مستحکم خاندان کی بنیاد: خوشگوار رشتے

ایس امین الحسن

 

خاندان باوجود اپنی معاشی، عسکری اور علمی قوت کے تباہی کے کگار پر کھڑا ہے کیونکہ خاندانی نظام کے تاروپود بکھرے ہوئے ہیں۔ اس بات کا اخلاقی جرأت کے ساتھ اقرار فرانسیس فوکویاما نے اپنی کتاب The Great Disruption (عظیم تباہی) میں کیا ہے۔ مستحکم و مضبوط خاندان کی بنیاد تعلقات کی خوشگواری ہے۔ واضح رہے کہ خوشگواری کا تعلق محبت، عزت و احترام، عفو ودرگذر اور ایثار جیسی صفات سے ہے۔ خوشگواری کا انحصار قطعاً گھردولت و ثروت پر نہیں ہے۔ یہ دل کی کیفیت کا نام ہے۔
خاندان کے دو دائرے ہوتے ہیں (۱) گھر (۲) رشتہ داروں کا وسیع حلقہ۔
’’گھر‘‘ کی بھی دو قسمیں ہیں (۱) شوہر بیوی اور بچے (۲) والدین اور بھائی بہنیں۔ کبھی کبھی دونوں نوعیتیں یکجا ہوجاتی ہیں۔
رشتوں میں خوش گواری اور گرم جوشی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب حقوق سے زیادہ فرائض و ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ پھر حدود کا ادراک و احترام بھی لازم ہے۔ ان دونوں اصولوں کی وضاحت ذیل میں دی جارہی ہے۔
شوہر بیوی کے خوشگوار تعلقات
ایک اجنبی لڑکا اور ایک اجنبی لڑکی جب نکاح کے بندھن میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاتے ہیں تو وہ اپنی سابقہ خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ ان کے والدین کے مزاج و کردار، گھریلو ماحول اور کیفیات، ان کے آپسی تعلقات یہ سب مل کر ان کی انفرادی شخصیتوں کی تعمیر کرتے ہیں۔ اسی طرح خاندان کا رہن سہن، سلیقہ اور معیار زندگی بھی ان کی شخصیتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے شوہر بیوی ایک دوسرے کو ویسے ہی قبول کریں جیسے وہ ہیں۔ جبریا طنزیہ انداز میں ایک دوسرے کے عادات و اطوار اور طور طریقوں پر تبصرہ اور تبدیلی کی کوشش ہوئی تو تعلقات میں پہلے خراش اور پھر دراڑ پڑنے لگتی ہے۔
کوئی لڑکی کھلے ہاتھ والی ہوتی ہے، اخراجات پر کنٹرول نہیں ہوتا، شوہر کے مزاج سے جب یہ بات میل نہیں کھاتی اور وہ اس پر بھونڈے انداز میں طنز کرتا ہے تو وہ پلٹ کر جواب دیتی ہے۔ ’’ہم فقیر فتو گھر کے لوگ نہیں ہیں‘‘ شوہر بگڑتا ہے اور جواب دیتا ہے ’’اوہومجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم حاتم تائی کی بیٹی ہو!‘‘ یہاں سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ لڑکی کو یہ احسا س ہو کہ شوہر کے مال میں اس کا حق ضرور ہے مگر گھر میں کفایت شعاری اور آمدنی کے حساب سے خرچ کرنا اور گھر چلانا اس کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح شوہر کو بھی چاہیے کہ اچھے ماحول میں بیوی کے ساتھ ہر کام کے لیے بجٹ طے کرے۔ یہ مسئلہ اور بھی آسانی سے اس طرح حل ہوجاتا ہے جب شوہر بیوی کے حوالے ایک متعینہ رقم کرے اور کہے کہ گھر چلانے میں میں تمہاری مہارت کا قائل ہوں۔ تو وہ حسن و خوبی کے ساتھ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے گھر چلائے گی۔ جس کے بعد پھر کبھی ’’فتو فقیروں کا گھرانہ‘‘ ، ’’حاتم طائی کا گھرانہ‘‘ جیسے تعلقات بگاڑنے اور خاندان کو کمزور کرنے والی لڑائیاں سر نہیں اٹھائیں گی۔
