مشرق وسطی کی سیاست میں نمایاں تبدیلی،کیا عالمی نظام بدل رہا ہے؟

دفاعی سازو سامان کی مارکیٹ میں ایران اور ترکیہ کی آمدسے تہلکہ

نور اللہ جاوید، کولکاتا

برکس ممالک میں سعودی، ایران،مصراور ایتھوپیا جیسے مسلم ممالک کی شمولیت
مشرق وسطی میں چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ کا مقابلہ بھارت کےلیے بڑا چیلنج
جی۔20ممالک کے سربراہوں کی میزبانی یقیناً دنیا میں بھارت کی بڑھتی عزت اور دبدبہ کا مظہر ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کی عظیم معیشتوں کی اس کانفرنس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، ماحولیاتی آلودگی، عدم مساوات اور دنیا بھر سے شدت پسندی کے خاتمہ سے کے لیے دنیا کے یہ طاقتور سربراہان مملکت کیا فیصلے کر پائیں گے؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ اس کانفرنس سے بھارت کو معاشی اعتبار سے کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ آیا دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی توجہ بھارت کی طرف مبذول ہوگی یا نہیں؟ ان سوالوں کے حتمی جوابات کانفرنس کے بعد ہی دیے جائیں گے۔ جی 2O-کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ پرانی دشمنیاں دوستی میں تبدیل ہو کر سفارتی تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک کی یک قطبی خارجہ پالیسی کی جگہ ہمہ جہتی تعلقات پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سمت میں سیکیورٹی ضمانت کے لیے امریکہ پر انحصار ختم ہو رہا ہے اور چین و روس بھی اس صف میں کھڑے ہو رہے ہیں۔ کل تک اس خطے کی مسلم ممالت دفاعی ساز و سامان اور دیگر بنیادی ضروریات کے صرف کنزیومر تھے۔ آج ایران، ترکیہ اور متحدہ عرب امارت جیسے ممالک جدید ٹکنالوجی کا سہارا لے کر ڈرون مارکیٹ میں اہم کھلاڑی بن گئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان معاشی دیوالیہ کے دہانے پر کھڑا ہے اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ ادھر ایک دہائی سے زائد عرصے تک افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے کے باوجود افغانستان میں بھارت غیر متعلق ملک بنتا جا رہا ہے۔ طالبانی دور اقتدار کا چین فائدہ اٹھا رہا ہے اور وہاں کی معدنیات کے ٹھیکے چینی کمپنیوں کو مل رہے ہیں۔جب کہ چین کا افغانستان کا تعمیر و ترقی میں کوئی رول نہیں رہا ہے۔ افغانستان کی معیشت ابھی بہتر نہیں ہوئی ہے مگر ماہرین بتاتے ہیں کہ افعانستان کی معیشت مثبت راہوں پر گامزن ہے۔ ناتجربہ کاری، سیاسی سفارت کاری سے عدم واقفیت اور دنیا کی عدم قبولیت کے باوجود افغانستان تجارتی روابط تیزی سے وسیع کرنے میں کامیابی حاصل کر رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ کو بہتر بنانے کی طرف توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ کچے مال کی برآمدات کو بڑھا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چار دہائیوں سے جنگ کا شکار اور تباہ و برباد ہونے کے باوجود افعانستان کی کرنسی بھارت کی کرنسی کے برابر ہوگئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے نمائندہ تجارتی اور اقتصادی فورم ’برکس‘ میں چھ نئے ملکوں کو تنظیم کا رکن بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان ملکوں میں مسلم دنیا کے اہم مرکز سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات، ایران، مصر اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لاطینی امریکہ سے ارجنٹینا بھی شامل ہے۔ ان 6 ملکوں کی شمولیت کے بعد اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ برکس ابھرتی ہوئی معیشتوں کا ایک طاقتور بلاک بن کر ابھرے گا۔ ان 6 ممالک کی شمولیت کے بعد اس فورم میں جہاں جوہری طاقت کے حامل تین ملک ہیں وہیں دنیا کی تیل کی نصف ضروریات پوری کرنے والے ممالک بھی شامل ہیں۔ اسی وجہ سے ماہرین بتاتے ہیں برکس کی یہ نئی شکل نہ صرف جی-7 بلکہ جی -20 ممالک کی افادیت پر بھی سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں فورموں میں امریکہ اور مغربی دنیا کا دبدبہ ہے جب کہ برکس میں نہ صرف مغربی دنیا کے ممالک شامل نہیں ہیں بلکہ یہاں پر کسی بھی ملک کا دبدبہ نہیں ہے۔ برکس ممالک کے اگلے اقدامات سے متعلق یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ یہ ممالک اگلے مرحلے پر اپنی معیشتوں پر ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرانے کے لیے میسر امکانات پر غور کر سکتے ہیں۔ اگر یہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے نہ صرف امریکہ کی چودھراہٹ ختم ہوگی بلکہ ڈالر کو بطور ہتھیار استعمال کرکے مائکرو اکنامک ایڈجسٹمنٹ منصوبے اور ’گرین ٹزانزیشن رولز‘ کے ذریعہ ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے کی روش پر بھی لگام لگے گی۔
ان حالات میں کئی سوالات ہیں کہ بدلتی ہوئی اس دنیا کی شکل و صورت کیا ہوگی؟ اس نئے ورلڈ آرڈر میں دنیا پر کس کا دبدبہ رہے گا۔ کیا مغرب کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی؟ ان سوالات سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف جہاں بیشتر مسلم ممالک سیاسی عدم استحکام اور اندرونی خلفشار سے دوچار ہیں وہیں ایران اور ترکیہ جیسے ممالک کے دفاعی ساز و سامان کی مارکیٹ میں اہم کھلاری بننے کی کوششوں کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ کیا ایران پر امریکہ کی پابندیاں بے معنی ثابت ہوتی جا رہی ہیں؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران ڈرون سازی میں کیسے کامیاب ہوگیا؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایران اور ترکیہ کی جدید ٹکنالوجی اور علمی بلندی سے ترقی یافتہ عرب ممالک کو یہ ادراک ہو گیا ہے کہ اس بدلتی ہوئی دنیا میں وہی ممالک زیادہ دنوں عزت و وقار کے ساتھ اپنا دبدبہ بنائے رکھ سکتے ہیں جو علمی بلندیوں پر فائز ہوں۔ کیا یہ عرب ممالک اپنی علمی کم مائیگی کے خاتمے کی طرف توجہ دیں گے۔ اس سوال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ’’براہیمی معاہدہ‘‘ کے بعد جارحانہ تیور اپنانے والے سعودی عرب کے رخ میں تبدیلی کیوں آئی اور صلح کل کی جو پالیسی اپنائی ہے آیا وہ دیرپا ثابت ہوگی؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کی سرپرستی ایران اور سعودی عرب کی دوستی سے گلوبل ویسٹ اس قدر برہم کیوں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے حتمی جوابات فی الوقت نہیں دیے جاسکتے تاہم منظر نامہ صاف ہوتا جا رہا ہے کہ ایک نیا عالمی نظام تشکیل پا رہا ہے اور اس نظام میں امریکہ اور گلوبل ویسٹ کا کردار محدود ہونے کا قوی امکان ہے۔
کیا مسلم ممالک دفاعی ساز و سامان میں خود کفیل ہورہے ہیں؟
ایک عام تصور قائم ہوگیا تھا مسلم ممالک ترقی یافتہ ممالک کے لیے اس لیے اہم ہیں کہ وہ بڑے کنزیومر ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو اپنا سازو سامان فروخت کرنا ہے اس لیے مسلم ممالک ان کی خارجہ پالیسیوں کا اہم جزو ہیں۔ دوسرے یہ کہ کئی مسلم ممالک معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ایران، ترکیہ اور متحدہ عرب امارت کی حالیہ پیش رفت نے اس تصور کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ مسلم وہ صرف صارف نہیں بلکہ ان میں پیداواری صلاحیت بھی ہے۔ ایران گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکی پابندیوں کا شکار ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے وہ دنیا بھر سے آزادانہ طریقے سے کاروبار نہیں کرسکتا ہے جبکہ اس کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر ہیں اور معدینات اور اہم جغرافی محل وقوع کی وجہ سے وہ دنیا کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے، مگر وہ امریکہ کے سامنے جھکنے اور اس پر انحصار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے اس پر پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔ ان پابندیوں کے باوجود ایران اگر دفاعی ساز و سامان میں خود کفیل اور جدید ٹکنالوجی سے لیس ڈرون ہتھیار دنیا کو فراہم کرنے کے قابل بنا ہے تو یقیناً یہ ایران کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ خطے میں اسرائیل کی فوجی طاقت کے مقابلے میں ایک توازن قائم ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ترکیہ کی عوام جفاکش ہیں۔ معاشی اتار چڑھاو اور مغرب پرستی سے ترکیہ نے کئی سبق سیکھے ہیں، علمی اعتبار سے عزت و وقار حاصل کیا ہے تو خود انحصاری کی طرف بھی اس نے قدم بڑھائے ہیں۔ جولائی کے دوسرے نصف میں طیب اردوغان سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے دورے کے دوران اپنے میزبان ممالک کے سربراہان کو الیکٹرانکس کار کو تحفہ میں پیش کرکے ترکیہ کی معاشی خود انحصاری کا پیغام دے رہے تھے۔ ماضی میں ملائشیا معاشی طور پر خود کفیل بن کر یہ ثابت کر چکا ہے کہ کسی بھی بلاک کا حصہ بنے بغیر اگر معاشی استحکام حاصل کیا جاتا ہے تو عالمی نظام میں خود کو اہم بنائے رکھا جا سکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران اور ترکیہ ہتھیاروں کے سوداگروں کے کھیل سے واقف ہوچکے ہیں چنانچہ اپنے تعلقات کو بگاڑے بغیر ترکیہ جہاں یوکرینی فوج کو ٹی بی-2 ڈرون فراہم کر رہا ہے وہیں ایران کے ڈرون روس کے کام آرہے ہی۔ مغربی میڈیا کے مطابق روس نے ایرانی ساختہ بغیر پائلٹ والی ہوائی گاڑیوں (UAVs) کا آرڈر دے رکھا ہے۔ایرانی ڈرونز کئی خصوصیات رکھتے ہیں۔جہاں وہ جدید ٹکنالوجی سے لیس ہیں وہیں ان کی قیمت بھی کم ہے۔ ایرانی ڈرون ’’شہید -186‘‘ 80 پاؤنڈ وزنی وار ہیڈ، راڈار کا پتہ لگاکر بچنے اور 1500میل تک کی رینج تک کام کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے جبکہ اس کی قیمت صرف بیس ہزار ڈالر ہے۔ اس کے برعکس، روس کے کلیبر کروز میزائل جو ماسکو نے جنگ میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے، ہر ایک کی لاگت ایک ملین ڈالر ہے۔ ترکی کے ٹی بی-2 ڈرونز کی قیمت جو یوکرین کی طرف سے استعمال کیے جاتے ہیں، فی یونٹ ایک سے دو ملین ڈالر ہے۔ امریکی ڈورن سوئچ بلیڈ ڈرون جس کی قیمت زیادہ بھی ہے وہ صرف پچیس میل کی حد میں کام کرتے ہیں۔ مغربی میڈیا یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ ایران کے ذریعہ فراہم کردہ ڈرون کی وجہ سے روس ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یہ عجب دوہرا معیار ہے کہ مغرب روس اور یوکرین جنگ کو ختم کرانے میں موثر کردار ادا کرنے کے بجائے یوکرین کو ہرطرح کی سہولیات فراہم کررہا ہے۔ بڑے پیمانے پر اسے ہتھیار دیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ایران کی طعن و تشنیع کی جا رہی ہے کہ وہ روس کو ڈرون کیوں فراہم کر رہا ہے، جبکہ روس کو ڈورن فراہم کرنے کا معاہدہ ایران اور روس کے درمیان جنگ شروع ہونے سے قبل ہی ہوگیا تھا۔
دس سال پہلے تک ترکی بنیادی طور پر امریکہ اور اسرائیل کے غیر ملکی ساختہ ڈرونز پر منحصر تھا۔ 2010 کی دہائی کے اوائل میں امریکی قانون سازوں کی طرف سے انقرہ کو ڈرون فروخت کرنے سے روکنے اور اسرائیل کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے تناظر میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان نے دفاعی ہتھیاروں کے لیے گھریلو صلاحیت کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا۔2010 میں اس نے پہلا ڈرون لانچ کیا مگر محض پندہ منٹوں کے بعد وہ کریش ہو گیا۔ 2015 میں TB2 ماڈل نے تمام خامیوں کو دور کرکے مسلسل 24 گھنٹوں تک پرواز کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ اس ڈورن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا انجن مقامی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ ترکیہ اور اس کے صدر اردوغان نے ڈرون ٹکنالوجی کے ذریعے اپنے جغرافی سیاسی اثر و رسوخ میں نہ صرف اضافہ کیا ہے بلکہ ڈرون کی کامیاب مارکیٹنگ بھی کی ہے۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ میں ترکیہ ساخت کا ڈرون نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح لیبیا اور ایتھوپیا میں بھی ترکی کے ڈرون نے بغاوت کو کچلنے میں کامیاب کردار ادا کیا ہے۔ ترکی میں ڈرون بنانے والی کمپنی بائیکر کو 105 ملین ڈالر کی اضافی فنڈنگ کی گئی ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ دفاعی ساز و سامان کی مارکیٹ میں ان دو ممالک کی آمد کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کیا یہ مسلم ممالک کے خود کفیل بننے کی طرف ایک بڑھتا ہوا قدم ہے؟ کیا ایران اور ترکیہ سے عرب ممالک سبق سیکھیں گے؟ سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ نئی دلی کے صدر ڈاکٹر عمیر انس ہفت روزہ دعوت سے کہتے ہیں کہ ترکیہ کے عوام انتہائی جفا کش اور خود دار ہیں۔ ترکیہ نے بہت پہلے سے ہی خود کفیل ہونے کی طرف قدم بڑھا دیا تھا۔تاہم ایران کی یہ پیش رفت خطے کے لیے کافی اہم ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ایران مکمل طور پر خود کفیل ہو جائے گا۔کیونکہ اس کو کامیابی کے لیے سنگ میل عبور کرنے ہیں۔ اس کے لیے انہیں اپنی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی کرنی ہو گی۔ شاید ایران نے اس کا ادراک کرلیا ہے اسی وجہ سے اس نے مشرق وسطی کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب سے سفارتی تعلقات بحال کر لیے ہیں اور اب اسے مضبوط کرنے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ اب تک امریکہ، روس، جرمنی، فرانس اور اسرائیل دنیا کو ہتھیار فراہم کر رہے تھے مگر اب اس مارکیٹ میں دو نئے ملکوں کی آمد کی وجہ سے صورت حال میں تبدیلی آنی لازمی ہے۔ عالمی نظام میں تبدیلی بھی لازمی ہے۔ جہاں تک سوال یہ ہے کہ ایران کا ڈرون مشرق وسطی کے عرب ممالک کے لیے خطرہ ہے، تو مغرب اس کو اسی طرح سے پیش کر رہا ہے اور ایران کے نام پر مشرق وسطی کے عرب ممالک کو خوف زدہ کر رہا ہے۔ ایران بخوبی جانتا ہے کہ پڑوسی ممالک سے تعلقات کو بگاڑ کر وہ اپنی معیشت کو بہتر نہیں بناسکتا ہے چنانچہ چین کی سر پرستی میں سعودی عرب اور ایرن دونوں نے مہینوں مذاکرات کے بعد سفارتی تعلقات کو بحال کر لیے ہیں۔ چین جانتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بگڑنے کی صورت میں اسی کو سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ اس وقت اس خطے میں تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور سعودی عرب اور ایران دونوں کو چین کی ضرورت ہے اور چین کی ان دونوں کی۔ چونکہ مغربی ممالک نے مشرق وسطی سے تیل کی خریداری میں کمی کر دی ہے اس لیے ان کی سیکیورٹی کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ جبکہ چین اس موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پائیدار ترقی اور معاشی خود انحصاری کے لیے خطے میں امن و امان لازمی ہے۔ اس کے لیے ایران کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ وہ یہ یقین دلائے کہ وہ کسی بھی پراکسی جنگ کا حصہ نہیں ہے۔ جہاں تک سوال عرب ممالک کی تعلیمی ترقی کا ہے تو تیل کی دولت اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تیل کے بدولت کے وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے سیاسی حالات میں تبدیلی اور بھارت
بھارت ایشیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاسی تبدیلیوں سے بھارت خود کو الگ نہیں رکھ سکتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ مشرق وسطی میں چین کے بڑھتے ہوئے قدم کا مقابلہ بھارت کیسے کرے گا۔ مشرق وسطی میں سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اسکالر واحد ہاشمی ہفت روزہ دعوت سے کہتے ہیں کہ بھارت نے کئی برسوں سے مشرق وسطی کے ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے اور اس کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ عرب ممالک نے بھی بھارت کی اس پیش قدمی کا گرم جوشی سے استقبال کیا ہے مگر اس خطے میں چین کی پیش قدمی نے بھارت کے لیے تشویش پیدا کردی ہے۔ ایسے میں رشتوں میں توازن برقرار رکھنا جہاں عرب ممالک کے لیے مشکل ہے وہیں بھارت کے لیے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اس صورت حال کے لیے بڑی حد تک بھارت کے داخلی سیاسی حالات ذمہ دار ہیں۔ آج دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں حقائق کو چھپانا ناممکن ہے۔ عرب میڈیا بالخصوص الجزیرہ اور سب سے زیادہ پڑھے جانے والے عربی اخبارات ’’الشرق الاوسط‘‘ میں بھارت کے مسلمانوں کے مسائل پر پہلے سے کہیں زیادہ رپورٹنگ ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے عرب ممالک کے عوام میں بھارت کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ عوام کی ناراضگی کو ان ممالک کے سربراہان زیادہ دنوں تک نظر انداز نہیں کر سکتے۔واحد ہاشمی کہتے ہیں کہ جولائی میں رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری محمد بن الکریم عیسی کے دورے سے متعلق اگرچہ مختلف قیاس آرائیاں کی گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ دورہ اپنے عوام کے جذبات کو فرو کرنے اور حکومت ہند کو باور کرانے کے لیے تھا کہ بھارت مسلمان اور اسلام کے معاملے میں دوہرے کردار کے ساتھ نہیں چل سکتا ہے۔ چنانچہ العیسی نے اپنی تقاریر میں بھارت کے مسلمانوں کو نصیحت کرنے بجائے بھارت کے تنوع میں اتحاد کی خوبیوں پر زیادہ زور دیا۔ دراصل وہ یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ تنوع کو برقرار رکھنا بھارت کے مفادات کے تحفط کے لیے ضروری ہے۔ اگر بھارت اپنی اس دیرینہ پالیسیوں سے انحراف کرتا ہے تو اس کا نقصان بھارت کو ہی ہو گا۔
مغربی میڈیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ برکس کی توسیع بھارت کے لیے چیلنج بن سکتی ہے۔ اب تک برکس میں بھارت کی اہم ملک کے طور پر شامل رہا ہے مگر اس توسیع میں جن ممالک کی شمولیت ہوئی ہے ان میں چین کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جن ممالک کی شمولیت ہوئی ہے ان سے بھارت کے تعلقات بہتر ہیں۔ برکس کی توسیع ہندوستانی مفادات کو آگے بڑھا سکتی ہے۔
کیا مشرق وسطیٰ کے ممالک خود انحصاری کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
واحد ہاشمی بھی اس رائے پر متفق ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں تعلقات کی تبدیلی اور خود انحصاری سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے تاہم اس حقیقت کا ادراک سبھوں نے کرلیا ہے کہ امریکہ اور گلوبل ویسٹ پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ یک قطبی خارجہ پالیسی کے بجائے ہمہ جہت تعلقات معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ تیل سے زیادہ انحصار ختم کرنے کے لیے دوسرے شعبوں میں بھی ترقی ضروری ہے۔ اسی وجہ سے عرب ممالک سیاحت کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارت اور قطر نے سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ متحدہ عرب امارت نے امریکی اجارہ داری پر مبنی قانون ’گرین ٹزانزیشن رولز‘ کی پروا نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی نظام سے ایران اور روس کو نکالنے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ امریکہ نے متحدہ عرب امارت سے دوستی اور بہتر تعلقات کے باوجود اس کی وجہ سے متحدہ عرب امارت کو گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا مگر امریکی حربے ناکام ہوچکے ہیں۔
مگر ابھی بہت ہی کام کرنے باقی ہیں۔ جہاں تک سوال علمی ترقی کا ہے اس معاملے میں عرب ممالک اب بھی کافی پیچھے ہیں۔ہاشمی کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک جو کچھ خوشحالی یا معدنیات ہیں وہ دعائے ابراہیمی کا نتیجہ ہے۔ چونکہ ترکیہ، ایران، ملائشیا اور انڈونیشا جیسے ممالک دعائے ابراہیمی میں شامل نہیں تھے اس لیے ان ممالک نے جی توڑ محنت کی اور ترقی حاصل کی ہے۔ عرب ممالک کی علمی پسپائی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان ممالک میں اپنا کوئی تعلیمی بورڈ نہیں ہے۔ امریکی تعلیمی بورڈ پر ان کا انحصار ہے۔ امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں اگرچہ عرب نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر ان کے سرٹیفکیٹ پر واضح لفظوں میں لکھا جاتا ہے کہ یہ سرٹیفکٹ صرف عرب ممالک کے لیے قابل قبول ہے۔چاس سرٹیفکیٹ کے ساتھ عرب نوجوان دنیا کے دیگر ممالک میں کام نہیں کرسکتے۔ عرب ممالک کو سب سے پہلے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی اسی وقت وہ خود کفیل ہو سکتے ہیں۔
