مانسونی بارشیں کہیں باران رحمت بنیں تو کہیں باعث زحمت

کانوڑ یاترا کی نظم لکھنے والے استاد پر مقدمہ درج، جان لیوا دھمکیاں

محمد ارشد ادیب

یو پی میں اسکولوں کے انضمام کے خلاف عوام کا احتجاج، فتح پور کے اسکول میں اساتذہ بند
ایم پی میں ہندی میں ڈاکٹری پڑھانے کا تجربہ فیل کیوں ہوا؟
حاملہ خاتون کا ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل،بی جے پی لیڈر کا مضحکہ خیز جواب
شمالی ہند میں مانسون شباب پر ہے۔ بارش کہیں رحمت بن کر برس رہی ہے تو کہیں بد انتظامی کے سبب باعث زحمت بنی ہوئی ہے۔ اس بار گجرات راجستھان مدھیہ پردیش اور مشرقی اترپردیش میں معمول سے زیادہ بارش ہو چکی ہے۔ گجرات کے مہیساگر ندی پر بنا پل اچانک ٹوٹ گیا جس سے ڈیڑھ درجن افراد پانی میں بہ گئے۔ اس حادثے میں دو ٹرک دو کاریں اور ایک رکشہ بھی ندی میں گر کر تباہ ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ نے چار انجینئروں کو معطل کر دیا ہے لیکن اپوزیشن کانگریس نے مسلسل حادثات کے لیے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس لیڈر جگنیش میوانی کے مطابق ریاست میں پچھلے چار سال کے دوران 16 پل حادثے کا شکار ہو چکے ہیں اس کے لیے بی جے پی کی بدعنوان سرکار ذمہ دار ہے۔ بدعنوان افسروں اور حکومت کی ملی بھگت نے عوام کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔ اس کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ موربی پل حادثے میں 135 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد سرکار نے ریاست کے تمام پلوں کی جانچ اور آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس کے باوجود کئی ریاستوں میں حادثات کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ریاست میں 20-ٹونٹی کا کھیل چل رہا ہے یعنی 20 فیصد لیڈروں کا اور 20 فیصد افسروں کا بقیہ 60 فیصد میں ٹھیکے داروں کا جس میں ان کو کام بھی کرنا ہے اور بچت بھی کرنی ہے اسی لیے غیر معیاری کام ہو رہے ہیں جو آئے دن حادثات کا سبب بن رہے ہیں ۔
کانوڑ سے متعلق نظم پر مقدمہ درج
کانوڑ یاترا میں ہونے والی ہڑبونگ پر ہندو سماج کے روشن خیال اور حقیقت پسند افراد بھی سوالات اٹھانے لگے ہیں۔ بریلی میں بہیڑی انٹر کالج کے ایک استاد ڈاکٹر رجنیش گنگوار نے بچوں کے لیے لکھی نظم میں کانوڑ پر سوالات اٹھائے تو ان پر مقدمہ درج ہو گیا۔ اس نظم کا عنوان ہے "کانوڑ لینے مت جانا” ڈاکٹر رجنیش کے گیت کو وائرل کرنے والے انڈس نیوز ٹی وی کے ایڈیٹر آشیش آنند نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر غیر رسمی بات چیت میں بتایا کہ ڈاکٹر رجنیش کالج میں طالب علمی کے زمانے سے ہی اے بی وی پی تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی تنظیم وائرل ہوتے ہی ان پر نظم کو چینل سے ہٹانے کا دباؤ پڑنے لگا۔ ڈاکٹر رجنیش نے نظم ہٹانے کے لیے چینل سے تحریری طور پر درخواست کو چینل انتظامیہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب تو یہ سب جگہ وائرل ہو چکی ہے لہٰذا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ آشیش آنند کے مطابق اس کے بعد ڈاکٹر رجنیش کو اے بی وی پی نے تمام عہدوں سے ہٹا دیا اور ان کے کالج کے کچھ اساتذہ اور کلرکوں نے انہیں کالج سے برخاست کرنے کے لیے پرنسپل کو میمورنڈم دیا اور انہیں جان سے مارنے اور جوتے مارنے پر انعام کا اعلان کیا۔ لیکن ڈاکٹر رجنیش اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں بہیڑی تھانے میں تحریری شکایت بھی کی ہے کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے کچھ ہندتوادی شرپسند عناصر ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور انہیں سناتن دھرم کا مخالف بتا کر عوام کو اکسا رہے ہیں لیکن استاد اور ادیب ہونے کے ناطے وہ سچائی کے راستے پر ڈٹے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے ایک مسلم شناسا کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جاوید سر نے کورونا کے دوران اپنے سماج کی برائیوں پر لکھا تو ان کی بھی مخالفت ہوئی۔ اسی طرح کے عناصر ہندو اور مسلمان دونوں قوموں میں موجود ہیں۔
