
مالیگاؤں بم دھماکہ: بامبے ہائی کورٹ کی جانب سے این آئی اے اور بری ملزمین کو نوٹس جاری
متاثرین کے اہلِ خانہ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا
ضمیرا حمد خان، ناندیڑ
سیاسی دباؤ اور جانچ ایجنسیوں کی جانب داری پر سخت سوالات
پولیس کو سیاسی و مذہبی اثر سے آزاد کرنا وقت کی ضرورت؛ ماہرین
بامبے ہائی کورٹ نے 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکوں کے معاملے میں قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) اور بری قرار دیے گئے تمام ملزمین کو نوٹس جاری کی ہے۔ عدالت نے یہ نوٹس دھماکے میں جاں بحق ہونے والے چھ افراد کے اہلِ خانہ کی اپیل پر سماعت کے دوران جاری کی ہے۔ متاثرین کے لواحقین نے خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے جس میں سابق بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور لیفٹننٹ کرنل پرساد پروہت سمیت ساتوں ملزمین کو بری کر دیا گیا تھا۔
بتا دیں کہ 29؍ ستمبر 2008 کو مہاراشٹر کے ضلع ناسک کے مالیگاؤں میں ایک مسجد کے قریب بم دھماکہ ہوا تھا جس میں چھ افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد پرگیہ سنگھ ٹھاکر، لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت، میجر (ریٹائرڈ) رمیش اپادھیائے، اجے راہیرکر، سمیر کلکرنی، سدھاکر چترویدی اور سدھاکر دویدی پر آئی پی سی اور غیر قانونی سرگرمیاں (انسداد) قانون کے تحت قتل اور سازش کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ تاہم 31؍ جولائی کو خصوصی عدالت کے جج اے کے لاہوٹی نے سبھی کو تمام الزامات سے بری قرار دیا۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس دیو چندر شیکھر اور جسٹس گوتَم اے انکھڈ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے متاثرین کے والد، بھائی، بیٹے، چچا اور خسر کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ حکم دیا۔ اپیل گزاروں میں نثار احمد، حاجی سید بلال، شیخ لیاقت محی الدین، شیخ اسحاق شیخ یوسف، عثمان خان عین اللہ خان، مشتاق شاہ ہارون شاہ اور شیخ ابراہیم شیخ سپڈو شامل ہیں۔عدالت نے اس بات پر سوال اٹھایا تھا کہ کیا اپیل کنندگان، جو متاثرین کے قریبی رشتہ دار ہیں، ٹرائل کے دوران گواہ کے طور پر پیش ہوئے تھے؟ وکیل نے وضاحت کی کہ ایک متاثرہ خاندان کے فرد نے مقدمے میں مداخلت کار کے طور پر حصہ لیا تھا جبکہ دیگر چار سے بھی گواہی لی گئی تھی، اس لیے وہ اپیل دائر کرنے کے اہل ہیں۔ہائی کورٹ نے نوٹس ملزمین کے موجودہ پتوں پر بھجوائے جانے اور این آئی اے کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے اپیل کنندگان کے وکیل متین شیخ کو ہدایت دی کہ وہ دو ہفتوں میں متعلقہ دستاویزات جمع کرائیں اور عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر اپنے موقف کو مضبوط کریں۔ اب اس اپیل پر چھ ہفتے بعد مزید سماعت ہوگی۔اپیل میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے 31؍ جولائی کے فیصلے کو منسوخ کر کے ملزمین کو مجرم قرار دیا جائے۔ اپیل کنندگان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ "این آئی اے کو محض مقدمہ کمزور کرنے اور ملزمین کو فائدہ پہنچانے کے لیے شامل کیا گیا تھا”۔
اصولی طور پر دیکھا جائے تو اس معاملے میں ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو آگے آنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا جبکہ کچھ دنوں قبل ممبئی ٹرین بلاسٹ معاملے میں جب عدالت نے تمام ملزمین کو با عزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا تو جس دن یہ فیصلہ آیا اسی دن ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر دی۔اتنی عجلت میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی وجہ اس کے سوا اور کیا یہ ہے کہ اس میں ملزم بنائے گئے افراد مسلمان ہیں اور مالیگاؤں بم دھماکہ 2008 معاملے میں باعزت کیے گئے ملزمین ہندو ہیں؟ اس لیے ان کے خلاف اوپری عدالت میں جانے کی ضرورت نہیں! اب اس معاملے میں بم دھماکہ متاثرین نے پہل کرتے ہوئے جمعیتہ علماء لیگل ٹیم کی رہنمائی میں ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور عدالت نے اس معاملے میں تمام فریقین کو نوٹس بھی جاری کی ہے اور چھ ہفتوں کے دوران انہیں اپنا جواب داخل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ وہیں دوسری طرف جیسے ہی مالیگاؤں بم دھماکہ معاملے میں عدالت کا فیصلہ آیا مختلف حلقوں میں جانچ ایجنسیوں کی کارکردگی پر تنقیدیں ہونے لگی۔ مہاراشٹر کے ایک نامور مراٹھی اخبار لوک ستا میں اس حوالے سے حال ہی میں ایک اہم مضمون شائع ہواہے جس میں مضمون نگار میرن چڈابورنکر نے کہا کہ 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکہ مقدمے کا حالیہ عدالتی فیصلہ اور اس پر اٹھنے والے سوالات نے ایک بار پھر یہ تلخ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ بھارت میں پولیس فورس کو سیاسی دباؤ سے آزاد اور خود مختار بنانے کی شدید ضرورت ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں پولیس فورس کا جو کردار ہونا چاہیے تھا وہ بتدریج کمزور ہوا ہے۔ اعلیٰ سطح پر سیاسی قیادت اپنی مرضی کے افسران کو تقرریاں اور تبادلے دے کر پورے نظام کو اپنے تابع کر لیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پولیس افسران انصاف اور قانون کی بالادستی کے بجائے سیاسی احکامات پر عمل درآمد کرنے لگتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف عدالتی کارروائیوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ سنگین مقدمات میں اصل حقائق کو مسخ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔مالیگاؤں بم دھماکے کی تفتیش کرنے والے افسر ہیمَنت کرکرے جیسے ایماندار اور سخت گیر افسر بھی اس قدر سیاسی دباؤ کا شکار ہوئے کہ وہ اپنی بے بسی کا اظہار سینئر ریٹائرڈ پولیس افسر جولیو ریبیرو کے سامنے کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان پر دہلی سے آنے والے سیاسی دباؤ کا ذکر آج بھی انصاف پسند طبقات کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ بعد ازاں، جب کیس نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) کو منتقل ہوا تو کئی اہم شواہد غائب کر دیے گئے، بعض گواہوں کو منحرف کر لیا گیا اور خصوصی سرکاری وکیل روہنی سالیان پر مقدمہ "ہلکا لینے” کا دباؤ ڈالا گیا۔یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب سیاسی طاقت اور فرقہ وارانہ سوچ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حاوی ہو جاتی ہے تو انصاف کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔سپریم کورٹ نے پہلے ہی اپنے کئی فیصلوں میں یہ واضح کیا ہے کہ پولیس فورس میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ خاص طور پر پولیس افسران کی تقرریاں صرف میرٹ اور ایک بااختیار "اسٹیبلشمنٹ بورڈ” کے ذریعے ہونی چاہئیں تاکہ سیاسی مداخلت ختم ہو سکے۔ لیکن افسوس کہ مختلف ریاستوں کی حکومتیں محض دکھاوے کے لیے ان اصلاحات پر اتفاق تو کرتی ہیں مگر عملی طور پر انہیں نافذ نہیں کرتیں۔پولیس اور تحقیقاتی اداروں میں سیاسی اثر کے ساتھ ساتھ مذہبی اور فرقہ وارانہ نظریات کے داخل ہونے کا خدشہ بھی سنگین ہے۔ اگر ایک ایسا ادارہ جو پورے ملک کی حفاظت اور انصاف کا ضامن ہے، مذہبی تعصبات سے متاثر ہو جائے تو پھر اس سے عام شہریوں کو غیر جانبدار تحفظ ملنے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ رجحان نہ صرف قانون کی حکم رانی کے خلاف ہے بلکہ ملک کی کثرتِ رنگی اور جمہوری اقدار کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔
مالیگاؤں کا مقدمہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ صرف عدالتیں یا صرف پولیس افسران ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اس مسئلے کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ پولیس فورس کو سیاسی و مذہبی دباؤ سے آزاد کرنا، اس کی تقرریوں کو شفاف بنانا اور آئین کی پاسداری کو اولین ترجیح دینا آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر انصاف کے بجائے طاقت اور تعصب کا کھیل جاری رہے گا جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 ستمبر تا 04 اکتوبر 2025