اسی طرح کوئی لڑکی اچھے کپڑوں کی شوقین اور اچھے کھانوں کی دلدادہ اور ملنے جلنے والی ہوتی ہے۔ سسرال میں ان سبھی عادات کا ساتھ چلنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں لڑکی کو بھی معلوم ہوکہ خوشگواری کی خاطر مزاج کو بدلنا ہی عقلمندی ہے۔ جبکہ شوہر کو یہ یاد رہے کہ ہم نے اس کی مکمل شخصیت سے شادی کی ہے، اسے ہم ویسے ہی قبول کریں جیسی کہ وہ ہے۔
شوہر بیوی کے خوشگوار تعلقات میں دوسرا عنصر محبت کا ہے۔ رشتہ ازدواج کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ زوجین کے درمیان محبت ہو۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ میں نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے۔ اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو فکر سے کام لیتے ہیں۔‘‘ (۲۱:۳۰)
مندرجہ بالا آیت میں تعلقات کی خوشگواری کے لیے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک مودت جو محبت سے آگے کی چیز ہے۔ محبت میں ایک دوسرے کے لیے چاہت ہوتی ہے جس کے لیے کوئی ظاہری سبب بھی ہوتا ہے جبکہ بیوی خواہ غریب ، کم خوبصورت یا بدصورت ہو ، کم پڑھی لکھی ہو تب بھی ہماری زندگی کا جز ہونے کی حیثیت سے جذباتیت اور قدردانی کے ساتھ آپس میں دلوں کے مل جانے کے لیے قرآن نے مودت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسی طرح رحمت کا لفظ ہے جس میں فیضان اور نفع بخش ہونے کا مفہوم شامل ہے۔ معلوم ہوا کہ محبت صرف الفاظ میں نہیں بلکہ دل سے ہو اور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا نے کا جذبہ ہو۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا: ’’کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہترین ہو۔‘‘ جبکہ بیوی کے سلسلہ میں فرمایا کہ بہترین بیوی وہ ہے کہ جب اس کا شوہر اسے دیکھے تو خوش ہوجائے۔
اختیارات کی تقسیم
تعلقات کی خوشگواری میں جو بات اوپر گزر گئی کہ حدود کا ادراک و احترام ہو اس کا انطباق یہاں ہوتا ہے۔ کام اور حدود کی تقسیم سے بوجھ بھی ہلکا ہوتا ہے ، مداخلت، شکایات، رنجش اور بدمزگی ختم ہوجاتی ہے۔
گھرکی حکومت میں کئی شعبہ جات ہوتے ہیں۔ مرد، عورت، بچے اور نوکر (اگر ہوں) کے درمیان ان تمام قلمدانوں کی تقسیم ہوتی ہے۔
مثلاً بیوی کے ذمہ یہ طے ہو کہ کھانا پکانا، یا بوا سے پکوانا، بچوں کو پڑھانا، سال کے کپڑے خریدنا وغیرہ تو ان امور میں اسے بجٹ کے ساتھ آزادی ہو۔ اس طرح کی تقسیم کار سے خوشگواری بڑھتی ہے۔
اسی طرح گھر چلانے میں بہت سے فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ جن میں کچھ چھوٹے فیصلے کچھ بڑے فیصلہ ہوتے ہیں۔ لطیفہ ملاحظہ ہو:
ایک جوڑے نے شادی کے ۵۰ سال مکمل کیے۔ بچوں نے بڑے فنکشن کا انعقاد کیا، پریس رپوٹرز بھی شریکِ مجلس تھے۔ ایک رپورٹر نے پوچھا کہ شادی کے ۵۰ سال جس کامیابی کے ساتھ آپ دونوں ہی گزار لے گئے اس کا راز کیا ہے۔ تو شوہر نے کہا معاملہ تو بڑا آسان ہے؟ وہ کیسے؟ کہا: ہم دونوں نے یہ بات طے کی تھی کہ چھوٹے فیصلے وہ لیا کرتی تھی۔ بڑے فیصلے میں لیا کرتا تھا۔ رپورٹر نے کہا کہ اس کی وضاحت کیجیے چھوٹے فیصلے کیا ہوتے ہیں اور بڑے کیا ہوتے ہیں؟ شوہر نے کہا کہ ہمارا گھر کتنے روپے کی لاگت میں بنے، میری ماں میرے گھر میں قیام کرے یا اولڈ ایج ہوم میں، میری بیٹی کی شادی میں مجھے کتنا خرچ کرنا ہے یہ تمام چھوٹے فیصلے وہ لیا کرتی تھی۔ رپورٹر نے تعجب سے پوچھا کہ یہ سب امور چھوٹے فیصلے کے ضمن میں آئے تو آپ کے بڑے فیصلوں کے تحت کون سے امور آتے تھے۔ شوہر نے کہا : ہندوستان کو اقوام متحدہ (سلامتی کونسل) کی مستقل رکنیت ملنی چاہیے کہ نہیں، عراق پر امریکہ کو حملہ کرنا چاہیے کہ نہیں وغیرہ جیسے بڑے فیصلے میرے ذمہ تھے۔‘‘