کانوڑ یاترا میں اکثریت پسماندہ طبقات کے نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ ان کے پاس نہ تو نوکری ہے اور نہ ہی روزگار، ایسے نوجوان سیر و تفریح کے لالچ میں نکل پڑتے ہیں۔ اس دوران کچھ بچے نشے کے بھی شکار ہو جاتے ہیں جس سے ان کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے۔ یہی سوچ کر انہوں نے بچوں کی رہنمائی کے لیے یہ نظم لکھی ہے۔ حکومت کو اس طرح کے مذہبی کاموں کا تحفظ اور فروغ کرتے وقت ان پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ جبکہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی کانوڑ یاترا کو ہندوؤں کی ایکتا کی مثال بتاتے ہوئے اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کانوڑیوں کو فسادی اور دہشت گرد لکھنے کو میڈیا ٹرائل سے تعبیر کیا اور کانوڑ یاترا کا محرم کے جلوسوں سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تعزیہ دار اپنے جلوسوں میں خوب ہڑبونگ مچاتے تھے جبکہ کانوڑ یاترا میں لوگ پرامن طریقے سے پیدل چل رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کا سوشل میڈیا میں زبردست مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ عام قارئین توڑ پھوڑ اور کانوڑیوں کی حرکتوں کے ویڈیوز، فوٹوز شئیر کرکے سوالات پوچھ رہے ہیں۔ اسی دوران پریاگ راج میں کچھ کانوڑیوں کے ذریعے مسجد کے باہر ڈی جے بجانے پر تنازعہ ہو گیا جس سے نمازیوں اور کانوڑیوں میں مار پیٹ کی نوبت آ گئی۔ اس معاملے میں پریاگرج کی گنگا پار پولیس نے ایک مقدمہ بھی درج کیا ہے۔
یو پی میں سرکاری اسکول بند ہونے پر دیہی علاقوں میں ناراضگی
یو پی میں سرکاری اسکول بند ہونے پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ضلع فتح پور کے بھٹپروا گاؤں کے باشندوں نے اسکول کو دوسرے گاؤں کے اسکول میں ضم کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اساتذہ کو اسکول میں ہی بند کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق بھٹپروا کی پرنسپل سادھنا سونی دو دیگر اساتذہ کے ساتھ اپنے اسکول کے بچوں کو نارائن پر اسکول لے جانے لگیں تو گاؤں والوں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے اسکول کے گیٹ پر قفل ڈال دیا۔ اساتذہ نے محکمہ بیسک تعلیم کے افسروں سے مدد مانگی لیکن کسی نے مدد نہیں کی۔ گاؤں والے اپنے بچوں کو پڑوس کے گاؤں میں بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہیں چاہے انہیں تعلیم ادھوری ہی کیوں نہ چھوڑنی پڑے۔ لکھنو زون کے اخباری سروے میں پتہ چلا ہے کہ ضم ہونے والے اسکولوں کے آدھے سے زیادہ طلبہ اسکولوں سے غیر حاضر ہیں، والدین اسکول دور ہونے کے سبب بچوں کو اکیلے بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کہیں بیچ میں ریلوے لائن ہے یا ہائی وے ہے کہیں ندی نالے یا دیگر جغرافیائی مسائل ہیں۔ لیکن ریاستی حکومت ان مسائل کو سمجھنے کے بجائے الٹا اساتذہ پر ہی کارروائی کر رہی ہے۔ کئی اضلاع میں 75 فیصد حاضری پوری نہ ہونے پر پرنسپلوں کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے۔ ایس سی جوشی نام کے صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سرکار کہتی ہے کہ بچے پڑھیں گے دیش بڑھے گا لیکن یو پی میں حالت شرمناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔ مرکز کی مودی سرکار بھی خاموش ہے شاید سرکار چاہتی ہے کہ دیش میں بچے بڑے ہو کر پاکھنڈی بابا بنیں، مذہبی جنون پھیلائیں اور ہندو-مسلمان کرتے رہیں۔
اسکول ضم یا بند کرنے کی پالیسی
