مضبوط معیشت کے لیے صحت مند ماحول ضروری

اقلیتوں کی حالت زار پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ ملک کی بدنامی کا سبب

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

دنیا جہاں میں اور ہمارے ملک میں بھی لال بجھکڑوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ بحیثیت قوم ملک کی ترقی کے لیے محض محنت کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ روپے کمائیں۔ کاروبار کریں، خوب منافع حاصل کریں اور زیادہ خرچ کریں۔ زیادہ اچھے کپڑے، اچھے کھانے، کاریں اور گھروں کی عورتوں کے لیے مہنگے گہنے خرید کر اپنی حیثیت ثابت کرسکیں مگر بہت سارے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ محض روپے کمانے کی ہوس طویل عرصہ تک ترقی کے لیے سب کچھ نہیں ہوتی، لوگوں میں باہمی یقین اور بقائے باہم کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اب لوگوں کو اسے خود غرضی اور مقابلہ جاتی ماحول میں چند بنیادی اصولوں اور سماجی روایتوں کی ضرورت پڑنے لگتی ہے جب یہ بنیادی خیر خواہانہ طور طریقے کمزور ہوجاتے ہیں تو ہم کچھ اچھا تو کرلیتے ہیں مگر معیشت میں تنزلی آنے لگتی ہے۔ فرانسس فوکویاما جیسے ماہر اقتصادیات کے ذریعہ کیے گئے تجزیہ سے لے کر ماہرین معاشیات کے ذریعے کیے گئے تجربات تک سب یہی ظاہر کرتے ہیں کہ سماج میں باہمی محبت و مفاہمت زیادہ ہوتی ہے تو وہ بہتر نتائج کے حامل ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں معاشی بہتری کی جڑ بنیادوں کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ سماج میں مذہبی منافرت کا زہر بری طرح سرایت کر چکا ہے اور اقلیتی طبقوں کی ہمیشہ تضحیک کی جاتی ہے۔ چرچوں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ دعائیہ جلسوں میں موجود لوگوں کی بےدردی کےساتھ پٹائی کی جاتی ہے۔ مختلف ہندو تہواروں کے موقع پر مساجد کے سامنے اشتعال انگیز نعرے لگاکر مسلمانوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ہتھیاروں کا مظاہرہ کرکے لوگوں کے اندر خوف کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی مسلمانوں کی دکانوں میں لوٹ مار بھی مچائی جاتی ہے۔ امن پسندوں اور دانشوروں کو شرم آتی ہے کہ دنیا کی سب سبے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم بازاری زبان استعمال کرتا ہے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ وہ کبھی مغلوں پر بات کرتے ہیں، کبھی مچھلی اور مٹن پر بولتے ہیں کبھی مدرسوں کو نشانہ بناتے ہں تو کبھی مسلمانوں کو بہت بچے پیدا کرنے والا، گھس پیٹھیا بتاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وزیراعظم مجرا جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ تکبر کا عالم یہ ہے کہ ہمیشہ گالیاں ہی بکتے رہتے ہیں۔ کبھی عیسائیوں کو تو کبھی سکھوں کو اور مسلمانوں کی جان واملاک کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ووٹ نہ ملنے پر اب ایودھیا کے لوگوں کو بھی گالیاں دی جارہی ہیں ۔ وزیراعظم یہ سب تو کرتے ہیں لیکن ملک کی مہنگائی پر بات نہیں کرتے۔ بیروزگاری ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کسانوں کی ایم ایس پی پر کسی طرح کی گفتگو نہیں ہوتی۔ اگنی ویر یوجنا کے ذریعہ فوج کو دو دھڑوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو تعلیمی طور سے پستی میں ڈالنے کے لیے تعلیمی وظیفہ ختم کردیا گیا۔ ساتھ ہی مسٹر مودی چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ اگر کانگریس کو اقتدار مل گیا تو وہ ہندو بہنوں کا منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ ہندووں کی دو بھینسوں میں سے ایک بھینس مسلمانوں کو دے دی جائے گی۔ اب انتخاب کے بعد مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کی ماب لنچنگ شروع ہوگئی ہے۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کے ذریعہ زمین دوز کیا جارہا ہے۔ تانا شاہ وزیراعظم کا رویہ، بدامنی، دہشت اور خوف کا ماحول ملک کی پیشانی پر بدنما داغ ہے۔ منی پور اس کی تازہ مثال ہے کیونکہ اس سے سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ سرمایہ کار سرمایہ کاری سے ہچکچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں کروڑ پتی ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں اپنا کاروبار سیٹ کررہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار ملک کے تشدد اور بدامنی کے ماحول میں سرمایہ کاری سے گریز کررہے ہیں اس کے علاوہ ان کو ای ڈی، سی بی آئی انکم ٹیکس کا خوف بھی ستارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں سرمایہ کاروں کو کئی طرح کے مسائل کے باوجود وہ بھارت کا رخ کرنے سے گریزاں ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں سرمایہ کاری کا گراف تنزلی کا شکار ہے۔ ملک میں معاشی ترقی کی بلیٹ ٹرین اسی وقت دوڑے گی جب ملک میں امن وا مان ہو۔ ایک دوسرے کے لیے محبت اور خیر سگالی کا جذبہ ہو۔ ویسے آزادی کے بعد سے ہی ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے جہاں گاندھی، نہرو، مولانا آزاد، رابندر ناتھ ٹیگور جیسے مفکرین اور مصنفین نے اپنی تصنیفوں اور تقریروں کے ذریعہ ساری دنیا پرواضح کردیا ہے کہ ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں رح مدلی، مذہبی رواداری، باہمی تعاون جیسے اقدار انسانی وجود سماجی و معاشی ترقی کے لیے اہمیت کے حامل ہیں ۔ حالیہ رپورٹرس ود آوٹ بارڈرس کے مطابق ہمارے ملک میں پریس کی آزادی کے اسکور کو 36.62سے گھٹا کر 2023 میں 31.28کردیا گیا ہے۔
