہیں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ بچوں کو ملنے والی پاکٹ منی کو بھی وہ کتابیں خریدنے پر صرف کرتے ہیں۔ والدین اور متعلقین کو بچوں کے اس رویہ اور عمل کے نتیجہ میں حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، امید ہے کہ بچوں کو ملنے والی حوصلہ افزائی سے ان میں یہ مثبت جذبہ مزید پروان چڑھے گا۔
سروے میں ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ بچے آن لائن یا موبائل پر گیمز کھیلنے پر ہفتہ میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں اور کتنا وقت کتابیں پڑھنے کے لیے نکالتے ہیں؟ جواب میں جو رجحان سامنے آیا ہے اس کے مطابق گیمس پر 29.5 فیصد بچے وقت صرف کرتے ہیں تو وہیں 35 فیصد بچے ایسے ہیں جو پڑھنے کے لیے کم از کم ایک گھنٹہ لگاتے ہیں۔ یعنی موبائل فونوں اور آن لائن گیموں پر زیادہ وقت صرف کرنے کے باوجود ایسے بچوں کی تعداد بھی قابل قدر ہے جو آن لائن اور موبائل پر کتابیں پڑھنے کے لیے بھی اپنا وقت فارغ کرتے ہیں۔ جبکہ تین اور چار گھنٹوں سے زیادہ وقت موبائل فونوں اور آن لائن گیموں پر صرف کرنے والے بچوں کا فیصد چوبیس ہے۔ برخلاف اس کے کتابیں پڑھنے والے بچوں کی تعداد صرف9.1 فیصد ہے۔یہ ڈاٹا واضح کرتا ہے کہ بچوں میں آن لائن اور موبائل گیمس وغیرہ پر صرف ہونے والا وقت کتابیں پڑھنے والے بچوں کے بالمقابل بہت زیادہ ہے۔ یعنی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ہر روز پانچ یا اس سے زیادہ گھنٹے آن لائن اور موبائل گیمس پر صرف کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف کتابیں پڑھنے پر بہت کم وقت صرف ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ بچوں کو والدین کتابیں خرید کر فراہم کرتے ہیں، تحفہ میں بھی ملتی ہیں اور بچے اپنی پاکٹ منی سے بھی کتابیں خرید کے پڑھتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ والدین اور سرپرستوں کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اپنے شب و روز کی مصروفیات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ خود روزانہ گھنٹوں موبائل فونوں اور دیگر چیزوں کو دیکھنے میں تو صرف نہیں کر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر بچوں کی اصلاح سے پہلے خود کی اصلاح سے آغاز کریں۔ کیوں کہ بچے عموماً والدین، بالخصوص ماں، جس کے پاس وہ زیادہ وقت گزارتے ہیں اسی کے طرز عمل اور فکر و نظر اور رویوں سے متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ اثرات عمل میں ڈھلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔لہٰذا پہلے خود کی اصلاح کریں۔
سروے میں یہ سوال بھی شامل کیا گیا تھا کہ بچے کون سے فارمیٹ میں پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں، پرنٹ بکس،ای-بکس یا آڈیو بکس؟ 88.2 فیصد بچوں کا کہنا ہے کہ انہیں پرنٹ بکس پڑھنا زیادہ پسند ہے۔ 14.2فیصد بچوں کو ای-بکس کی شکل میں کتابیں پڑھنا پسند ہیں تو وہیں 3.1 فیصد بچوں کو آڈیو بکس پسند ہیں۔ یہ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ بچوں کو سب سے زیادہ پرنٹ شکل میں کتابیں پڑھنا پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ بڑے شہروں میں book fairs جائیں گے تو دیکھیں گے کہ بچوں کی کتابوں پر مبنی کافی بڑے اسٹالس موجود ہوتے ہیں۔ پرگتی میدان،دلی میں لگنے والے انٹرنیشنل اور نیشنل بک فیئر میں بے بچوں کی کتابوں کے بے شمار اسٹالس ہوتے ہیں جہاں والدین کی کثیر تعداد اپنے بچوں کو ساتھ لاتی ہے، کتابیں خریدتی ہے اور بچے بھی خوشی کے ساتھ ان اسٹالس سے کتابیں خریدتے ہیں۔ یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ پرنٹ بکس کی مارکیٹ اور اس کا دائرہ کم نہیں ہوا بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ زبان کے لحاظ سے انگریزی زبان سرفہرست ہوتی ہے تو دوسرے درجہ میں مقامی زبانیں، اس کے بعد دیگر زبانوں کا نمبر آتا ہے۔ اس لیے پبلشر حضرات کو اور بچوں کے ادیب حضرات کو بھی چاہیے کہ بچوں کے ذوق مطالعہ کو سامنے رکھتے ہوئے خوبصورت اور معیاری کتابیں انگریزی و مقامی زبانوں میں تیار کریں تو ایک بڑی تعداد آج بھی بچوں اور ان کے والدین کو نہ صرف متاثر کرے گی بلکہ پیش کیے جانے والا مواد اثر پذیری کے لحاظ سے شاندار اور مثبت نتائج کے اخذ کرنے میں معاون ہوگا۔
آخر میں یہ بات ادیب حضرات کو پیش نظر رکھنی چاہیے کہ بچوں کو عام فہم اور آسان زبان زیادہ پسند ہے، ساتھ ہی انہیں رنگین اور گرافک بکس اچھی لگتی ہیں۔ اسی طرح نہ صرف والدین بلکہ بچے بھی یہی چاہتے ہیں کہ کتابیں معیاری ہوں لیکن قیمت بھی بہت زیادہ نہ ہو۔ دوسری جانب بچوں کو اس بات کا شعور ہے کہ کتابیں ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لہٰذا بچوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے مواد تیار کیا جائے اور اسے دلکش اور متاثر کن انداز میں پیش کیا جائے۔یہ پیش کش کتابوں کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے، ای-بکس کی شکل میں بھی،کارٹون کی شکل میں بھی،ویب سائٹ اور ایپ کی شکل میں بھی اور چھوٹی چھوٹی کہانیوں پر مبنی ویڈیوزکی شکل میں بھی ہوسکتی ہے۔اس کے لیے بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر گلی اور محلے میں بچوں کی لائبریریاں قائم کی جائیں جہاں بچوں کے بیٹھنے، ان کے والدین سے ملاقات کرنے، ان کے خیالات اور احساسات سے واقف ہونے کے مواقع دستیاب ہوں۔ ساتھ ہی بچوں میں موجود ہمہ جہت صلاحیتوں کے فروغ کے مواقع بھی نکالے جاسکیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں کے لیے محلے میں موجود اسکولس اور ان کی انتظامیہ سے رابطہ قائم کیا جاسکتا ہےاور انہیں بھی اس کار خیر میں شامل کرتے ہوئے ملت کے مستقبل کو روشن وتابناک بنانے میں اہم کردار اداکیا جاسکتا ہے۔اس موقع پر یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر بچہ بحیثیت فرد اور خاندان ملک و ملت کا مستقبل ہے لہٰذا اسے کسی بھی درجہ میں نظر انداز نہ کیا جائے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024