مصطفیٰ آباد کی فاروقیہ مسجد کے مؤذن کا کہنا ہے کہ وہ پولیس تھی جس نے پورے علاقے میں پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی اور سب کچھ نذر آتش کر دیا
نئی دہلی، 11 مارچ۔ شمال مشرقی دہلی فسادات کے دوران جلائی جانے والی مصطفیٰ آباد کی فاروقیہ مسجد کے زخمی مؤذن نے بتایا کہ "جب امام صاحب 25 فروری کو مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے جارہے تھے تو ان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا”۔ 44 سالہ جلال الدین بہار کے رہنے والے ہیں اور گذشتہ چار برسوں سے مسجد میں خدمت کر رہے ہیں۔ الشفا اسپتال میں اپنے زخموں کے علاج کے لیے بھرتی جلال الدین نے انڈیا ٹومورو سے اس دلدوہ واقعے کے بارے میں بات کی۔
انھوں نے بتایا ’’انھوں نے مسجد میں داخل ہوتے ہی سب کو اپنے سامنے ہی پیٹنا شروع کر دیا۔ قریب دس افراد نماز کے لیے موجود تھے۔ سب اپنی زندگی سے گھبرائے ہوئے تھے۔ میں اپنے کمرے میں پہنچا اور اندر سے دروازے بند کردیے۔‘‘ جلال الدین نے بتایا کہ دروازے کے درمیان چھوٹے سراخوں سے وہ پولیس اہلکاروں کو حملہ کرتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں پیٹرول تھا اور انھوں نے وہ سب چھڑک کر آگ لگا دی۔ آگ بھڑک اٹھی تھی۔ بعد میں مسجد سے متصل ایک مدرسے کو بھی آگ لگادی گئی۔
آگ کے دھوئیں سے دم گھٹنے کی وجہ سے جلال الدین اپنا دروازے کھول کر باہر کی طرف بھاگا۔ اس کے بعد پولیس والوں نے انھیں لاٹھیوں سے پیٹا۔
جب یہ پوچھا گیا کہ کیا آس پاس کوئی ہجوم موجود تھا تو انھوں نے کہا ’’میں آس پاس صرف پولیس اہلکار ہی دیکھ رہا تھا اور وہ مجھے بے دردی سے مار رہے تھے۔‘‘ پھر وہ بے ہوش ہوکر گر پڑا اور ایل این جے پی اسپتال میں داخل کردیا گیا۔
جلال الدین کے سر، پیر اور ہاتھوں پر شدید چوٹیں ہیں۔ انھیں بغیر کسی علاج کے اسپتال سے فارغ کردیا گیا جس کے بعد اسے اوکھلا کے الشفا اسپتال لے جایا گیا۔
جلال الدین جو کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، ان پر ایک اہلیہ اور پانچ بچوں کی ذمہ داری ہے۔