
نئی دلّی: (دعوت نیوز ڈیسک)
شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند کی قومی آن لائن کانفرنس میں ممتاز دانشوروں کا اظہار خیال
جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ خواتین کے زیر اہتمام "ہندوستانی معاشرے میں مسلم خواتین کے کردار” کے عنوان سے ایک قومی آن لائن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں متعدد ممتاز خاتون دانشوروں، محققین، اور سماجی کارکنان نے شرکت کی۔ مقررین نے اس موقع پر ان مسلم خواتین کی گراں قدر خدمات پر روشنی ڈالی جو تاریخی بیانیے میں مسلسل نظر انداز کی جاتی رہی ہیں۔
کانفرنس کی صدارت جماعت اسلامی ہند کی قومی سکریٹری اور خواتین کے حقوق کی سرگرم علمبردار محترمہ رحمت النساء اے نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں تاریخ کے سنجیدہ مطالعے اور اس کی درست تعبیر کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو صرف His-story بننے دینا، یعنی صرف مردانہ نقطۂ نظر سے دیکھنا، ایک سنگین علمی کوتاہی ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب ریاستی سطح پر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں۔
رحمت النساء نے اپنے خطاب میں مسلم خواتین کے انفرادی اور اجتماعی کردار پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین — چاہے معروف ہوں یا گمنام، براہِ راست ہوں یا بالواسطہ — ہر دور میں معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ان حقیقی ہیروئنز کی زندگیوں پر مزید تحقیقی کام ہونا چاہیے تاکہ ان کی قربانیوں اور خدمات کو سامنے لایا جا سکے۔
کانفرنس کا کلیدی خطبہ جنوبی نیو ہیمپشائر یونیورسٹی اور سینٹ لیو یونیورسٹی کی فیکلٹی سپروائزر ڈاکٹر سنگیتا سکسینہ نے پیش کیا۔ انہوں نے بہار اور بنگال کی معتبر تاریخی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم خواتین کے کردار کا مفصل تجزیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر سکسینہ نے بیگم حضرت محل سے لے کر زہرہ کلیم تک متعدد مسلم خواتین کی مثالیں دیں جنہوں نے آزادی کی تحریک، تعلیم، سماجی اصلاحات، ادب اور تجارت کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں، مگر جنہیں تاریخی کتابوں میں نظر انداز کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ خواتین دراصل ہمارے قومی ورثے کی گم نام ہیروئنز ہیں۔
عالیہ یونیورسٹی، کولکتہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر طحینہ اسلام نے وومنز کالج علی گڑھ کی شریک بانی محترمہ وحید جہاں بیگم کی تعلیمی جدوجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنے تحقیقی مطالعے کی بنیاد پر واضح کیا کہ کس طرح وحید جہاں بیگم نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کی، قربانیاں دیں اور مسلم خواتین کو باوقار، محفوظ اور معیاری تعلیمی ماحول فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی خدمات آج بھی رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم خواتین کو آج دہرا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے: ایک طرف انہیں سماج کی عمومی بے اعتنائی کا سامنا ہے اور دوسری طرف پدرشاہی نظام کے جکڑبند ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے تعلیم یافتہ طبقے اور نئی نسل سے اپیل کی کہ وہ اپنے گھروں سے بیداری کا آغاز کریں، کیونکہ زبانی تاریخ اور آس پاس کی گمنام خواتین کی زندگیوں کے مطالعے کے ذریعے ایک نئی فکری جہت پیدا کی جا سکتی ہے۔
کانفرنس کا افتتاح جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ خواتین کی اسسٹنٹ سکریٹری محترمہ رابعہ بصری نے کیا۔ اپنے افتتاحی خطاب میں انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ بھارتی مسلم خواتین کی اکثر اوقات نظر انداز کی جانے والی خدمات کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی ہند کے اس عزم کو بھی واضح کیا کہ ان گم نام آوازوں کو زندہ رکھا جائے گا اور ان کی خدمات کو ریکارڈ پر لایا جائے گا۔ رابعہ بصری نے کہا کہ موجودہ دور میں جب تاریخ کو مٹانے اور مسخ کرنے کا عمل منظم انداز میں جاری ہے، یہ کانفرنس نہ صرف علمی و فکری لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے بلکہ قومی و اخلاقی ذمہ داری کے احساس کی بھی حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم خواتین کی وراثت کو تسلیم کرنا، اسے دستاویزی شکل دینا اور تاریخی شعور کا حصہ بنانا، قومی تعمیر و ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس تناظر میں یہ کانفرنس ایک مضبوط علمی و اخلاقی موقف کی نمائندہ ہے۔
اس موقع پر یہ نکتہ بھی اجاگر کیا گیا کہ موجودہ این سی ای آر ٹی (NCERT) نصاب میں مغل دور کو متعصبانہ انداز میں پیش کیا جا رہا ہے — مندر توڑنے، حملہ آور ہونے، اور بربریت جیسے بیانیے کو فروغ دے کر تاریخ کے پیچیدہ پس منظر کو مذہبی تصادم تک محدود کر دیا گیا ہے، جو نہ صرف تاریخی بددیانتی ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں کے لیے خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔
کانفرنس میں ملک بھر سے علما، اساتذہ، طلبہ اور سماجی کارکنان نے شرکت کی۔ پروگرام کی میزبانی جماعت اسلامی ہند کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن محترمہ میناز بانو نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض جماعت اسلامی ہند کی اسسٹنٹ سکریٹری محترمہ سمیہ مریم نے انجام دیے۔ انہوں نے مسلم خواتین کے ہندوستانی سماجی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں میں کردار پر روشنی ڈالی اور کانفرنس کے مقاصد کو مؤثر انداز میں اجاگر کیا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025