اصل مباحثہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ خوش گوار تعلقات پیدا کرنے میں اختیارات کی تقسیم بھی ہوتی ہے۔ گھر بنانا ہمارا کام تو گھر سجانا اس کی ذمہ دای، بیڈ گورس، باورچی خانے کی تیاری، وارڈ روب وغیرہ کے انتخاب سے مرد دست بردار ہو، گھر کی ملکہ کا ذوق پیش نظر ہو تو اعتماد و محبت کی جو فضا بنتی ہے اس فضا میں پلنے والی اولاد میں بھی خود اعتمادی اور قوت فیصلہ مضبوط ہوتی ہے۔
اس طرح میاں بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات کا یہ ایک ہلکا سا خاکہ ہے۔ ان باتوں کا فہم و ادراک جہاں نہیں ہوتا وہ گھر جہنم کدہ بنا ہوتا ہے۔
بچوں سے خوشگوار تعلقات
ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ آپ ایک خطبہ ’’والدین کے حقوق‘‘ پر دیں۔ میں معاملہ سمجھ گیا۔ تعلقات کی ناخوشگواری تھی، میں نے کہا کہ جب حق لینے کا زمانہ آیا توآپ کو شکایت ہے۔ جب حق دینے کا زمانہ تھا اس وقت غالباً بچوں کے ساتھ آپ کا وہ سلوک نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا۔ ہم نے کہا کہ ضرور اس دفعہ والدین کے حقوق کے بجائے ’’بچوں کے حقوق‘‘ پر خطبہ دوں گا۔
بچوں کے ساتھ تعلقات میں خوش گواری پیدا کرنا ایک طرفہ کام ہے۔ یعنی ماں باپ سے بچوں کی طرف۔ جب کہ میاں بیوی کے تعلقات کی خوش گواری دو طرفہ تعلقات پر موقوف ہے۔
بعض احباب ایسے ہوتے ہیں کہ گھر کے باہر وہ محلہ کے بڑے ہوتے ہیں، سب کو انتظار ہوتا ہے کہ چودھری صاحب آئیں تو معاملہ کا فیصلہ ہو۔ مگر گھر میں حال یہ ہوتا ہے کہ وہ شیر بن کر داخل ہوئے، بیوی بچے بلی بن کر کونے میںدبک گئے، یکسر ماحول بدل گیا، سناٹا چھا گیا۔ والد صاحب کے آگے نہ آنکھ ملانے کی جرأت نہ گفتگو کی۔ بچوں پر ہر دم سختی، ہر دم ڈانٹنا اور ٹوکنا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے منتظر ہوتے ہیں کہ والد صاحب کب گھر سے باہر جائیں گے۔ یہ انداز باپ بچوں کو مجبوراً جوڑے رکھتا ہے۔ چنانچہ جیسے ہی ان کے پر پھوٹیں وہ آزاد پنچھی بن کر یوں اڑان بھرتے ہیں کہ اس بڑی عمر میں والدین کا نہ کوئی پرسان حال نہ یارومددگار۔
پیارے نبیؐ ہمارے لیے زندگی کے ہر مرحلہ میں اسوہ ہیں۔ بچوں سے وہ بہت پیار کرتے تھے۔ بچوں کو وہ چومتے تھے، یہ دیکھ کر کسی صحابی رسولؓ نے پیغمبرؐ سے پوچھا یا رسول اللہ آپؐ بھی بچوں کو پیار کرتے ہیں۔ میں نے کبھی اپنے بچوں کو نہیں چوما تو آپؐ نے فرمایا: خدا نے اگر تمہیں دل نہ دیا تو میں کیا کروں۔ تم خدا سے پہلے ایک دل مانگو۔ بچوں کو سلام کرنے میں آپؐ پہل فرماتے۔ بچوں سے کھیلتے، ایک مرتبہ آپؐ حضرت علی کے گھر میں تھے۔ حضرت علیؓ گھر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں سرور کونینؐ کی مبارک پیٹھ پر حسن و حسین سوار ہیں اور آپؐ چار پیر سے اپنے سواروں کو لیے چل رہے ہیں۔
