مدرسوں میں سنسکرت کی تعلیم! اترا کھنڈ  وقف بورڈ کے چیئر مین کے بیان پر اٹھے سوال

اتراکھنڈ وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس  کے حالیہ بیان کے بعد مدرسہ ایسو سی ایشن کا احتجاج،سیاسی مفاد سے  محرک قرار دیا

دہرادون،14 ستمبر :۔

ایک طرف جہاں یو پی میں مدارس کے خلاف یوگی حکومت کی کارروائی جاری ہے اور تقریبا240 مدارس کی منظوری ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے وہیں اتراکھنڈ میں مدارس میں سنسکرت کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیاجا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق اترا کھنڈ  وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس  نے گزشتہ دنوں پیر کو ایک بیان میں کہا کہ اترا کھنڈ کی زمین کو دیو بھومی کے نام سے جانا جاتا ہے اس لئے یہاں کے مدارس میں اب سنسکرت کی تعلیم کا بھی بندو بست کیا جائے گا۔ چیئر مین کے اس بیان کی چو طرفہ تنقید کی جا رہی ہے ایک طرف جہاں مدرسہ ایسوسی ایشن نے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھائی ہے وہیں کانگریس نے بھی اس سوال اٹھائے ہیں اور اس بیان کو سیاسی مفاد سے وابستہ حکمراں جماعت کی چاپلوسی سے تعبیر کیا ہے ۔

خیال رہے کہ اتراکھنڈ وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ریاست کو ’دیوبھومی‘ قرار دیا جاتا ہے، اس لیے اب یہاں کے مدرسوں میں عربی کے ساتھ سنسکرت بھی پڑھائی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مدرسوں میں این سی ای آر ٹی کا نصاب نافذ کیا جائے گا اور ایسا مدرسوں کو جدید بنانے کی غرض سے کیا جا رہا ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد سے  مخالف میں آواز اٹھنی شروع ہو گئی ہے ۔

قومی آواز کی رپورٹ کے مطابق اتراکھنڈ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر کرن ماہرا نے شاداب شمس کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سرکاری اسکولوں کو سنبھالنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کرن ماہرا نے پوچھا کہ حکومت آخر مدرسوں میں سنسکرت کے ٹیچرز کہاں سے لائے گی؟

انہوں نے کہا کہ جو حکومت ریاست کے سرکاری اسکولوں کے لیے ضرورت کے مطابق اساتذہ کی تقرری نہیں کر پا رہی وہ بھلا مدرسوں کے لیے سنکرت ٹیچرز کس طرح دستیاب کرا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کو کھوکھلی بیان بازی کے بجائے حقیقت کو سامنے رکھنا چاہئے۔ کرن ماہرا نے شاداب شمس کو بی جے پی کا چاپلوس قرار دیا اور کہا کہ وہ بی جے پی لیڈران کو خوش کرنے کے لیے اس طرح کے بیان دیتے ہیں۔

اتراکھنڈ مدرسہ ایسوسی ایشن کے سکریٹری شاہ نظر نے حکومت پر مدرسوں کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مدرسے کی ڈگری کو تسلیم نہیں کرتی، لہذا سنسکرت پڑھائی جائے یا فارسی کوئی فرق نہیں پڑے گا! انہوں نے کہا کہ مدرسہ ٹیچروں کو آج تک تنخواہ نہیں ملی ہے، ایسے حالات میں حکومت سنسکرت پڑھاکر کون سا تیر مار لے گی۔