مضبوط خاندان: رکاوٹیں اور ازالہ
خالد محسن (جالنہ)
انسانی معاشرے کی اہم اور بنیادی اکائی خاندان ہے جو نکاح کے مقدس عمل کے ذریعہ وجود میں آتا ہے ۔معاشرے کی ترقی اور تنزلی دونوں کا انحصار خاندان کی مضبوطی اور شکست وریخت پر ہی ہوتا ہے ۔خاندان کی اکائی جس قدر مضبوط و مستحکم ہوگی اسی قدر معاشرہ مستحکم ہوگا۔خاندان کی بقاءاور تحفظ کو شریعت کے بنیادی مقاصد میں شمار کیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ عائلی نظام سے متعلق ہے جو دراصل خاندان کے نظام کے تحفظ اور بقاء واستحکام کی غرض سے وجود میں لایا گیا ہے۔ قرآن میں ایک تہائی سے زائد احکام عائلی نظام کو منضبط کرنے اور اس کی اصلاح کے لیے آئے ہیں ۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک خاندان اگرچہ ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح اور پھر ان کے بچوں ہی سے وجود میں آتا ہے لیکن اس میں شوہر کے والدین اور خونی رشتے کے غیر شادی شدہ عزیز بھی شامل ہوکر ایک وسیع خاندان تشکیل دیتے ہیں۔ قرآنی تعلیمات اور اسوہ رسولؐ نے خاندان کو انتشار سے بچانے کے لیے اور اسے استحکام بخشنے کے لیے باہمی حقوق و فرائض کا ایک سلسلہ قائم رکھا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انفرادیت پسندی، عدم اعتماد، پریشانی اور انتشار جیسے معاشرتی امراض کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام فرد اور اجتماعیت میں جس توازن واعتدال کا علمبردار ہے اس کا تقاضا ہے کہ خاندان کی حیثیت ایک مضبوط ومستحکم یونٹ کے طور پر قائم رہے تاکہ اجتماعی تربیت کا ابتدائی مرکز وسیع تر اجتماعی شعور اور فلاح کے لئے مؤثر طور پر کام کرے۔
مغرب نے خاندانی نظام کو لے کر جو تلخ تجربات کیے ہیں ان کے کڑوے کسیلے پھل آج مغربی دنیا پارہی ہے ۔لبرل ازم کے نظرئیے کے ساتھ خاندانی نظام کی تباہی کا منظر دیکھ لینے کے بعد آج ایک مضبوط ومستحکم خاندان کی اہمیت کو اہل مغرب خوب جان چکے ہیں ۔خاندانی نظام کے گریٹ ڈسرپشن(عظیم تباہی) کے بعد اب مغربی معاشرہ بیک ٹو ہوم(عورت کی گھر واپسی) کے نعروں کے ساتھ فطرت کی طرف لوٹنے پر آمادہ و مجبور ہے۔
لیکن جس طرزِ حیات کا مغربی معاشرہ عادی ہوچکا ہے اور جو اخلاقی خلاء وہاں پیدا ہوا ہے اس کے سبب مضبوط خاندانی نظام کی تعمیر نو مغرب کے لیے مشکل امر بن گیاہے۔اسلام کا خاندانی نظام جن آفاقی بنیادوںپراستوار ہےان ہی بنیادوںپر خاندانی نظام مستحکم ہوسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مضبوط بنیادوں کی موجودگی کے باوجود ہمارے خاندانی نظام میں بھی بعض ایسی خرابیاں درآئی ہیں جن کا ازالہ کیے بغیر مشرقی معاشرے مضبوط خاندانی نظام کے عملی نمونے پیش کرنے سے قاصر رہیں گے۔جبکہ مضبوط خاندان کی تعمیر اور ترویج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
مضبوط خاندان: تعارف اور بنیادیں
