’’لو جہاد‘‘: سپریم کورٹ میں اترپردیش کے نئے آرڈیننس کے خلاف درخواست دائر، درخواست گزار کے مطابق یہ آرڈیننس انتشار اور خوف کا باعث بنے گا
نئی دہلی، دسمبر 3: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق آج سپریم کورٹ میں شادی کے لیے مذہبی تبادلوں کو جرم قرار دینے والے اترپردیش حکومت کے آرڈیننس کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ وکلا وشال ٹھاکر اور ابھے سنگھ یادو اور لاء کے ایک محقق پرنویش کے ذریعہ دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس عوامی پالیسی اور لوگوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ اس آرڈیننس کا غلط استعمال کرکے لوگوں کو جھوٹے طور پر پھنسایا جائے گا اور یہ انتشار اور خوف کا باعث بنے گا۔
درخواست میں کہا گیاہے ’’یہ آرڈیننس معاشرے کے برے عناصر کے ذریعے کسی کو بھی جھوٹے طور پر پھنسانے کا ایک مضبوط ذریعہ بن سکتا ہے اور ایسے افراد کو جھوٹے طور پر پھنسانے کے امکانات ہیں جو اس قسم کے کاموں میں ملوث نہیں ہیں اور اس کے نتیجے میں سنگین ناانصافی ہوگی۔‘‘
درخواست گزاروں نے اتراکھنڈ حکومت کے ذریعے 2018 میں منظور کیے گئے اسی طرح کے قانون پر بھی سوال اٹھایا ہے۔
واضح رہے کہ آدتیہ ناتھ کی زیرقیادت ریاستی کابینہ کے ذریعے منظور کیے جانے کے کچھ دن بعد ہی اس آرڈیننس کو اتر پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل نے 28 نومبر کو نافذ کر دیا تھا۔ اس کے گھنٹوں بعد ہی پولیس نے ریاست کے بریلی ضلع میں ایک مسلمان شخص کے خلاف اس کے تحت پہلا مقدمہ درج کرلیا اور ملزم اویس احمد کو بدھ کے روز گرفتار کرکے 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔
واضح رہے کہ ’’لو جہاد‘‘ (Love Jihad) ایک سازشی تھیوری ہے جو دائیں بازو کی جماعتیں استعمال کرتی ہیں اور اس کے تحت مسلم مردوں پر شادی کے نام پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگاتی ہیں۔ اترپردیش کے علاوہ بی جے پی کے زیر اقتدار چار دیگر ریاستوں نے بھی بین المذاہب شادی کو روکنے کے لیے ایسے قوانین متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم مرکز نے فروری میں لوک سبھا کو بتایا تھا کہ مرکزی ایجنسیوں میں سے کسی میں بھی "لو جہاد” کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے۔ قومی تفتیشی ایجنسی، کرناٹک کے فوجداری تفتیشی محکمہ، اترپردیش کی خصوصی انوسٹی گیشن ٹیم اور دیگر کی تحقیقات میں اس مبینہ سازش کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ خواتین کے قومی کمیشن کے پاس بھی "لو جہاد” کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہے۔