مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا

وقف قانون تفریق پر مبنی اور مذہبی آزادی کے منافی: ڈاکٹر قاسم رسول الیاس

نئی دلیّ: ( دعوت نیوز ڈیسک)

پارلیمنٹ سے منظور شدہ وقف قانون پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی عرضی عدالت عظمی میں داخل کردی گئی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے پریس کو بتایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے پٹیشن میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ ترمیمات پر سخت اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے من مانی اور امتیاز و تفریق پر مبنی قرار دیا۔ بورڈ نے کہا کہ یہ ترمیمات نہ صرف دستور ہند کے فراہم کردہ بنیادی حقوق دفعہ 25 اور 26 سے متصادم ہیں بلکہ ان ترمیمات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت مسلم اقلیت کو وقف کے انتظام و انصرام سے بے دخل کرکے اس کا سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔پٹیشن میں آگے کہا گیاکہ ملک کے دستور کی بنیادی حقوق کی دفعہ 25 اور 26 ملک کی ہر مذہبی اکائی کو ضمیر کی آزادی کے علاوہ اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی آزادی بھی فراہم کرتی ہے، مزید برآں مذہبی و فلاحی کاموں کے لئے ادارے قائم کرنے اور انہیں اپنے طور پر چلانے کا اختیار بھی دیتی ہیں۔ موجودہ منظور شدہ قانون میں مسلمانوں کو اپنے اس بنیادی حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں کے تشکیل کے تعلق سے کی گئیں ترمیمات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی طرح واقف پر 5 سال تک باعمل مسلمان ہونے کی تحدید نہ صرف ملکی قانوں اور دستور کی دفعہ 25 کے خلاف ہے بلکہ شریعت سے بھی متصادم ہے۔
ڈاکٹر الیاس نے مزید کہا کہ پٹیشن میں اس قانون کو امتیاز اور تفریق پر مبنی اور دستورکی دفعہ 25سے متصادم قرار دیا گیا۔ جو حقوق و تحفظات دیگر مذہبی اکائیوں، جیسے ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور بودھوں کے اوقاف کو حاصل ہیں ان سے مسلم اوقاف کو محروم کردیا گیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عدالت عظمی سے درخواست کی کہ دستوری حقوق کے محافظ ہونے کے ناطے وہ ان متنازعہ ترمیمات کی منسوخی کا فیصلہ دے کر دستور کی عظمت کو بحال کرے اور مسلم اقلیت کے حقوق کو پامال ہونے سے روکے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے اس پٹیشن کو مرتب کیا اور بورڈ کی جانب سے اس کیس کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایڈوکیٹ طلحہ عبدالرحمن ہیں۔ بورڈ کی جانب سے یہ پٹیشن جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی کی جانب سے دائر کی گئی۔
قبل ازیں بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ وقف ترمیمی بل 2025 کا منظور ہو جانا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے سیاہ باب اور کلنک ہے۔ برسر اقتدار طبقہ طاقت کے نشے میں مدہوش ہوکر آگے بڑھ رہا ہے اور اپنی غلطیوں وخامیوں کو چھپانے کے لیے ملک میں منافرت کا ماحول قائم کر رہا ہے جس کا ایک حصہ وقف ترمیمی بل 2025 بھی ہے، جسے مسلمانوں کی ہمدردی کے نام پر لایا گیا قانون یے جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے اور وقف جائیدادوں کے لیے تباہ کن بھی۔ افسوس کی بات ہے کہ حکومت وقت نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر ملی تنظیموں کے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی، اسی طرح اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ اور سِول سوسائٹی کی بات بھی نہیں سنی، ایک جمہوری ملک میں یہ آمرانہ رویہ نا قابلِ قبول ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس پر ہرگز خاموش نہیں بیٹھے گا بلکہ ملک گیر احتجاج کی راہ ہموار کرے گا اور بھرپور تیاری کے ساتھ قانونی کارروائی بھی کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا ’’ہم نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کے انصاف پسند شہریوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ بورڈ کے اعلان کا انتظار کریں اور جب احتجاج کے لیے آواز دی جائے پوری طاقت کے ساتھ اس میں شامل ہوں تاکہ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور اس قانون کی واپسی کا دروازہ کھل سکے۔ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وقف ترمیمی بل 2025 اپنے مشمولات کے اعتبار سے نہایت نقصان دہ اور تباہ کن ہے اس کی وجہ سے بہت سی دشواریاں اور مسائل کھڑے ہو جائیں گے اس لیے بہر صورت اسے حکومت کو واپس لینا چاہیے۔لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل 2025 کے پیش ہونے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ نے جس بیدار مغزی، تیاری اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اس بل کی مخالفت کی اور مسلمانوں کے موقف کو واضح کیا وہ خوش آئند بات ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ وقف ترمیمی بل 2025 کی مخالفت کرنے والی تمام اپوزیشن پارٹیوں ان کے سربراہوں اور ارکان پارلیمنٹ کا شکر گزار ہے اور ان کے عمل و اقدام کی تحسین کرتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ وہ آئندہ بھی وقف ترمیمی بل 2025 کو روکنے کے سلسلے میں کی جانے والی تمام کوششوں میں شانہ بشانہ شریک ہوں گے۔ اسی طرح بی جے پی کی حلیف پارٹیوں اور ان کے سربراہوں، خاص طور پر نتیش کمار، چندرابابو نائیڈو،چراغ پاسوان اور جینت چودھری نے اس سلسلے میں جو کردار نبھایا ہے اور جس طرح مسلمانوں کو چھوڑ کرحکومت وقت کا ساتھ دیا ہے وہ نہایت درجہ تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔وقف ترمیمی بل 2025کے سلسلے میں ان کے رخ اور رویے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ مسلمانوں نے ان کی سیکولر شبیہ کی وجہ سے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے لیکن ان لوگوں نے جس طرح مسلمانوں کو دھوکہ دیا اسے کبھی بھلایا نہیں جائے گا اور ہر حال میں انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ ان پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لیے بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ اس بے وفائی کے بعد ان کا رد عمل کیا ہونا چاہیے اور بہ حیثیت مسلمان انہیں کیا راستہ اپنانا چاہیے۔ ملت کو چھوڑ کر سیاسی مفادات کی پاسداری کرنا گھناؤنا عمل ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کیا ہے کہ بورڈ کسی بھی دباؤ دھمکی یا غلط رویے اور طرز عمل کی وجہ سے اپنے مطالبات سے دست بردار نہیں ہوگا۔ وقف ترمیمی بل 2025 کے سلسلے میں جب اور جس طرح کی قربانی درکار ہوگی پیش کی جائے گی اور اس لڑائی میں بورڈ تنہا نہیں ہوگا بلکہ پوری ملت اسلامیہ ہند اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025