ایک مضبوط خاندان کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ جس خاندان میں میاں بیوی کے رشتے میں احترام، محبت و الفت، ہم آہنگی اور تعاون کا جذبہ ہو۔ خدا شناسی اور خدا ترسی کے ساتھ خاندانی مسائل حل کیے جاتے ہوں۔ فریقین اپنے اپنے دائرہ کار میں عائلی تعلیمات کو ملحوظ رکھتے ہوں۔ نسل کی اخلاقی اور دینی تربیت ہو اورانہیں اسلامی اقدار و ثقافت کی پیروی کے لئے تیار کیا جاتا ہو۔ افراد خاندان اپنے اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں۔ اجتماعی معاملات باہمی رضا مندی اور مشاورت سے طے ہوتے ہوں، صبر و تحمل، حسن سلوک اور حسن معاشرت، ایثار و قربانی کا جذبہ تمام معاملات میں مقدم رہتا ہو، حقوق کی پامالی نہ کی جاتی ہو،بلکہ خاندان کی ہمہ جہت ترقی کے لئے سب مل کر کوشاں رہتے ہوں تاکہ ایک بہتر سماج تشکیل پاسکے۔ منجملہ اسلام کی تمام تر عائلی تعلیمات کا ایک عملی نمونہ ہی دراصل مضبوط خاندان کہلاتا ہے۔ مضبوط و مستحکم خاندان کی بنیادیں خطبہ نکاح میں پڑھی جانے والی آیات میں بیان کردی گئی ہیں۔ان آیات کا انتخاب بہت حکمت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ مضبوط خاندان کی تعمیر کی خشتِ اول کو صحیح نہج پر رکھنے کی دانستہ کوشش ہے۔اس کے تین اہم پوائنٹس ہیں:
1- تقویٰ
2- صلہ رحمی
3- قول سدید
ان تینوں باتوں کو اگر وسیع تر انسانی زندگی میں پھیلادیا جائے تو انسانوں کی زندگیاں تبدیل ہوجاتی ہیں۔باہمی تعلقات میں خدا خوفی، صلہ رحمی کی تلقین اور تکمیل، زبان کے ذریعے پیدا ہونے والے فسادات کی بیخ کنی کا یہ کارآمد نسخۂ خطبہ نکاح میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ نئے جوڑے کے لئے ہدایات اور عوام کے لیے تذکیر ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاندانی نظام کے بنیادیں درست کرلیں۔
درپیش روکاوٹیں
خاندان کو مضبوط ومستحکم بنانے کی راہ میں خارجی رکاوٹوں کے ساتھ داخلی رکاوٹیں بھی درپیش ہیں۔ ان میں رسوم و روایات، خاندان و خواتین سے متعلق افکار و نظریات اور سوچ، غلط تصورات، خاندان کی اپنی روایات، عائلی تعلیمات سے ناواقفیت یا بے توجہی، حقوق و فرائض سے انحراف کی روش، مادہ پرستی ،مفاد پرستی، تہذیبی یلغار اور غربت و افلاس جیسے کئی پہلو ہیں، جو ہمارے خاندانی نظام کو مطلوبہ حد تک مضبوط خاندانی نظام بننے کی راہ میں حائل ہیں۔ اس مضمون میں تکرار سے بچنے کے لئے ان عملی اور کنونشنل روکاوٹوں پر توجہ مرکوز کریں گے جو مضبوط خاندان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
غلط افکار ونظریات
مضبوط خاندان کی تشکیل میں غلط افکار و نظریات، رسوم و روایات بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔یہ افکار ونظریات صدیوں سے چلے آرہے خاندانی کلچر اور روایات مضبوطی اختیار کرکے سوچ یا مائنڈ سیٹبن چکے ہیں۔عورت کو خاندان کا جزتوسمجھا جاتا ہے لیکن اس کی حیثیت، مقام اور مرتبے کو مرد کی دانست پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔عام طور پر خاندانوں میں مرد کا حاکمانہ رویہ عملی طورپر عورت کو غلام جیسا تصور کیے جانے کے نتیجے میں انتہائی بھونڈا ہوتا ہے۔ خاندانی روایتیں عورت کو ناقص العقل،اور پیر کی جوتی ثابت کرنے اور اس کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔ گھریلوں تشدّد جیسے مسائل اسی سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔خاندان کی گاڑی کا ایک انتہائی اہم پہیہ عورت، اگر اسی طرح بے وقعت سمجھی جاتی رہے تو مردکے غلبے والامعاشرہ تو تسلسل پاسکتا ہے لیکن مضبوط خاندان نہیں بن سکتا۔ عورت سے متعلق جب تک غلط افکار و نظریات کی تصحیح نہیں ہوتی ہمارے خاندان انتشار سے پاک اور مضبوط خاندان نہیں بن سکتے ۔