’’براہیمی معاہدہ‘‘ کا مستقبل
ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر تعلقات، شامی صدر کا سعودی سر زمین پر استقبال اور قطر کے بائیکاٹ کا خاتمہ اور ترکیہ کے صدر طیب اردوغان کا خلیجی ممالک میں والہانہ استقبال کو دنیا اگرچہ بین الاقوامی سلامتی کی فتح قرار دے رہی ہے مگر مغربی دنیا میں اس کو لے کر بے چینیاں ہیں۔ اس کا اندازہ مشہور انگریزی جریدہ ’’فارن پالیسی‘‘ میں شائع ہونے والے تبصرے اور مضامین سے ہوتا ہے۔ فارن پالیسی میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ ریاض اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی دراصل ایک نئے مغرب مخالف عالمی نظام کے عروج اور امریکہ کو ایک نئے علاقائی انتظام سے باہر کرنے کی کوشش ہے۔ مضمون نگار نے اس معاہدہ کو تہذیبی بالا دستی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ روس کی قیادت میں ’’روسو سلاو تہذیب‘‘ اور چین کی قیادت میں ’’کنفیوشس کمیونسٹ تہذیب‘‘ مغربی تہذیب کے ساتھ جنگ کی حالت میں اور یہ مغربی تہذیب کو جڑ سے اکھاڑنے کی سہ طرفہ کوشش ہے۔ اس پیش رفت کو چند سال قبل امریکہ کی سرپرستی میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے براہمی معاہدہ کو ایک خطرہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے میگزین لکھتا ہے کہ ایران اپنے چھوٹے دشمن سعودی عرب کے ساتھ اپنی جنگ کو موخر کرکے اپنے بڑے دشمن امریکہ کو مشرق وسطیٰ سے نکال باہر کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ میگزین لکھتا ہے کہ اس حقیقت سے سعودی عرب واقف ہے۔ سعودی عرب اپنے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کے لیے ملک میں وسیع پیمانے پر سماجی اصلاحات پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ خطے میں امن کے لیے کوشاں ہے۔ میگزین اس خطے سے امریکی انخلا کا مخالف بھی ہے۔
فارن پالیسی کی یہ رائے کوئی نئی نہیں ہے۔ دوسروں کو امن کے قیام کے لیے خطرہ بتانے والا مغرب انسانیت کو کئی طویل جنگوں میں جھونک چکا ہے۔بین الاقوامی قوانین کا لبادہ تار تار کیا ہے۔ خود اندرون خانہ ایران سے معاہدہ کر رہا ہے۔ قیدیوں کے تبادلے پر رضا مندی ہو رہی ہے مگر جب خطے کے ممالک ایک دوسرے سے تعلقات بہتر کرتے ہیں تو اس کی نظر میں یہ خطرہ اور عالمی امن کے لیے نقص بن جاتا ہے۔ خود فریبی میں مبتلا مغرب یہ سمجھتا ہے کہ تہذیبی بالادستی صرف مغربی تہذیب کا حق ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے جس تہذیبی جنگ کا آغاز کیا تھا اس کی قیمت چکانے کے بعد دنیا حقائق سے واقف ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے اب ڈالر کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی ٹریژری بانڈز کو فروخت کر کے جلد سے جلد امریکی حصار سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیا مانیٹری سسٹم بھی تشکیل پا رہا ہے۔
***

 

***

 بھارت نے کئی برسوں سے مشرق وسطی کے ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے اور اس کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ عرب ممالک نے بھی بھارت کی اس پیش قدمی کا گرم جوشی سے استقبال کیا ہے مگر اس خطے میں چین کی پیش قدمی نے بھارت کے لیے تشویش پیدا کردی ہے۔ ایسے میں رشتوں میں توازن برقرار رکھنا جہاں عرب ممالک کے لیے مشکل ہے وہیں بھارت کے لیے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اس صورت حال کے لیے بڑی حد تک بھارت کے داخلی سیاسی حالات ذمہ دار ہیں۔ آج دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں حقائق کو چھپانا ناممکن ہے۔ عرب میڈیا بالخصوص الجزیرہ اور سب سے زیادہ پڑھے جانے والے عربی اخبارات ’’الشرق الاوسط‘‘ میں بھارت کے مسلمانوں کے مسائل پر پہلے سے کہیں زیادہ رپورٹنگ ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے عرب ممالک کے عوام میں بھارت کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ عوام کی ناراضگی کو ان ممالک کے سربراہان زیادہ دنوں تک نظر انداز نہیں کر سکتے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023