مسلم مطلقہ کے نفقہ سے متعلق عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ شریعت سے راست متصادم

یونیفارم سیول کوڈ،اوقاف کی اراضی پر قبضہ اور شریعت میں دخل اندازی ناقابل قبول

نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)

مساجد پر حملے اور ہجومی تشدد جمہوریت کے لیے نقصان دہ ۔حکومت سنجیدگی سے کام لے
مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں بھارت کا جو قدیم موقف ہے حکومت اس کو نظر انداز نہ کرے
مسلمان عائلی مسائل میں دارالقضا سے رجوع ہوں ۔اتحاد ملت کو برقرار رکھا جائے
پچھلے دنوں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مجلس عاملہ کا تجاویز اجلاس مسجدجھیل پیاؤ، بہادر شاہ ظفر مارگ،نئی دلی میں منعقد ہوا۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر بورڈ نے اجلاس کی صدارت کی اور بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کارروائی چلائی۔ بورڈ کے نائب صدور مولاناسید ارشد مدنی، جناب سید سعادت اللہ حسینی، پروفیسر ڈاکٹر سید علی محمد نقوی اور بورڈ کے سکریٹریز مولانا احمد ولی فیصل رحمانی ( بہار) اورمولانا محمد یسین علی عثمانی ( بدایوں )بورڈ کے خازن پروفیسرمحمد ریاض عمر کے علاوہ صدر جمعیت علماء ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، سینئر ایڈووکیٹ جناب یوسف حاتم مچھالہ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ترجمان بورڈ (دہلی) مولانا عتیق احمد بستوی، ممبر پارلیمنٹ جناب اسدالدین اویسی، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد، ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی (ممبئی) محترمہ عطیہ صدیقہ، پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، محترمہ نکہت پروین خان اور ملک بھر سے کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، جنرل سکریٹری بورڈ،مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، سکریٹری،مولانا ڈاکٹر یاسین علی عثمانی، سکریٹری،ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس، ترجمان،پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، ممبر ورکنگ کمیٹی نے خصوصی خطاب بھی کیا ۔اس اجلاس میں جو تجاویز منظور کی گئیں وہ درج ذیل ہیں :
1۔ بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ مسلم مطلقہ کے نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ قانون شریعت سے راست متصادم ہے ۔ مسلم پرسنل لابورڈ اس بات کا اعادہ کر نا ضروری سمجھتا ہے کہ نبی رحمت حضرت محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق ’’اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘ لہٰذا حتی الامکان ازدواجی زندگی کو بنائے رکھنے کے لیے قرآن میں تاکید کی گئی ہے۔ طلاق سے پہلے معاملات کو درست رکھنے سے متعلق بھی قرآن مجید میں ہدایات موجود ہیں۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود ساتھ رہنا دشوار ہوجائے تواحسن طریقہ سے جدائی ہی ایک معقول اور قابل عمل راستہ رہ جاتا ہے۔ عاملہ کا احساس ہے کہ اگر رشتےسے نکلنے کو مشکل اور نا قابل عمل بنا دیا جائے تووہ خواتین کے لیے ہی مسائل پیدا کرے گا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ خواتین کے مفاد میں ہے۔ عاملہ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتی ہے یہ فیصلہ نہ خواتین کے لیے مفید ہے اور نہ ہی قابل عمل بلکہ اس سے اندیشہ ہے کہ ان کی زندگی مزید بدتر ہو جائے گی۔ ویسے بھی انسانی عقل میں یہ بات نہیں آسکتی کہ جب رشتہ ہی باقی نہ رہے تو مرد پر مطلقہ کی کفالت کی ذمہ داری کیسے آسکتی ہے؟ مجلس عاملہ صدر بورڈ کو مجاز کرتی ہے کہ وہ اس کے تدارک کے لیے جتنے قانونی اور جمہوری ذرائع موجود ہوں ان کو استعمال کر تے ہوئے اسے بدلوانے کی کوشش کریں۔ ہندوستان میں جس طرح ہندوؤں کو اپنے پرسنل لا ( ہندو کوڈ لاء) کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے اسی طرح مسلمانوں کے لیے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 موجود ہے۔ملک کے دستور نے بھی تمام مذہبی اکائیوں کو اپنے مذہب کے مطابق آرٹیکل 25 کے تحت زندگی گزارنے کا بنیادی حق فراہم کیا ہے۔
2۔ مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لیے یونیفارم سیول کوڈ بالکل موزوں اور مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کی روح کے بھی منافی ہیں۔ اقلیتوں کو دستور میں جوضمانتیں دی گئی ہیں، یونیفارم سیول کوڈ اس کو ختم کر کے رکھ دے گا؛ اس لیے نہ مرکزی حکومت کو نہ کسی ریاستی حکومت کو یونیفارم سیول کوڈ کو نافذکر نے کی بات کرنی چاہیے۔ یہ مسلمانوں کے لیے نا قابل قبول ہوگا۔
یہ اجلاس اتراکھنڈ اسمبلی سے منظور یونیفارم سول کوڈ کو غلط، غیر ضروری اور دستور ہند میں دی گئی ضمانتوں کے خلاف سمجھتا ہے۔ اتراکھنڈ یو سی سی میں لیون ریلیشن شپ کو بھی جائز قرار دیا گیاہے جو نہ صرف اخلاقاًبلکہ مذہباً بھی غلط ہے۔ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا ۔ بورڈ کی لیگل کمیٹی اس کی تیاری کر رہی ہے۔