عائلی تعلیمات سے عدم آگاہی
خاندان کی اہمیت اور مقام سے واقفیت اگر نہ ہو تو خاندانی نظام کی مضبوطی کا تصور ہی بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔ایک اچھے معاشرتی تمدن کے لیے عائلی تعلیمات سے واقفیت ازحد ضروری ہے تاکہ باہم حقوق و فرائض کی ادائیگی آسان ہو۔فکر وخیال کی پاکیزگی، رشتوں کی حرمت و تقدس کو اسلام کی عائلی حکمتوں نے تحفظ فراہم کیا ہے۔ یہ تمام حکمتیں دین فطرت کے بنیادی قوانین پر عمل کی وجہ سے پروان چڑھتی ہیں اورخاندان کے استحکام میں مددگار ہوتی ہیں۔عائلی تعلیمات سے عدم آگاہی کا نتیجہ منتشر خاندان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔
رشتوں کا انتخاب
خاندان کی اکائی ایک مرد اور عورت کے نکاح کے پاکیزہ بندھن کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ مضبوط ومستحکم خاندان کی پہلی اینٹ ہی اگر ٹیڑھی رکھی جائے تو یہ عمارت ثریا تک بھی پہنچ جائے، اس میں کجی باقی رہے گی۔ ہمارے معاشرے میں اکثر بےجوڑ رشتے خاندانی انتشار کا باعث بنتے ہیں جس کی واحد وجہ رشتوں کے انتخاب میں اسلامی معیار کا لحاظ نہ کیا جانا ہے۔ برادری واد کے مقابلے میں کفو کا خیال رکھنا، حسنِ صورت کے مقابلے میں حسنِ سیرت کو ترجیح دینا، حسب ونسب کے مقابلے میں تقویٰ کو معیار بنانا مضبوط خاندان کی تعمیر کے لئے ضروری ہے۔
قبل ازشادی کاؤنسلنگ کا فقدان
ہمارے معاشرے اور تعلیمی و تربیتی نظام کی یہ بڑی کمزوری ہے کہ وہ نئی نسل کو گھر، خاندان اور معاشرے کےاچھے فرد کی حیثیت سے تیار کرنے کا تصور نہیں رکھتا۔ ہمارے خاندانوں میں بھی والدین اپنے بچوں کو مستقبل کے اچھے سربراہ خاندان یا فرد خاندان کی حیثیت سے تیار ہونے کا تصور اپنے بچوں کو نہیں دیتے۔جب کہ ہمارے معاشرے میں دنیا کے چھوٹے چھوٹے امور کی انجام دہی کے لیے بھی تربیتی ادارے موجود ہیں۔جہاں سےتربیت پاکر دنیاوی امور انجام دیئے جاتے ہیں لیکن خاندان کی بنیاد رکھنے جارہے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کوایک اہم ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے کسی بھی تربیتی مرحلے سے گزار نے کی سوچ و فکر نہیں۔
شادی صرف جنسی سکون حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی ذمہ داریوں کی ایک وسیع دنیا آباد ہوتی ہے ،جہاں قدم قدم پر رہنما ئی کی ضرورت ہو تی ہے ۔ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں فریقین کی رہنما صرف وہ روایات بن جاتی ہیں جووہ اپنے والدین یادوسرےافراد کودیکھ کر سیکھتے ہیں۔ جن کادرست ہو ناخود مسئلہ ہوتاہے۔نتیجتاً غلط خاندانی روایات کی وجہ سے خاندان انتشارکاشکار ہوجاتاہے۔