
مرشدآباد تشدد: مسلمانوں کے خلاف سازش کا پردہ فاش
وقف قوانین کے خلاف احتجاج کو بدنام کرنے کیلئے بہت ہی قبل سازش رچی گئی تھی
دعوت نیوز ، کولکاتا بیورو
وقف قوانین کے خلاف احتجاج کی آڑ میں بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع مرشدآباد اورمالدہ کو فوج کے حوالے کرنے کی کوشش
اپریل کا پہلا ہفتہ وقف قوانین میں ترامیم اور پھر قانون کا درجہ حاصل کرنے کے نام تھا۔ بھارت کے مسلمان اول روز سے ہی اس بل کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس لیے بل کے پاس ہونے کے بعد ہی احتجاج میں شدت آ گئی۔ مرشدآباد، جہاں مسلمانوں کی آبادی 70 فیصد ہے، میں بھی وقف قوانین کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا گیا مگر احتجاج کے پہلے دن ہی ہنگامہ آرائی اور تشدد کے واقعات رونما ہو گئے جو تین دنوں تک ہوتے رہے۔ ان ہنگامہ آرائیوں میں تین افراد کی جانیں تلف ہو گئیں۔ مرنے والے دو غیر مسلم ہیں جو باپ اور بیٹا تھے اور ایک مسلم نوجوان کی موت ہو گئی۔ مرشدآباد تشدد کے واقعات کو لے کر قومی میڈیا میں بڑے پیمانے پر کوریج کی گئی اور مرشدآباد و مالدہ اضلاع کا کشمیر سے موازنہ کیا جانے لگا۔ میڈیا کی سرخیوں میں مرشدآباد کو اس طرح سے پیش کیا جا رہا تھا گویا مرشدآباد میں ہندوؤں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور مسلمان ہندوؤں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا بلکہ وہاں دوسری ہی کہانی لکھی جا رہی تھی۔ اس پوری صورتِ حال میں ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت غیر فعال بنی رہی۔ تین دنوں تک صورتِ حال کو سنبھالنے میں پولیس انتظامیہ ناکام رہی۔ بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندتوا کی تنظیمیں جو بیانیہ بنا رہی تھیں، حکومت اس کی تصدیق کرتی ہوئی نظر آئی۔ المیہ یہ ہے کہ کولکاتا میں رہنے والے علماء کے ذریعہ یہ اپیل کی جا رہی تھی کہ احتجاج کے نام پر دنگے نہ کریں۔ دوسرے لفظوں میں حکومتی حلقے سے قربت رکھنے والے علماء یہ تسلیم کر رہے تھے کہ مرشدآباد میں فسادات کے لیے صرف اور صرف مسلمان ذمہ دار ہیں۔ ممتا بنرجی مرشدآباد کا دورہ کرنے کے بجائے ترنمول کانگریس کی حمایت یافتہ ائمہ و مؤذنین کی کانفرنس سے خطاب کرنے کو ترجیح دی۔ ایک مہینے کے بعد وہ اب مرشدآباد کا دورہ کر رہی ہیں۔
سوال یہ تھا کہ مرشدآباد تشدد کے نام پر میڈیا میں جو پھیلایا جا رہا ہے، کیا وہ سچ ہے؟ کیا واقعی مرشدآباد میں تشدد کے لیے وقف قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے مسلم نوجوان ذمہ دار ہیں؟ کیا مسلم نوجوانوں نے ہی ہندوؤں کے مکانات اور دکانوں پر حملے کیے؟ مرشدآباد تشدد کے واقعات کو ہوئے ایک ماہ مکمل ہونے کو ہے، بنگال پولیس اس کا پردہ چاک کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم مغربی بنگال کی حقوق انسانی کی پانچ تنظیمیں ’’فیمنسٹ ان ریزسٹنس‘‘ (FIR) ’’ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس‘‘ (APDR)، ناری چیتنیا، سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے بنائی گئی کمیٹی سی آر پی پی (CRPP) اور مرشدآباد کی مقامی تنظیم گونو سونگرام منچو نے مرشدآباد تشدد کے واقعات کی جانچ کی۔ تین دنوں تک مختلف علاقوں کا دورہ کیا، مقامی لوگوں سے بات کی اور حکومتی انتظامیہ کے افسروں سے بات چیت کر کے رپورٹ مرتب کی ہے۔ یہ رپورٹ بی جے پی اور آر ایس ایس کے بیانیے کو زمین بوس کر چکی ہے، اگرچہ ابھی مکمل رپورٹ نہیں آئی ہے۔ پانچ تنظیموں نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں واضح طور پر کہا ہے کہ ’’مرشدآباد تشدد ایک سازش تھی اور اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کار فرما تھے‘‘۔ رپورٹ میں کئی اہم سوالات کیے گئے اور اس کے ساتھ ہی ممتا بنرجی حکومت کی غیر فعالیت پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں جو سب سے اہم بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مرشدآباد میں پہلے دن جمعہ کو وقف ترامیم کے خلاف جلوس پر پہلے نامعلوم افراد نے پتھراؤ کیا اور اس کے بعد بھیڑ منتشر ہوئی۔ چونکہ احتجاج میں شامل زیادہ تر نوجوان تھے اور مسلم قیادت غائب تھی اس لیے بھیڑ میں شامل چند افراد نے ہندوؤں کے مکانات اور دکانوں پر حملہ کیا۔ رپورٹ میں ایک اہم بات کہی گئی ہے کہ بی ایس ایف کے لباس میں ملبوس نامعلوم عناصر نے مسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے اور عورتوں کو نشانہ بنایا۔ سوال یہ بھی کیا گیا ہے کہ آخر پولیس نے ان عناصر کی نشاندہی کیوں نہیں کی جو بی ایس ایف کے لباس میں ملبوس ہو کر مسلمانوں کے گھروں پر حملہ کر رہے تھے؟ رپورٹ میں غیر مسلموں کی موت کے مرشدآباد تشدد سے تعلق پر بھی سوال کیا گیا ہے کیونکہ جہاں ان دونوں کا قتل کیا گیا وہاں تشدد کے واقعات نہیں ہوئے تھے تو پھر ان کے گھر میں کون لوگ داخل ہوئے؟ رپورٹ میں پولیس کی عدم فعالیت سے متعلق بھی بہت کچھ کہا گیا ہے کہ پہلے دن جمعہ کو جب وقف قوانین کے خلاف جلوس نکل رہے تھے، سیکیورٹی کے انتظامات نہیں تھے۔ جلوس پر پتھراؤ کے بعد جب حالات خراب ہوئے تو محض چند منٹ کے فاصلے پر واقع شمشیر گنج پولیس اسٹیشن میں کوئی افسر موجود نہیں تھا آخر کیوں؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور بی ایس ایف کے اہلکاروں کے لباس میں نقاب پوش افراد نے مسلم علاقوں میں گھروں پر بغیر کسی وارنٹ کے چھاپہ مارا اور پوچھ تاچھ کے نام پر 17 سے 30 سال کے نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ ان میں سے بیشتر کو حراست میں لے کر بہت مارا پیٹا گیا۔ ایک ہی علاقے سے حراست میں لیے گئے افراد کی مجموعی تعداد 274 تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 اپریل کو شیو مندر بازار میں مسلمانوں کی دکانوں کو جلایا گیا۔ بیت بونا اور جعفرآباد میں بھی حملے ہوئے اور نقاب پوش افراد نے ہنگامہ آرائی کی۔ پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ممبروں کو کئی لوگوں نے بتایا کہ تشدد پھیلانے میں مقامی کونسلر کا ہاتھ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے لوگ خود کو بچانے کے لیے دریا پار کر کے مالدہ بھاگ گئے۔ رپورٹ میں ایک اور اہم نکتے کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے کہ حملہ آور نقاب پوش تھے اور کسی نے بھی ان کی شناخت نہیں کی، اس کے باوجود پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں حملہ آور کو ’’مسلم شر پسند عناصر‘‘ کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقف کے احتجاج کی وجہ سے سوتی پولیس اسٹیشن کے تحت سجور موڑ میں قومی شاہراہ 12 پر سڑک بلاک ہو گئی تھی اور پولیس کی فائرنگ سے قاسم نگر کے رہنے والے اعجاز احمد کی موت ہو گئی تھی۔ بنگال پولیس نے ابھی تک نہیں کہا کہ اس نوجوان کی موت کیسے ہوئی، گولی چلانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور فائرنگ کرنے کی اجازت کس نے دی؟ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترباگن میں جھڑپیں ہوئیں اور گولی لگنے سے ایک 12 سالہ لڑکا اور دو دیگر شدید زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فساد کے دوران مخلوط آبادی میں کسی کو بھی نقصان نہیں ہوا ہے۔ رپورٹ کے آخر میں کئی سوالات کھڑے کیے گئے ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ ہم نہیں جانتے کہ ان حملوں کو کس نے منظم کیا اور پولیس و انتظامیہ جان بوجھ کر غیر فعال رہی۔ بٹ بونا، جعفرآباد اور پرلال پور ہندوؤں کی نقل مکانی کس کے اشارے پر کرائی گئی ہے؟ جانچ کمیٹی نے کہا کہ ریلیف کیمپوں کا دورہ کرنے کی اجازت فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ممبروں کو کیوں نہیں دی گئی؟ پولیس وارنٹ یا میمو کے بغیر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے کون ہیں؟ مسلم محلوں میں دہشت مچانے والے بی ایس ایف کے فرضی اہلکار کون ہیں؟ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے 11 اپریل سے تمام واقعات کی فوری اور آزادانہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کو متاثرہ علاقوں میں امن کے عمل کو فوری طور پر شروع کرنے اور معمولات کو بحال کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ کمیٹی نے تمام غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کی فوری اور غیر مشروط رہائی اور غیر قانونی گرفتاریوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو فوری طور پر معاوضہ دیا جانا چاہیے اور بے گھر ہونے والوں کو فوری طور پر بحال کیا جانا چاہیے۔ اس میں بربریت اور لاپروائی میں ملوث پولیس اور بی ایس ایف اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ فائرنگ کے متاثرین کی شکایات کو قبول کرنے کے علاوہ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کو فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے کے لیے انتظامی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور ان دنوں ڈیوٹی پر موجود تمام افسروں کے خلاف فوری طور پر انکوائری شروع کرنی چاہیے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی مکمل رپورٹ آنا باقی ہے۔ تاہم اس رپورٹ کے آنے کے بعد ممتا حکومت کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس رپورٹ پر حکومت کوئی کارروائی کرے گی۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بی جے پی اور ہندتوا کے ذریعہ جو بیانیہ بنایا گیا تھا وہ زمین بوس ہو گیا ہے مگر جھوٹ اور پروپیگنڈہ کا عمل جاری ہے۔
بنگال کے گورنر نے مرکزی وزارتِ داخلہ کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے دو اہم باتیں کہی ہیں: پہلی یہ کہ ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت مسلم انتہاپسندوں کے سامنے خود سپردگی کر چکی ہے اور دوسری یہ کہ سرحد پر نگرانی کی ضرورت ہے۔ مگر گورنر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ مرشدآباد میں انتہا پسندی کہاں ہو رہی ہے۔
مرشدآباد میں جب تشدد رونما ہوا تو اس وقت مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا گیا کہ اس فساد کے پیچھے بنگلہ دیشی در اندازوں کا ہاتھ ہے۔ اس کے جواب میں ترنمول کانگریس نے سوال کیا کہ بنگلہ دیشی دراندازوں کو روکنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ سوال یہ ہے کہ اگر مرکزی حکومت کے پاس خفیہ رپورٹ موجود تھی تو اسے ریاستی حکومت کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کیا گیا؟ دراصل، اسی سوال میں مرشدآباد میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ چھپی ہوئی ہے۔
