مسلم قوم کی قابل فخر بیٹی نگار شاجی

بھارت کا پہلا شمسی مشن مسلم خاتون کی سربراہی میں کامیابی سے ہمکنار

ابن ایاز فائؔز شاہ پوری

ملک کی ترقی میں مسلمانوں کا بے مثال کردار تھا ،ہے اور رہے گا
ہمارا ملک جہاں دیگر شعبہ جات میں ترقیوں کی راہ پر گامزن ہے وہیں خلائی تحقیقات میں بھی اب کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہیں ہے۔ بھارتی خلائی تحقیقی ادرہ ISRO جس تندہی اور برق رفتاری سے بھارت کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں مصروف عمل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ISRO کی فعالیت اور یکسوئی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی چندریان-3 کو لانچ ہوئے ہفتہ عشرہ بھی نہیں گزرا کہ اس نے سورج کو تسخیر کرنے کی جانب ایک قدم بڑھاتے ہوئے آدتیہ-ایل ون، سری ہری کوٹہ میں واقع ستیش دھون خلائی مرکز سے سورج کے مطالعے کے لیے لانچ کر دیا ہے۔ اس خلائی جہاز کو انتہائی قابل اعتماد راکٹ سسٹم پولار سیٹلائٹ لانچ وہیکل (پی ایس ایل سی سی 57) کا استعمال کرتے ہوئے روانہ کیا گیا۔ یہ راکٹ چوالیس اعشاریہ چار میٹر لمبا ہے۔ ماہرین کے مطابق تقریباً چار مہینے کے عرصے میں آدتیہ ایل ون، Lagrange ون پوائنٹ پر پہنچے گا اور یہ وہاں شمسی ہواؤں اور سورج کے ماحول کا مطالعہ کرے گا۔ یہ سات Payloads بھی ساتھ لے کر گیا ہے جو وہاں مختلف مشاہدوں کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ آدتیہ ایل ون کو زمین سے لگ بھگ 15 لاکھ کلومیٹر دور مدار میں اس جگہ رکھا جائے گا جہاں سورج کی شعائیں سب سے زیادہ پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ سورج کے ارد گرد گولائی میں پیدا ہونے والی گرمی سے متعلق مسائل کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔اب تک دنیا میں صرف چار خلائی مرکز اس قسم کے مشاہدے کی کوشش کر چکے ہیں۔
ملک کو ترقیوں کے بام عروج پر لے جانے میں جہاں دیگر افراد کا رول رہا ہے وہیں مسلمانوں کا بھی اہم کردار رہا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ابھی چند دنوں پہلے چاند کے جنوبی قطب پر جو چندریان-3 کا کامیاب مشن انجام دیا گیا تھا اس میں بھی ایک اچھی خاصی تعداد مسلم سائنسدانوں کی تھی جس کا تذکرہ ہفت روزہ دعوت کے گزشتے شمارے میں تفصیل کے ساتھ کیا چکا ہے۔ اور اب جو سورج کی جانب شمسی مشن روانہ کیا گیا ہے اس میں بھی ایک مسلم خاتون کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ اس خاتون سائنس داں کا نام نگار شاجی ہے۔ ان کی صلاحیتوں اور اس مشن کے لیے انتھک محنتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں ان کی قابلیت کی بنیاد پر ہی بھارت کے پہلے شمسی پروجیکٹ کا ڈائریکٹر بنایا گیا ہے۔ انہی کی سربراہی میں آدتیہ ایل ون شمسی مشن کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
59 سالہ نگار شاجی کا تعلق ریاست تمل ناڈو کے سینگوٹائی قصبے سے ہے۔ وہ ایک کسان شیخ میراں کے گھر پیدا ہوئیں۔ والدہ کا نام زیتون بی ہے جو ایک گھریلو خاتون ہیں۔ مالی اعتبار سے زیادہ مستحکم نہ ہونے کے باوجود شاجی نے ابتدائی عمر سے ہی بلند مقاصد کے جذبے کے ساتھ حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے اپنی اسکولی تعلیم سینگوٹائی گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول سے انگریزی میڈیم میں مکمل کی جہاں انہوں نے دسویں جماعت میں پورے ضلع میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور 12ویں جماعت میں اسکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے الیکٹرانکس اور کمیونیکیشنز میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور برلا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، رانچی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکیشن میں ایم ٹیک مکمل کیا اور 1987ء میں ISRO میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد وہ بنگلورو میں سکونت پذیر ہوئیں۔