اکثر پڑھی لکھی لڑکیاںاور لڑکےبھی، چھوٹی چھوٹی باتوں میں رہنما ئی نہ ہونےکےسبب سخت رویہ اختیار کر جاتے ہیں، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کاعلم اور احساس، غلط فہمیوں کے موقع پرجذبات کو کنٹرول کرنے، باہمی رابطہ بڑھانے اور تربیت اولاد (Parenting) اور دیگر ایسے کئی علوم و تراکیب ہیں جوزندگی کو خوشگوار بناسکتی ہیں، ان کانوجوان لڑکے لڑکیوں کو سکھایاجانابہت ضروری ہے۔ قبل ازشادی کاؤنسلنگ کے ادارے قائم کرکےجب تک تربیت کانظم نہیں کیا جاتا مضبوط خاندان کی تعمیر میں رکاوٹ حائل رہے گی ۔
تربیتی ذمہ داری سےعدم توجہ
سربراہ خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ اپنےمتعلقین کی تربیت کی بہترین منصوبہ بندی کرے اور خاندان کے تمام فریق اس منصوبے کونتیجہ خیز بنانےمیں اپنا رول ادا کریں، تب جاکرایک مضبوط خاندان وجود میں آ نے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ تر بیت سے مراد صرف تربیت اولاد ہی نہیں، بلکہ افراد خانہ باہم ایک دوسرے کی تربیت کےذمہ دارہیں اور تربیت کا صرف ایک محاذ تعلیمی تربیت نہیں ہےبلکہ مختلف محاذ ہیں۔تعلیم کے منصوبے پر توکچھ حدتک ہمارے معاشرے میں توجہ دی جاتی ہے لیکن آداب زندگی، اخلاقی اقدار، سماجی رویوں اور ادب وتہذیب کےمحاذپرتوجہ نہیں ہے یا کم ہے جس کا خمیازہ نسل درنسل بھگتنا پڑتا ہے۔ مناسب تربیت نہ ہونےکےسبب شخصیت میں جو جھول رہ جاتا ہے، وہ مختلف طریقوں سے خاندان کو کمزور کرنے کا سبب بنتاہے۔عصری تعلیم کےلئے اسکولس اور کالجزاور دینی تعلیم کےلئے مدارس ومکاتب پر انحصارکرنابڑی غفلت ہے۔ خاندان کا اپنا تربیتی کردار ہوتا ہےجس کےاحیاء کےبغیر مضبوط خاندان نہیں بنایا جا سکتا ۔
علمی اور اجتہادی فکر کی کمی
خاندانی نظام کو آئے دن نت نئے چیلنجز کا سامنا ہے ۔جن کے حل کے لئے علم وآگہی کے ساتھ علمی و اجتہادی فکر کا ہونا بھی ضروری ہے۔درپیش مسائل کے سلسلے میں واضح احکامات یا رہنمائی موجود نہ ہونے کی صورت میں اجتہادی بصیرت سے کام نہ لیا جائے تو خاندانی مسائل سنگین رخ اختیار کرلیتے ہیں ۔مخلوط نظام تعلیم، تکثیری سماج اور لائف اسٹائل کی تبدیلیوں کے سبب مختلف اور متنوع مسائل بطور چیلینج سامنے آتے ہیں جن کے حل کے لیے سربراہ خاندان اور اس دور کے علماء و دانشوران کو اجتہادی فکر کا مظاہرہ کرناضروری ہوجاتاہے ۔مثلاً مخلوط نظام تعلیم میں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا ضروری بھی ہے اور بے راہ روی سے بچانا بھی ضروری ہے۔اس مسئلہ میں ایک عرب عالم دین نے اجتہاد کا راستہ دکھاتے ہوئے ’’زوج فرینڈ‘‘ کا تصور پیش کیا ہے۔ اس سے مراد تعلیم کے مرحلے سے گزرتے ہوئے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کو اختلاط کے فتنے سے بچا کر نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے اور تعلیمی سلسلہ جاری رہنے دیا جائے ۔اس صورت میں تعلیم کے سبب شادی میں ہونے والی تاخیر اور نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچانا، ان دونوں مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔یہ محض ایک مثال ہے ۔خاندانی نظام کو درپیش جدید مسائل کے حل کے لیے مزید غور وفکر اور اجتہادی نقطہ نظر سے نئی راہیں ڈھونڈی جاسکتی ہیں۔