بچوں سے تعلقات کی خوشگواری اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ان کے ساتھ کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔ ان سے کھیلنا، باتیں کرنا، کہانیاں سنانا، ان کے معصوم سوالات کا جواب دینا، ان کی حاجتوں کو پوری کرنا، باہر جاتے ہوئے ساتھ لے چلنا۔ دوستوں کے حلقوں میں ان کا تعارف کرانا، اپنے ہاتھوں سے ان کے کام کرنا مثلاً غسل کرانا، کپڑے پہنانا، جوتا پہنانا وغیرہ۔ یہ وہ سرگرمیاں ہیں جو بچوں کے دل میں یہ نقش کردیتی ہیں کہ ہمارے ابو /امی بڑی پیاری شخصیتیں ہیں اس لیے ہمیں اس پیار کا جواب احترام اور اطاعت سے دینا چاہیے۔ اس طرح بچپن ہی میں ان کا ذہن والدین کی اطاعت و فرماں برداری اور دائمی الفت و محبت کے لیے تیار ہوجاتاہے۔
والدین سے خوشگوار تعلقات
دنیا میں ایک قدر شناس انسان کے لیے والدین سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں جو اس کے پیارومحبت، مالی خرچ اور خدمت کے مستحق ہیں۔ ہمارا وجود ان ہی کا مرہونِ منت ہے۔ ان کے خون ہی سے ہم منصۂ شہود پر آئے۔ انھوں نے مال و دولت بھی خرچ کی، محنت و جانفشانی بھی کی، رات کی نیند اوردن کا چین بھی قربان کیا۔ ان سب کو فراموش کرکے ان سے تعلقات میں کشیدگی ہو تو ایسے بدنصیبوں پر ماتم کرنا چاہیے۔ یہ ضرور ہے کہ بڑھاپے میں بچپن لوٹ آتا ہے۔ زود رنجی، ضد،چڑچڑے پن سے بعض وقت ماحول مکدر ہوجاتا ہے۔ اور اس کے جواب میں زبان درازی اور احسان فراموشی سے تعلقات میں دراڑ پڑجاتی ہے۔ اسی نفسیات کے پس منظر میں قرآن حکیم نے دیا :
’’اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی اور کی عبادت مت کرو، اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی (ہاں ہے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا۔ اور ان سے ادب سے بات کرنا۔ اور ان کے سامنے عاجزی سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرما جیسا انھوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کی ہے۔ تمہارا رب دلوں کے اندر کو خوب جانتا ہے۔ اگر تم سعادت مند ہو تو (کبھی جذبات کی رو میں بے ادبی ہوجانے پر) وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا ہے۔‘‘(۲۵-۲۳:۱۷)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا ہے۔ تو تم میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کرو اور تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
(۱۵-۱۴:۳۱)
والدین کے ساتھ تعلقات کی خوشگواری میں دو باتوں کا لحاظ ضروری ہے:
(۱)والدین کو باور کرانا کہ اب بھی وہی بڑے ہیں۔ ہم پیسے اور علم میں بڑھ بھی گئے، تو ان کی تربیت اور تعاون کا نتیجہ ہے۔ اس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ گھرپہنچیں تو پہلے ان سے بات چیت کریں، دور ہوں توان کے لیے خصوصی فون کرنا، بیرونی دنیا میں ہونے والے واقعات سنانا، پرانی یادیں ان سے سننا اور معاملات میں ان سے مشورہ لینا وغیرہ۔
(۲)ان کی خدمت کرنا، خدمت سے والدین خوش ہوجاتے ہیں اور ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہیں۔ ضرورت کے وقت اپنی توجہ کے ساتھ اسپتال لے جانا، دوائیں لانا، رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے کا انتظام کرنا جبکہ بعض مواقع پر ایسی بڑی بڑی خدمات بھی انجام دینی پڑتی ہیں جن سے لوگ کراہت اور طبیعت پر گراں باری محسوس کرتے ہیں مگر یہی خدمت دراصل جنت کی بشارت ہے۔ ان خدمات سے نہ صرف وہ خوش ہوتے ہیں بلکہ ہمیں بھی خوشی ملتی ہے۔ اس طرح ہم گھر میں اپنے بچوں کے لیے اور پاس پڑوس کے علاوہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک اچھا نمونہ بنتے ہیں۔
