’’لو جہاد‘‘: الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی میں نئے مذہبی تبدیلی قانون کے تحت ایک شخص کی گرفتاری پر روک لگادی، رازداری کے حق کا حوالہ دیا

اترپردیش، دسمبر 19: الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاست کے نئے مذہبی تبدیلی قانون یا ’’لو جہاد ‘‘ (Love Jihad) مخالف قانون کے تحت اترپردیش کے مظفر نگر شہر کے ایک شخص کی گرفتاری پر جمعہ کو روک لگادی۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ جوڑا ’’رازداری کا بنیادی حق‘‘ رکھنے والا اور بالغ تھا۔

32 سالہ ندیم اور اس کے بھائی سلمان کو اس معاملے میں ایک خاتون کے شوہر اکشے کمار تیاگی کے ذریعے دائر ایک شکایت میں نامزد کیا گیا تھا۔ یہ دونوں نئے قانون کے تحت مقدمے میں نامزد ہونے والے اولین لوگوں میں سے تھے۔

تیاگی نے ندیم پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس کی بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اسے مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ اس نے الزام لگایا تھا کہ ندیم اس کے گھر بار بار آتا تھا اور اس کی بیوی کو منانے کے لیے ایک اسمارٹ فون تحفے میں دے چکا تھا۔

اس شکایت کے بعد ندیم پر مختلف الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں اترپردیش کے نئے تبدیلی مذہب مخالف آرڈیننس 2020 کی شق 3/5 بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ آدتیہ ناتھ حکومت نے گذشتہ ماہ منظور کیے جانے والے اس قانون کا مقصد ’’لو جہاد‘‘ سے نمٹنا بتایا ہے۔

’’لو جہاد‘‘ ہندوتوا کارکنوں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی ایک من گھڑت اصطلاح ہے، جس کے تحت وہ مسلم مردوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ شادی کے نام پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔

تاہم ندیم کو اس معاملے میں گرفتار نہیں کیا گیا تھا اور اس نے ایف آئی آر کو ختم کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔

جمعہ کو اس درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس پنکج نقوی اور وویک اگروال کے بنچ نے نوٹ کیا کہ متعلقہ خاتون ایک بالغ خاتون ہے جو ’’اپنی خیریت کو سمجھتی ہے۔‘‘ عدالت نے ندیم کے خلاف 7 جنوری تک کسی بھی طرح کی سخت کارروائی نہ کرنے کا حکم بھی دیا، جب معاملے کی اگلی سماعت ہوگی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق عدالت نے کہا ’’خاتون کے ساتھ ساتھ درخواست گزار کو رازداری اور بالغ ہونے سے متعلق حقوق حاصل ہیں… ان کے مبینہ تعلقات کے نتائج سے وہ بخوبی واقف ہیں۔‘‘

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس عورت کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور یہ الزامات ’’شکوک و شبہات کی بنیاد‘‘ پر ہیں۔

شہریوں کے بنیادی حقوق پر روشنی ڈالتے ہوئے عدالت نے کہا ’’آرٹیکل 25 یہ بیان کرتا ہے کہ تمام افراد ضمیر کی آزادی اور مذہب پر پابندی، عمل اور تبلیغ کے آزادانہ حقوق رکھتے ہیں۔‘‘

دریں اثنا ایک علاحدہ معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے بنچ نے جمعہ کو اترپردیش حکومت کے نئے قانون کو چیلینج کرنے والی درخواستوں پر حکومت کو جوابی حلف نامے داخل کرنے کو کہا۔

درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ یہ قانون آرٹیکل 14 (مساوات کا حق)، 15 (مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک وغیرہ)، 21 (زندگی کا حق) اور 25 (ذاتی آزادی) کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس معاملے میں اگلی سماعت 7 جنوری کو ہوگی، جب کہ آدتیہ ناتھ حکومت سے 4 جنوری تک اپنا جواب داخل کرنے کو کہا گیا ہے۔