اندرونِ خانہ تنازعات کا حل
فیملی کے افراد کے درمیان کسی بھی بات پر نزاع پیدا ہونا فطری بات ہے لیکن چھوٹے چھوٹے معاملات اکثر بڑے مسئلے بن جاتے ہیں جو خاندان کے انتشار پر جاکرمنتج ہوتے ہیں۔ اگر گھر میں ہی افراد خاندان ایسا کوئی نظم بنائیں جہاں مسائل کو باہم اور بروقت حل کرلیا جائے تو معاملات بحسن خوبی حل ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں چھوٹے چھوٹے مسائل گھر میں حل کرنے کی کوشش نہیں ہوتی، مسائل طول پکڑ تے ہیں اور خاندان منتشر ہوجاتے ہیں ۔اگر گھروں میں ایسا میکانزم بنایا جائے تو گھروں کے مسئلے باہر جانے سے بچ سکتے ہیں ۔
اخلاق اور رویوں کی تربیت
تضحیک وافتراء غروروتکبر، غصہ اور سخت کلامی تحقیروتمسخریہ وہ اخلاقی خرابیاں ہیں جومضبوط خاندان کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔اگرافراد خانہ ایک دوسرےسےمتعلق مذکورہ رزائل سےاجتناب نہیں کرتے توزبردست انتشار پیدا ہوتا ہے۔ مردوں کا سسرالی رشتےداروں کاتمسخر و تضحیک اورخواتین کا شوہر کےرشتےدراوں کے سلسلے میں یہ رویہ خاندانوں کاشیرازہ بکھیر دیتا ہے۔ اس کےعلاوہ ایک دوسرے سےبیجاتوقعات رکھنااوراس کےمکمل نہ ہونے پر غصے کا اظہار خاندانی رشتوں کو کمزور کرتا ہے۔ اسلام نے توقعات کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کاایک معیارمتعین کیاہے جس کی بنیادی روح ایثار و قربانی اور جذبہ خدمت و خیرخواہی ہے۔
غربت اور معاشی مسائل
افرادِ خاندان میں خدائی مشیت کےتحت دولت کی تقسیم مختلف ہے۔کچھ کواللہ نےفراخ دست بنایا ہے جبکہ کچھ تنگدستی کاشکارہیں۔امدادباہمی کی تربیت نہ ہونےکےسبب ایک خاندان کے افراد کو مختلف معاشی مسائل درپیش ہیں ۔مضبوط خاندان کی تعمیرمیں معاش گوکہ معیارنہیں بنتالیکن امدادباہمی کےذریعےمعاشرےکی یہ چھوٹی اور بنیادی اکائی غریب پرور معاشرےکی بنیاد بن سکتی ہے۔ خاندانوں میں انفرادیت پسندی اور مادہ پرستی کے جذبات ایک مقابلہ آرائی کاماحول بناتےہیں۔ایک دوسرے سے مقابلے کےنتیجےمیں مادی ترقی کی ترغیب بھلےہی ملتی ہو، لیکن رنجشیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ دو سگے بھائیوں میں مقابلہ آرائی کی بجائے امدادباہمی کے جذبے سے خاندانی نظام مضبوتی کی جانب بڑھتا ہے۔
اس کا ایک دوسراپہلو یہ ہے کہ جہاں افرادِ خاندان کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل نہ ہوپاتی ہو وہاں افرادِ خاندان پرسکون کیسے رہ سکتے ہیں۔ اس کے لیے افرادِ خاندان کی جانب سے رزق حلال کی بھرپور جدوجہد کا جذبہ مطلوب ہے تاکہ وہ باوقار اور خوش حال زندگی گزارسکیں۔
پست عقیدے و کلچر سے دوری