3-اوقاف دینی اور خیراتی مقاصد کے لیے مسلمانوں کے دیے ہوئے مقدس اثاثے ہیں اور مسلمان ہی اس کے متولی و منتظم ہوتے ہیں اور وہی اس سے استفادہ کے مستحق بھی ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی اراضی حکومت کے استعمال میں ہے اس لیے اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بازار کی شرح ( مارکیٹ ریٹ) کے لحاظ سے ان املاک کا کرایہ ادا کرے اور منشاء وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کرے تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں کی محفوظ کی ہوئی اس دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، مسلمان خود بھی اس کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ذات پر استعمال نہیں کر سکتے، بلکہ اس کو مقررہ مصرف میں ہی استعمال کر نا واجب ہے۔ یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ملکی قانون بھی اس کو تسلیم کرتا ہے۔چنانچہ آزادی کے پہلے ہی وقف کا قانون بنا، مختلف مواقع پر اس میں ترمیمات ہوتی رہیں، یہاں تک کہ 2013 میں قانون نے آخری شکل اختیار کی۔ یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وقف کے اس قانون پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے اور وقف بورڈ کو اپنی املاک کے حصول کے لیے عدالتی اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ وقف کی املاک پر ناجائز قبضوں کو ہٹا سکیں۔ نیز یہ اجلاس قانون وقف کو منسوخ کر نے کےہر اقدام کی سختی سے مذمت کر تا ہے۔
یہ اجلاس اوقاف کے متولیوں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خود بھی اوقافی جائیدادوں کے استعمال سے بچیں، دوسروں سے بھی ان کو بچائیں اور وقف کی املاک کے سلسلہ میں خاص طور پر اللہ سے ڈریں کیونکہ وقف کی جائیداد پر ناجائز قبضہ اوروقف کرنے والے کی منشاء کے خلاف ذاتی مفاد کے لیے اس کا استعمال بدترین خیانت اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب ہے۔ یہ اجلاس یہ بھی واضح کر نا ضروری سمجھتا ہے کہ ہمارے ملک میں تمام مذہبی اکائیوں کے endowment کو قانون کا تحفظ حاصل ہے، یہ رعایت صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ہے۔
4۔ مجلس عاملہ کا یہ اجلاس وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عید گاہ کے تعلق سے نچلی عدالتوں میں پیدا کیے گئے نئے تنازعات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اجلاس کا احساس ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے قانون کے ذریعہ ملک کی مقننہ نے ہر نئے تنازعہ کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ اس اجلاس کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سپریم کورٹ، جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے، اگر ان چور دروازوں کو بند نہیں کیا گیا تو پھر اس بات کا اندیشہ ہے کہ شر پسند قوتیں ملک کے مختلف علاقوں میں نئے نئے فتنے اور تنازعات کھڑے کرتی رہیں گی۔ متھرا کی عید گاہ سے متعلق1968 میں کرشنا جنم بھومی ٹرسٹ اور شاہی عید گاہ ٹرسٹ کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعہ اس تنازعہ کو حل کر لیا گیا تھا- مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت عظمیٰ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ ان نئے فتنوں کا دروازہ بند کر کے ملک میں امن و امان اور قانون کی حکم رانی کو یقینی بنائے گا۔
اسی طرح دہلی کی سنہری مسجد کے تعلق سے این ڈی ایم سی نے ٹریفک کا بہانہ بناکر اس کی شہادت کا جو ناپاک منصوبہ بنایا تھا، سردست عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے؛ تاہم اجلاس کا احساس ہے کہ سنہری مسجد اور لنٹن زون میں دیگر 6 مساجد شر پسندوں کے نشانے پر ہیں، بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ یہ تمام مساجد اوقاف کی ان 123 جائیدادوں میں شامل ہیں، جن پر عدالت نے اسٹے لگا رکھا ہے- اسی طرح سنہری مسجد اور دیگر مساجد ہیریٹیج تعمیرات میں بھی شامل ہیں، لہذا ان سے چھیڑ چھاڑ ملک کی تاریخی وراثت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہو گی۔
5- مجلس عاملہ کو اس پر شدید تشویش ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے- پارلیمانی انتخاب کے نتائج نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ملک کے عوام نے نفرت و بغض و عناد پر مبنی ایجنڈے پر اپنی شدید ناراضگی کا برملا اظہار کیا ہے اور یہ توقع ہوئی تھی کہ شاید یہ ہیجانی دور اب ختم ہوجائے گا- عاملہ سمجھتی ہے کہ اگر ملک میں قانون کی بالادستی کے ساتھ اسی طرح کھلواڑ ہوتا رہا تو ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول بن جائے گا، اور لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر پولیس اور انتظامیہ سے بے نیاز ہوجائیں گے۔ بورڈ مرکزی و ریاستی حکومتوں، پولیس و سیکورٹی ایجنسیوں سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ اس فتنہ سے سختی سے نمٹیں اور ملک میں قانون کی حکم رانی کو یقینی بنائیں- مجلس عاملہ کو اس بات پر بھی شدید تشویش ہے کہ حزب اختلاف نے اس اہم اور انسانی مسئلہ کی سرکوبی کو اب تک اپنی توجہ کا مرکز نہیں بنایا ہے۔
6- بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلاوطن کر نے پر تلی ہوئی ہے۔ اس نے جبروظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس جنگ کی ابتداء 7 اکتوبر 2023 سے نہیں، بلکہ جون1967 سے ہو ئی ہے، جب اسرائیل کسی قانونی جواز کے بغیر پورے فلسطین، مغربی کنارہ، غزہ اور مسلمانوں کی مقدس مسجد ’مسجد اقصیٰ‘ پر بھی قابض ہو گیا تھا۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بارہا فیصلہ کر چکی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے، مگر امریکہ اور برطانیہ جیسی استعاری طاقتوں کی شہ پر اسرائیل نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا۔ یہ اجلاس اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں کی سخت مذمت کر تا ہے، ان مسلم ملکوں کی بھی جنہوں نے فلسطینیوں کو بچانے کے لیے مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا اور حد درجہ بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے ظلم پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ گاندھی جی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی اور بعد کی حکومتوں میں بھی ہمیشہ ہندوستان نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔ حکومت ہند کو اپنے اسی دیرینہ موقف پر قائم رہنا چاہیے، کیونکہ فلسطینیوں کی لڑائی اپنے ملک کی آزادی کی لڑائی ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کی؟ اور اپنے آپ پر ظلم کو روکنے کی جدوجہد ہے نہ کہ دوسروں پر ظلم کے لیے کوئی اقدام ہے؟ یہ اجلاس غزہ کے مرد و خواتین، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کے عزم و استقلال، پامردی و شجاعت اور صبر واستقامت کے جذبوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ اجلاس دنیا کے بیشتر ملکوں اور خود ہمارے ملک میں عام انسانوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے مظلومین کی حمایت میں جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ پیش کیا ہے، ان کی ستائش کرتا ہے۔ یہ اجلاس عالم اسلام سے بھی یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں جرأت کا مظاہرہ کرے اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرے، کیوں کہ وہ حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور حق کا ساتھ انسانی فریضہ اور اسلامی فریضہ بھی ہے۔
7۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو خیر امت بنایا ہے اور ان کو دنیا میں انصاف قائم کر نے کے لیے بھیجا ہے، لیکن افسوس کہ خود مسلم معاشرہ طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہے اور مختلف طبقات کے ساتھ خاص کر بوڑھے والدین اور خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے کثرت سے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ خاص کر نکاح کو مشکل بنا دینے کی وجہ سے سماج میں طرح طرح کی برائیاں پنپ رہی ہیں۔ اس لیے یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نکاح جیسی مقدس تقریب کو آسان بنائیں، سنت کے مطابق نکاح کی تقریب رکھیں، لڑکی والوں سے کسی بھی قسم کا مالی مطالبہ نہ کریں، کیونکہ یہ شریعت میں ناجائز اور حرام ہے۔ یہ اجلاس ملک کے تمام باشندوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ جہیز اور بے جا رسوم رواج کو معاشرہ سے ختم کر کے ایک مثالی معاشرہ بنائیں۔
8۔ یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے مطالبہ کر تا ہے کہ وہ عائلی اور سماجی معاملات میں احکام شریعت کے پابند رہیں، شوہر و بیوی اور رشتہ داروں کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو جائے تو دارالقضاء سے ہی رجوع کریں، اور قرآن و حدیث اور اسلامی شریعت کے مطابق کوئی فیصلہ ہو تو اسے خوش دلی سے قبول کرتے ہو ئے اس پر عمل پیرا ہوں۔ اسی میں آخرت کی کامیابی اور دنیا کی بھلائی بھی ہے۔امید ہے کہ دارلقضاء کے ذریعہ کم وقت اور کم خرچ میں انصاف حاصل ہو سکے گا۔علماءاور ائمہ مساجد سے بھی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بورڈ کے نکاح نامہ کو زیادہ سے زیادہ عام کر نے پر توجہ دیں۔
9۔ یہ اجلاس مسلم خواتین سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ معاشرہ کی اصلاح میں اہم رول اداکریں، خاص کر طلاق کے واقعات کو کم کرنے، بیٹے اور بہو کے درمیان تعلقات کو خوشگور بنانے، غیر شرعی رسوم رواج کو روکنے، بیٹوں کو حق میراث دلانے اور نئی نسل کی دینی تربیت کرنے میں۔کیونکہ خواتین کی وجہ سے ہی سماج اور خاندان کی اصلاح میں ایک بہترین انقلاب آسکتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024