بھائی بہنوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات
بھائی بہنوں کے ساتھ گذرے ہوئے لمحات کا گہرا اثر انسانی شخصیت پر پڑتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہم جو کچھ ہیں ان میں والدین سے منتقل ہونے والے اوصاف کے ساتھ گھر کے قریبی ماحول کا اہم رول ہے۔ عموماً بچپن ہی سے بھائیوں بہنوں کے تعلقات اور ایک دوسرے سے مسابقت اور ایک دوسرے سے اثر پذیری کے عوامل ضرورہوتے ہیں۔ نفسیاتی صحت شخصیت کے ارتقا میں بھائی بہنوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا نتیجہ ہوتا ہے۔
قرآن و حدیث میں رحمی رشتوں کے ساتھ صلہ رحمی کی جو تعلیم دی گئی اس میں اولین نمبر میں بھائی بہن آتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلقات کو کشیدگی سے بچانے اور صحت مند اور خوشگوار بنانے کے لیے مندرجہ ذیل امور پر توجہ دینی چاہیے :
(۱) روابط: مصروف زندگی میں بھائی بہنوں سے ملاقات صرف خوشی اور غم کے مواقع پر ہوجاتی ہے۔ یہ انداز بتاتاہے کہ روابط سرد ہیں۔ اس میں گرمجوشی لانے کے لیے ضروری ہے کہ خط و کتابت یا فون کے ذریعہ ہفتہ میں یا کم از کم مہینے میں ایک بار ضرور ہی ربط پیدا کرنے کی کوشش ہو۔ اس طرح حال احوال سے واقفیت ہوتی رہے گی۔
(۲) دلچسپی کے موضوعات پر گفتگو: جب بھی ملاقاتیں ہوں آپس میں گفتگو کے موضوعات غیر محسوس طریقے سے نند، بھاؤج، دیورانی و چٹھانی بن جاتے ہیں۔یا بھائیوں کے درمیان شکایات کی داستانیں طویل ہوتی ہیں۔ اس سے خاندان متزلزل ہوتا ہے۔ خاندانی ڈھانچہ کو مضبوط و مستحکم رکھنے میں ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب ملیں تو موضوعات حالات حاضرہ ہوں، خاندان میں پریشان حال لوگوں کے تعاون کے سلسلے میں گفتگو ہو، یا بچوں کی تربیت ہو۔ اس طرح ہم ملاقاتوں کو ایک مثبت رخ دے سکیں گے۔ جی چاہے گا کہ پھر ملتے رہیں۔
(۳) تعاون: لوگ جب خود غرض ہوجاتے ہیں تو وہ خود محویت کا شکار بھی ہوجاتے ہیں ایسے میں وہ دوسروں کو بوجھ سمجھتے ہیں، آدم بیزار اور تعلقات میں متشکک ہوجاتے ہیں۔ جب یہ معاملہ بھائیوں کے درمیان ہو تو دل کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھائی بہنیں ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں اور دست تعاون دراز کریں۔ چھوٹے چھوٹے کام کروادینے سے بھی گریز کرنا تنگ دلی ہے۔ ٹکٹ بک کروادینا، دوا فراہم کردینا، مفید مشورہ کسی ماہر سے حاصل کرکے پہنچادینا، بچے کو گھر پہنچادینا وغیرہ ایسے چھوٹے چھوٹے کام ہیں جن سے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں۔
عام رشتہ داروں سے خوشگوار تعلقات
رشتے ناطوں کی زنجیر جب طویل ہوتی ہے تو عام افراد خاندان، دور دور کے رشتہ دار سب اس میں بندھ جاتے ہیں۔ دادھیال، ننھیال، اپنے اور سسرالی سب اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ الفت و محبت اور حسن سلوک اور خدمت میں ان سب کا حصہ بھی ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں۔