آج ہمیں سڑکوں، بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے طرز کے فزیکل انفرااسٹرکچر کی نہیں بلکہ ہیومن انفراسٹرکچر کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں لاکھوں ایسے نوجوان چاہیے جن میں سوچنے سمجھنے کی بھرپور صلاحیت، دور اندیش اور بہتر کل کی تعمیر کی صلاحیت ہو۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ نصف سے زائد بھارتی گریجویٹس بیروزگار ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم اکثر تعلیمی نظام کومورد الزام قرار دیتے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ جزوی طور پر صحیح بھی ہو لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ بھارتی خاندان جس میں خوشحال خاندان بھی ہیں جو اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے ، سوچنے، تجربہ کرنے، رائے دینے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے Motivateنہیں کرتے ہیں۔ بچوں کا ویڈیو میں استغراق بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور پڑھنے لکھنے سے ان کی دل چسپی کم ہورہی ہے۔ وہ بڑے ہوکر دماغی محنت سے کتراتے ہیں جبکہ پڑھنے کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا ہے جب ان سے کرئیر کے اہداف کے تعلق سے پوچھا جاتا ہے تو کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں اچھی نوکری کرنی چاہیے۔ ان کے اندر دنیا میں اپنی چھاپ چھوڑنے اور کسی شعبہ میں آگے بڑھ کر اپنی شناخت بنانے کا جنون نہیں ہوتا۔ اس لیے ملک کے جوانوں کو چیلنج سے بھرپوراپنا ہدف متعین کرنا ہوگا۔ اس کے حصول کے لیے سب کچھ کھپانے کا داعیہ بھی پیدا کرنا ہوگا۔
ورلڈ بینک کے ڈیٹا کے مطابق 2007میں بھارت فی کس آمدنی کے معاملے میں پاکستان کو پچھاڑ کر آگے بڑھا ہے اور تب سے دونوں ممالک کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے کیونکہ پاکستان بدامنی اور داخلی انتشار کی وجہ سے ایک ناکام معاشی ملک بن گیا ہے جبکہ 2018کے بعد ورلڈ بینک کے مطابق بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی ہمارے ملک کی فی کس آمدنی سے بہتر ہوئی ہے ہمیں بھی ترقی پذیر ملک کے اچھے مظاہرہ پر حسد کرنے کے بجائے خود احتسابی کی ضرورت ہے کہ ہم نے اپنا مقام کیسے گنوایا؟ ملک میں اتنی صلاحیتیں اور ٹیلنٹس ہیں جو کم ہی ملکوں میں ہیں۔ دنیا کے کئی اعلیٰ اور مقتدر کاروباری رہنمائی کرنے والے ہمارے ملک سے ہیں۔ مگر ہماری غلط معاشی پالسی کی وجہ سے ہمارا ملک دو لاکھ کروڑ سے زیادہ کا مقروض ہے۔ کرنٹ اکاونٹ ڈیفسیٹ بھی زیادہ ہے۔ درآمدات زیادہ ہے برآمدات کم ہے۔ ایم ایس ایم ای کے لیے وقت پر قرض دستیاب نہیں ہوتا۔ غیر منظم سیکٹر بدحالی کا شکا رہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ غیر منظم سیکٹرس سے 90فیصد نوجوانوں کو روزگار ملنتا ہے اگر وہ بدحالی کا شکار ہوں گے تو ملک میں بیروزگاری آسمان کی بلندی پر جائے گی۔ امریکہ اور یوروپ میں اعلیٰ معیاری تعلیم گاہوں کے ریسرچرز ہمارے ملک سے ہی ہیں۔ ملک کے اندر بھی آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے اعلیٰ تعلیم گاہوں کے اندر بڑی تعداد میں ٹیلنٹس موجود ہیں مگرہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ ملک کے آئی آئی ٹیز کے 38فیصد طلبا کو خاطر ڈیولپمنٹ نہیں ملا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی قابل تشویش ہے۔ ساتھ ہی کرونزم میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس سے کچھ بڑی کاروباریوں کے دریعہ ملک کی تجارت پر قبضہ بڑھ رہا ہے جس سے چھوٹے کاروباری ادارے ٹھیر نہیں پارہے ہیں۔ نتیجتاً روزگار کی فراہمی پر اثر پڑ رہا ہے۔
ملک کی اقلیتوں کے حالت زار پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ملک کی نیک نامی کو بٹہ لگایا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ ہم ملک کے داخلی حالات کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں۔ بیمار ذہنیت کے حامل لوگ سماج کو پراگندہ کرنے کے لیے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے ہیں۔ اس لیے ملک کی سماجی، معاشی ترقی کے لیے ایسی سماج دشمن قوتوں کو مزدور قوت قابو میں کرنے کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 فرانسس فوکویاما جیسے ماہر اقتصادیات کے ذریعہ کیے گئے تجزیہ سے لے کر ماہرین معاشیات کے ذریعے کیے کیے گئے تجربات تک سب یہی ظاہر کرتے ہیں کہ سماج میں باہمی محبت و مفاہمت زیادہ ہوتی ہے تو وہ بہتر نتائج کے حامل ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں معاشی بہتری کی جڑ بنیادوں کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024