ہمارےخاندانی نظام میں انتشارکی ایک وجہ مغربی کلچرکےنتیجےمیں طرزحیات میں آئی تبدیلیاں بھی ہیں۔مغربی تہذیب کےاثرات خاندانی نظام پر بہت گہرے ہورہے ہیں۔مغرب کی مادہ پرست، آزاد اور لبرل تہذیب خودمغرب کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوسکی۔ مقام افسوس ہےکہ ہمارے نوجوان لڑکےاور لڑکیاں اس کی جانب حسرت سے تکتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خاندان میں بے سکونی، تصنع، کنزیومرزم، معیار زندگی کی ہوڑ، عیش پسندی کا مزاج، فضول خرچی کے رویے، قرضوں کے ذریعہ تعیشات کا حصول ذہنی انتشارپیدا کرتے ہیں اور سب مضبودخاندان کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔
رکاوٹوں کا ازالہ
خاندانی نظام کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی راہ میں جن رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ کنوینشنل نوعیت کی رکاوٹیں ہیں ۔مزید اور کئی رکاوٹیں ہیں جن کا تذکرہ اور ازالے کی عملی شکلوں کو اس شمارے کے مختلف مضامین میں پیش کیا گیا ہے ۔تکرار سے بچتے ہوئے کچھ عملی حل پیش خدمت ہیں۔
l اسلام کا عائلی نظام مضبوط خاندان کی جو بنیادیں فراہم کرتا ہے اس پر سنجیدہ عمل آوری کے ذریعے خاندانی انتشار کے عذاب میں مبتلا اقوام کو اسلام کے دامن رحمت کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ ضروت اس بات کی ہے کہ ہمارے خاندانی نظام کو سمجھنے، برتنے اور اس کے فیوض وبرکات سے اہل وطن کو واقف کرانے لیے منصوبہ بند، طویل اور مسلسل مہم کا آغاز کیا جائے ۔یہ بیک وقت اصلاح معاشرہ اور دعوت دین دونوں کا تقاضہ ہے۔
l لڑکے اور لڑکیوں کے شادی سے قبل کاّنسلنگ اور تربیت کے مراکز قائم کیے جائیں اور اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت انہیںکامیاب ازدواجی و خاندانی زندگی کے گُر واضح طور پر سمجھائے جائیں۔ اسی طرح شادی کے بعد زوجین کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کو افہام و تفہیم اور کونسلنگ کے ذریعہ ختم کرکے ازدواجی رشتوں کو مستحکم کیا جائے۔
l اس کے لیے اپنے لڑکے اور لڑکیوں کےلیے اسلامی فکر بنانے والا لٹریچر گھروں میں فراہم کیا جائے اور انھیں قرآن و حدیث کی پیش کردہ خاندانی اور عائلی ہدایات کو سمجھنے کی طرف رہنمائی کی جائے۔ سورہ النساء اور سورہ نور کے مطالعے کا تفہیمی اور تربیتی کورس تیارکرکے اس سے گزارا جائے۔حضرت عمر نے عائلی تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر نصیحت فرمائی تھی کہ اپنی خواتین کو سورہ النساء اور سورہ النور کی تعلیم دو۔
lبچوں کی تربیت اور مغربی تہذیب کے اثرات سے حفاظت کے لیے خصوصی توجہ کے ساتھ منصوبہ سازی کی جائے تاکہ بچوں کی ایک پر اعتماد اور اسلامی شخصیت پروان چڑھانے میں سہولت ہو ۔
اگر ہم خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کےلیے اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات کو اپنا کر معاشرے کی اصلاح کا کام کرتے ہیں تو یقیناً ایک مضبوط سماج وجود میں آسکتا ہے اور یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ll
درپیش مسائل کے سلسلے میں واضح احکامات یا رہنمائی موجود نہ ہونے کی صورت میں اجتہادی بصیرت سے کام نہ لیا جائے تو خاندانی مسائل سنگین رخ اختیار کرلیتے ہیں ۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021