(۱) ذکر خیر: عموماً گھروں میں یہ بری عادت ہوتی ہے کہ رشتہ داروں کے خلاف غیبت، ان کی برائیوں کا ذکر بچوں بڑوں، سب کے سامنے کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر کبھی وہ رشتہ دار گھر آتے ہیں تو ظاہری مسکراہٹ اور بے دلی کے ساتھ خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ بچے جب ہمارے قول و عمل کے تضاد کو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں منافق سمجھتے ہیں مگر اظہار کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ تعلقات اسی وقت خوشگوار ہوتے ہیں جب دل میں ان کے لیے مقام ہو۔ اس کے لیے اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی چاہیے۔ جس کے لیے مشق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ عموماً تنگ دلی کی طرف انسان مائل ہوجاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:’’جو تنگ دلی سے بچالیے گئے بس وہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
(۲) بے تکلفی: تکلفات اجنبیت اور دوری کو بڑھاتے ہیں۔ بے تکلفی میں اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ رشتہ داروں کے ہاں جانا، ملاقاتیں کرنا آج کے دور میں ایک متروک عادت ہوگئی ہے۔ ٹی وی اور دیگر لغویات ہمارا وقت کھا جاتے ہیں پھر بھی وقت کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔ خاندان اس وقت مضبوط ہوں گے جب ایک دوسرے کے یہاں بے تکلف آنا جانا ہو۔ کبھی کبھی بے تکلفی سے خود سے چائے کا مطالبہ کرکے پی لینے میں میزبان کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔
صحابہ کرامؓ کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ وہ ’’سادہ دل، عمیق علم والے اور آپسی تعلقات میں بے تکلف تھے۔‘‘
(۳) حسن توجیہ: کبھی کسی رشتہ دار کی جانب سے ایسا سلوک ہو جو ہمیں برا لگے تو ان کے متعلق اچھا ہی گمان رکھیں۔ حسن توجیہ کریں۔ آپ کے گھر کی شادی ہے وہ شریک نہ ہوسکے تو یہ نہ کہیں کہ ’’وہ متبکر ہیں‘‘، ’’مالدار غریبوں کے ہاں کیونکر آئیں گے۔‘‘ وغیرہ۔ بلکہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان کے گھر بچے کی طبیعت خراب ہوگئی ہو یہ بھی کبھی ہوتا ہے کہ تجارت کی ایسی پریشانیاں اور مسائل ہوتے ہیں جو ہر ایک کے سامنے بیان نہیں کیے جاسکتے اس سلسلے میں ایک صحابی رسولؐ کا واقعہ عرض ہے:
’’ایک صحابی رسول مالدار تھے، ان کے رشتہ داروں کا آنا جانا تھا۔ دن خوشی سے بسر ہورہے تھے۔ ان کی زوجہ محترمہ کو یہ بات کچھ ناگوار گذرتی تھی کہ یہ رشتہ دار ہمارے شوہر سے کچھ زیادہ ہی فائدہ اٹھارہے ہیں۔ زمانے کے نشیب و فراز سے ان کی تجارت ٹھپ ہوگئی۔ وہ قلاش ہوگئے۔ دھیرے دھیرے رشتہ داروں کا آنا جانا بھی بند ہوگیا۔ ایسے میں ان کی بیوی نے شوہر سے کہا کہ دیکھو تمہارے رشتہ دار کتنے مطلبی ہیں، جب مال تھا تو خوب آتے تھے اب کوئی بھولے سے بھی نہیں آتا۔ ہم ہوتے تو بیوی کی ہاں میں ہاں بھرتے۔ جب کہ صحابی رسول نے فرمایا اپنی بیوی سے کہ تم نہیں جانتیں کہ میرے رشتہ دار کیوں کم آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت میری مالی حالت اچھی نہیں، وہ مانگیں گے، میں دے نہ پاؤں گا۔ نہ دینے کی وجہ سے میرے دل کو صدمہ ہوگا، وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ایک اچھے رشتہ دار کو صدمہ میں مبتلا کریں، اس لیے وہ کم آتے ہیں۔‘‘
lll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021