اگر مرشدآباد کے فسادات کی سازش کو سمجھنا ہے تو 2024 میں پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں بی جے پی کے رکنِ پارلیمان نشی کانت دوبے کے اس بیان پر غور کرنا چاہیے جس میں انہوں نے مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناج پور—جہاں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد یا اس سے زائد ہے—اور بہار کے مسلم اکثریتی اضلاع: کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ اور ارریہ کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ نشی کانت دوبے کی دلیل تھی کہ سرحد کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے یہ مسلم اکثریتی اضلاع ملک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اگر ان کے پارلیمانی بیان کے تناظر میں مرشدآباد کے موجودہ تشدد کے واقعات کو دیکھا جائے تو پوری حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔
کولکاتا سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن امتیاز احمد ملا ان سماجی کارکنان میں سے ایک ہیں جنہوں نے مرشدآباد تشدد کے دوران علاقے کا دورہ کیا اور فساد کی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ امتیاز ملا نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ احتجاج سے قبل ہی کئی مقامی صحافیوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ مرشدآباد میں کچھ ہونے والا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ مرشدآباد میں احتجاج کا اعلان کرنے والے کون لوگ تھے؟ کوئی بھی معروف تنظیم یا شخصیت احتجاج کی کال دینے والوں میں شامل نہیں تھی۔ پولیس نے احتجاج کو سنبھالنے کے لیے بڑی تعداد میں سیکیورٹی انتظامات نہیں کیے تھے۔
ملا کہتے ہیں کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ احتجاج کے دن ہندوؤں کی تمام دکانیں بند رکھی گئی تھیں؟ وہ مزید کہتے ہیں کہ علاقے میں یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ آج کچھ ہونے والا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جلوس جیسے ہی آگے بڑھا، نامعلوم افراد نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے دن بھی جب احتجاج شروع ہوا تو پولیس نے اچانک لاٹھی چارج کر دیا، حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جلوس پُرامن تھا، مگر اچانک کارروائی کی گئی، جس میں بڑی تعداد میں نوجوان زخمی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ زخمیوں کا سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
ملا کہتے ہیں کہ بی ایس ایف کے فرضی نوجوان گھروں میں داخل ہو کر بڑی تعداد میں مسلمانوں کے مکانات کو نقصان پہنچا رہے تھے اور مارپیٹ کر رہے تھے۔ یہ سب مرشدآباد کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کی ایک منظم سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ حکم راں طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان اس ملک کے لیے خطرہ ہیں۔
***
***
مغربی بنگال کی حقوق انسانی کی پانچ تنظیمیں ’’فیمنسٹ ان ریزسٹنس‘‘ (FIR) ’’ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس‘‘ (APDR)، ناری چیتنیا، سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے بنائی گئی کمیٹی سی آر پی پی (CRPP) اور مرشدآباد کی مقامی تنظیم گونو سونگرام منچو نے مرشدآباد تشدد کے واقعات کی جانچ کی۔ تین دنوں تک مختلف علاقوں کا دورہ کیا، مقامی لوگوں سے بات کی اور حکومتی انتظامیہ کے افسروں سے بات چیت کر کے رپورٹ مرتب کی ہے۔ یہ رپورٹ بی جے پی اور آر ایس ایس کے بیانیے کو زمین بوس کر چکی ہے،پانچ تنظیموں نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں واضح طور پر کہا ہے کہ ’’مرشدآباد تشدد ایک سازش تھی اور اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کار فرما تھے‘‘۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025