شمالی ہند کے کئی صوبوں میں اسکولوں کو ضم کرنے کی خبریں مل رہی ہیں۔چھتیس گڑھ کانگریس کے ایک وفد نے حال ہی میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی سے ملاقات کے دوران یہ سوال اٹھایا اطلاعات کے مطابق 36 گڑھ میں دس ہزار سے زیادہ اسکولوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا گیا ہے جس کے سبب 30 ہزار سے زیادہ اساتذہ کی آسامیاں ختم ہو گئیں۔ چھتیس گڑھ ہائی کورٹ میں یہ معاملہ زیر غور ہے۔ مبصرین کے مطابق بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں کی یہ پالیسی غریب طبقات کے لیے تعلیم کی رسائی کو مشکل بنا دے گی اس پر تعلیم کی نجکاری اور آر ایس ایس سے منسلک تعلیمی اداروں جیسے سرسوتی ششو مندروں کو بڑھاوا دینے کا بھی الزام ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یو پی کے علاوہ 36 گڑھ میں 10463 مدھیہ پردیش میں 6457 آسام میں تقریباً ایک ہزار اور اوڈیشا میں ایک ہزار سے زیادہ اسکولس 2019 سے 2025 تک بند ہو چکے ہیں۔ یو پی میں مسلسل احتجاج کے بعد ضلع دیوریا میں 30 اسکولوں کو پیرنگ لسٹ سے باہر کر دیا گیا ہے یعنی فی الحال ان کا انضمام نہیں ہوگا۔ یو پی کی تین طلبہ کی جانب سے الٰہ اباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ 21 جولائی کو اس پر سماعت ہونے کی امید ہے۔
ایم پی میں ہندی میڈیم سے ڈاکٹری کا تجربہ فیل
مدھیہ پردیش میں ہندی میڈیم سے ایم بی بی ایس کرانے کا تجربہ ناکام ہو گیا ہے۔ ریاستی حکومت نے تین سال میں کتابوں پر دس کروڑ روپے خرچ کر دیے اس کے باوجود ایک بھی طالب علم نے ہندی میڈیم میں امتحان نہیں لکھا۔ اکتوبر 2016 میں وزیر داخلہ امت شاہ اور اس وقت کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے ہندی میڈیم کتابوں کی رسم میں اجرا کرتے وقت بڑے بڑے دعوے کیے تھے لیکن طلبہ کی عدم دلچسپی سے یہ تجربہ ناکام ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ مرکزی حکومت ہندی کو قومی زبان کے طور پر پورے ملک میں رائج کرنا چاہتی ہے لیکن مہاراشٹر سمیت جنوبی ہند کی کئی ریاستوں میں اس کی پرزور مخالفت ہو رہی ہے۔ ایسے میں ہندی پٹی میں اس تجربے کے ناکام ہونے سے مرکزی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
مدھیہ پردیش کے بی جے پی لیڈر کا حاملہ خاتون کو مضحکہ خیز جواب
مدھیہ پردیش کے سدی علاقے کی ایک حاملہ خاتون لیلا ساہو نے سڑک بنوانے کے لیے سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالی جس پر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ راجیش مشرا نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہم انہیں ڈلیوری سے پہلے ہی اٹھوا لیں گے۔ بعد میں انہوں نے وضاحت کی کہ ہسپتال میں داخل کرا دیں گے مگر جب تک اٹھوانے کی بات وائرل ہو گئی تھی۔ لیلا ساہو نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا "نیتا جی گاؤں میں ہم اکیلے نہیں ہیں چھ خواتین اور بھی حاملہ ہیں کس کس کو اٹھوائیں گے؟ بیمار بوڑھے بھی ہیں اسکول جانے والے بچے بھی ہیں سب کو اچھی سڑک چاہیے۔” لیلا ساہو نے اعلان کیا کہ اگر سڑک نہیں بنی تو وہ بھوک ہڑتال کریں گی۔ نتیش کمار نام کے صارف نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ لیلا ساہو کا یہ بیان صرف ایک وزیر کو نہیں بلکہ سسٹم کو آئینہ دکھاتا ہے۔ سسٹم ایسا بناؤ کہ کسی کو ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہی نہ پڑے "قومی میڈیا کے عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کے سبب سوشل میڈیا عوامی امنگوں اور مسائل کو اجاگر کرنے کا اہم ذریعہ بن رہا ہے۔ شہری علاقوں کے علاوہ اب دیہی علاقے کے عوام بھی اس کے ذریعہ اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ دیر سویر حکم رانوں کو بھی ان آوازوں پر کان دھرنے ہوں گے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025