مرکز نے کشمیر کی سیب پیداوار کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ خریدا
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے مالی سال2019-20 کے دوران کشمیر گھاٹی سے صرف 7940 میٹرک ٹن سیب خریدے ہیں۔ مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے منگل کو لوک سبھا میں یہ جانکاری دی۔ یہ اعداد و شمارکشمیر کی سیب پیداوار کا ایک فیصدی سے بھی کم ہے۔ کشمیر میں پچھلے کچھ سالوں میں سیب کی پیداوار اوسطاً 18 لاکھ میٹرک ٹن رہی ہے۔ سال 2018-19 میں گھاٹی میں سیب کی پیداوار18.5 لاکھ میٹرک ٹن تھی۔
ستمبر میں گھاٹی میں سیب کی فصل شروع ہونے کے بعد سیب پیدا کرنے والوں کو ٹیلی مواصلات کی پابندیوں اور آمد ورفت کو لے کر ناکہ بندی کی وجہ سے اپنی اپج بیچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد مرکز نے اعلان کیا کہ وہ نیشنل اگریکلچرل کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن آف انڈیا لمیٹڈ(این اے ایف ای ڈی)کے توسط سے کسانوں سے سیب خریدےگا۔ اس وقت یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ سرکار گھاٹی سے 13 لاکھ میٹرک ٹن سیب کی خریداری کرےگا۔سرکار نے کہا تھا کہ یہ رقم سیدھے کسانوں کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی جائےگی۔ لیکن سرکار نے اپنے ہدف کے ایک فیصدی سے بھی کم اور گھاٹی کے کل سیب پیداوار کی ایک فیصد سے بھی کم کی خریداری کی ہے۔ سوراج ابھیان کے رہنمایوگیندر یادو نے کہا ’’یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔ اسکیم شروع سے ہی ایک مذاق تھی اور اب سیزن ہی ختم ہو گیا ہے۔‘‘
یادو اس سات رکنی وفد کا حصہ تھے جو حال ہی میں گھاٹی کے سیب کے کسانوں کی صورت حال اور ان کے نقصان کااندازہ لگانے کے لیے جموں کشمیر گئی تھی۔ یادو اور ان کی ٹیم نے یہ بھی پایا تھا کہ این اے ایف ای ڈی نے گھاٹی میں کل سیب پیداوار کی ایک فیصدی سے بھی کم کی خریداری کی ہے۔ وفد نے اس کے لیے این ایے ایف ای ڈی کے تجربے اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کو وجہ گردانا۔
سیب کا کاروبارجموں وکشمیر کی معیشت کے لیےاہم ہے، جس کاسالانہ کاروبار 8000 کروڑ روپے ہے۔ اندازہ ہے کہ تقریباً33 لاکھ سے زیادہ خاندان اسی کاروبار پر منحصر ہیں۔ 5 اگست کے فیصلے کے بعدمرکز کی جانب سے لگائی گئی غیر معمولی پابندیوں کی وجہ سےجموں کشمیر کی سیب معیشت بحران میں ہے۔
یوگیندریادو کے سات رکنی وفدنے کسانوں اور تنظیموں کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر بتایا ہے کہ اس سال گھاٹی کے کسانوں کو کل7000 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ: دی وائر)