مثالی مسلم گھر کے لیے دو نکات
ڈاکٹر سمیر یونس / ترجمہ: تنویر آفاقی
اگر آپ اپنے گھر کا موازنہ نبی کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گھروں سے کریں گے تو لا محالہ اپنے اور ان کے گھروں میں بڑا نمایاں فرق معلوم ہوگا اور یہیں سے آپ کے اندر سلفِ صالحین کے نقش قدم پر چل کر اپنے گھر کو بہتر سے بہتر بنانے کی آرزو اور خواہش پیدا ہوگی۔ یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے۔ ’’میں اپنے گھر کو مطلوبہ صورت میں کیسے لے کر آؤں؟‘‘یہاں اختصار کے ساتھ ایک مسلم گھرانے کو بہتر بنانے کے وسائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ شاید ان سے مذکورہ سوال کا جواب مل جائے۔
۱- رشتہ کا اچھا انتخاب
ممکن ہے جو شادی شدہ ہیں ان کو اس بات پر ہنسی آئے اور وہ وہی بات کہیں جو عام کہاوت میں کہی جاتی ہے کہ ’’جس کوایک ہی گھونٹ میسر ہو تو اللہ اس کو اسی پر صابر و قانع بنادیتا ہے۔‘‘ بھلا ہم کیا رشتے کا انتخاب کریں جب کہ ہماری قسمت میں جو تھا وہ ہمیں مل چکا؟میرا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے بیٹے بیٹیوں کے لیے اچھے رشتوں کا انتخاب کریں یا کم از کم اس انتخاب میں ان کی مدد کریں۔ ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ ٹھیک ہے ہم بیٹے کے لیے تو رشتے تلاش کرلیں گے لیکن بیٹی کے لیے کیسے کریں گے؟ لڑکیوں کے لیے رشتوں کی تلاش میں نکلنے میں تو حرج ہے نا؟ میں اپنے ان بھائیوں کویہ یاد دلادوں کہ اللہ کے نبی حضرت شعیبؑ نے خود اپنی بیٹی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتخاب کیا اور جب ان کی بیٹی نے ان سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات کا ذکر کیا تو خود اپنی بیٹی کے لیے ان کو پسند کرلیا، جس کااظہار حضرت شعیبؑ نے حضرت موسیٰ سے کردیا اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کردینے میں اپنی رغبت اور خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ اس واقعے کو قرآن نے اس طرح ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا:
’’حضرت شعیبؑ نے کہا کہ میں اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کی شادی تم سے کرنا چاہتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ تم میرے پاس آٹھ سال تک ملازمت کرو۔ اگر تم دس سال مکمل کرلو تو یہ تمہاری مرضی پر ہے۔‘‘ (القصص: ۲۷)
ہمیں ایک دوسرے پہلو سے اس واقعے پر غور کرنا چاہیے۔ حضرت شعیبؑ کو یہ بات معلوم تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پریشانی حل کردی اور ان کے سامنے یہ شرط رکھی کہ وہ ان کے پاس آٹھ سال تک کام کریں گے اور اگر وہ اپنی مرضی سے دس سال مکمل کرلیں تو یہ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے مہر کے اوپر مزید ہوگا۔ اس سلسلے میں حضرت شعیبؑ نے آسانی پیدا کرنے والا طریقہ اختیار فرمایا:
’’میں ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں۔ اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر آپ مجھے بھلا آدمی پائیں گے۔‘‘ (القصص: ۲۷)
شاید آج کے والدین رشتے کے انتخاب میں حضرت شعیبؑ کی اس حکمت اور دانش مندی کو سمجھ گئے ہوں گے، جو انھوں نے اس زمانے میں اختیار کی جب کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مشکل سے ملتے تھے۔ چنانچہ میری والدین سے درخواست ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے دین دار لڑکا اور اپنے لڑکے کے لیے دین دار لڑکی کا انتخاب کریں۔ اپنی اولاد کو شادی اور رشتوں کے انتخاب کے سلسلے میں اللہ کے رسولؐ نے ہمارے معیار مقرر فرمادیا ہے کہ ’’عورت سے تین اسباب کی بنا پر شادی کی جاتی ہے: اس کے مال کے لیے،اس کے حسن وجمال کے لیے، اس کے حسب و نسب کے لیے یا اس کے دین و مذہب کے لیے۔ تم دین دار خاتون کو ترجیح دو۔‘‘ اس طرح لڑکیوں کے لیے رشتے کے انتخاب کا بھی آپؐ نے معیار بتایا ہے کہ ’’جب تمہیں کوئی ایسا شخص ملے جس کی دین داری اور اخلاق و کردار تمہیں پسند آئیں تو اس سے اپنی بیٹی کی شادی کردو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور زبردست فساد پھیل جائے گا۔‘‘
۲- گھریلو اجتماع
گھر کے افراد کا ایک اجتماع یا نشست ہونی چاہیے جس کا نگراں گھر کا بزرگ فرد ہو۔ اس میں قرآن کا کچھ حصہ پڑھا جائے اور دینی علوم کا مطالعہ کیا جائے۔ اسی طرح خاندان کے دنیوی امور و معاملات کا بھی جائزہ لیا جائے۔ اس اجتماع میں گھر کے ہر فرد کا کچھ نہ کچھ کردار رہنا چاہیے۔ مثال کے طور پر نرسری کلاس میں پڑھنے والا بچہ کوئی قصہ سنائے جو اس نے اپنی کلاس میں سنا ہو۔ اس طرح ہم اس کے اندر شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کو یہ سمجھائیں کہ وہ بھی اس اجتماع کا فعال رکن ہے۔ اس طرح ہم اس کے اندر اچھائی کو قبول کرنے کی صلاحیت اور مثبت طرز عمل پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس قسم کے اجتماعات میں بچے گفتگو اور باہم مشورہ کرنے کی صلاحیت اور قابلیت اپنے اندر پیدا کرسکیں گے کیونکہ آئندہ ان پر بھی عظیم ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں۔ یہ بہتر ہوگا کہ اگر ان گھریلو اجتماع کے لیے ایک دن مخصوص ہو اور اس میں گھر میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور خامیوں کو حل کیا جائے۔ اس خصوصی دن کے ذریعہ بیوی اور اولاد کے لیے معاشرتی، نفسیاتی و جذباتی غذا کے حصول کو یقینی بنائیں۔
داعیوں اور مصلحین امت نے اس یک روز گھریلو پارلیمنٹ کی اہمیت کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ ایک بار ایسا ہوا کہ اخوان المسلمون کے مرشد عام عمر تلمسانی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک تقریب شادی میں نکاح پڑھانے کی درخواست کی گئی لیکن انھوں نے معذرت کرلی کیونکہ وہ دن ان کے گھریلو اجتماع کا تھا۔ll
گھر کے افراد کا ایک اجتماع یا نشست ہونی چاہیے جس کا نگراں گھر کا بزرگ فرد ہو۔ اس میں قرآن کا کچھ حصہ پڑھا جائے اور دینی علوم کا مطالعہ کیا جائے۔ اسی طرح خاندان کے دنیوی امور و معاملات کا بھی جائزہ لیا جائے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021