شاجی خود نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ان کے شوہر بھی ایک انجینئر ہیں اور دبئی میں برسر روزگار ہیں۔ ان کا بیٹا ہالینڈ میں بطور سائنس داں خدمات انجام دے رہا ہے۔ وہ پی ایچ ڈی مکمل کرچکا ہے۔ ان کی بیٹی بھی میدان طب میں مہارت رکھتی ہیں اور ابھی مزید اعلی تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں یعنی ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔
نگار شاجی کا خلائی تحقیق کی دنیا میں سفر 1987ء میں اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے ستیش دھون اسپیس سنٹر میں شمولیت اختیار کی، جو انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کی ایک ممتاز شاخ ہے۔ ان کی لگن اور مہارت نے انہیں بنگلورو میں یو آر راؤ سیٹلائٹ سنٹر پہنچایا جہاں انہوں نے آدتیہ ایل ون پروجیکٹ میں ڈائریکٹر کا اہم عہدہ سنبھالنے سے پہلے کئی ذمہ داریاں ادا کیں۔ آدتیہ ایل ون مشن میں اپنی شمولیت سے پہلے نگار شاجی نے بھارتی ریموٹ سینسنگ، کمیونیکیشن اور مصنوعی سیاروں کے ڈیزائن اور ترقی میں کئی اہم کام انجام دیے۔ خاص طور پر انہوں نے بھارتی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ریسورس سیٹ-2A کے لیے ایسوسی ایٹ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں جو قومی وسائل کی نگرانی اور انتظام کے لیے ایک اہم اثاثہ ہے۔
اس میدان میں ان کے کاموں میں امیج کمپریشن، سسٹم انجینئرنگ اور اسپیس انٹرنیٹ ٹیکنالوجیز پر تحقیق شامل تھی۔ نگار شاجی کی آدتیہ-ایل ون پروجیکٹ کی قیادت ان کے شاندار کریئر میں ایک اہم کامیابی سمجھی جائے گی۔
جب مقامی میڈیا کی جانب سے چیلنجز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیلنجز ہر موڑ پر موجود ہیں لیکن وہ ناقابل شکست نظر نہیں آتے۔ یہ شمسی مشن بھی انہیں آج سے آٹھ سال قبل دیا گیا تھا۔ اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’’میں آٹھ سالوں سے اس پیچیدہ پروجیکٹ کی سربراہی کر رہی ہوں۔ یہ ایک چیلنجنگ پروجیکٹ تھا۔ خلائی جہاز کو ہالو آربٹ میں رکھنا خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ مزید پے لوڈز بھی اپنی نوعیت کے پہلے تھے۔ مگر پھر بھی مشن کامیاب رہا۔‘‘
انہوں نے خواتین کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسرو میں خواتین کے لیے سازگار ماحول میسر ہے جہاں کسی بھی شخص کی پہچان اس کی صنف کے بجائے اس کی اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ نگار شاجی کے یہ الفاظ خواتین کو مستقبل پر یقین رکھنے اور اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا کہانی ایک ایسی خاتون کی ہے جو ایک مسلمان ہیں، انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر بھارت کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالیں تو سرسری جائزے سے ہی کئی ایسی مسلم خواتین صف اول میں نظر آئیں گی ہیں جنہوں نے اپنا خون دے کر اس ملک کی حفاظت کی اور اس کی آزادی اور ترقی میں اپنا حصہ ادا کیا۔ اس کے علاوہ مسلم شخصیات اور محبین وطن کی بھی ایک طویل فہرست موجود ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں بھی اس ملک کی ترقی اور حفاظت کا فریضہ مسلم قوم انجام دیتی آئی ہے اور حالیہ برسوں میں بھی کئی خدمات منظر عام پر آئیں اور مستقبل میں بھی مسلمان ہی ہمیشہ صف اول میں نظر آئیں گے۔
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
لیکن آج ملک میں ایسا ماحول بنانے کی سازشیں رچی جا رہی ہیں جس میں مسلمانوں کے شام و سحر تاریک کر دیے جائیں اور یہ زمین اپنی وسعت و کشادگیوں کے باوجود ان پر تنگ ہو جائے، لیکن دیر سے ہی سہی ظلمت کی تاریکیاں چھٹیں گی اور حق ببانگ دہل ظاہر ہو کر رہے گا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023