مہاتما گاندھی کے مقبرے پر کیا گیا شہریت ترمیمی قانون کے خلاف خاموش احتجاج
نئی دہلی، دسمبر 21- ہفتہ کی صبح مہاتما گاندھی کے مقبرے راج گھاٹ پر طلبا، ماہرین تعلیم اور سماجی رہنماؤں سمیت متعدد افراد جمع ہوئے اور متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اور مظاہرین پر پولیس کارروائی کے خلاف خاموش احتجاج کیا اور اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
راج گھاٹ پر خاموش احتجاج میں حصہ لینے والے نامور افراد میں انسانی حقوق کے کارکن روی نائر اور چارو لتا، دلت دانشور اشوک بھارتیہ، پونے سے سرگرم کارکن ایوش جین، مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد، جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر اور جماعت کے سکریٹریز ملک معتصم خان اور مجتبیٰ فاروق شامل تھے۔
نئے شہری قانون اور این آر سی پر سوال اٹھاتے ہوئے روی نائر نے کہا: ”لوگوں کے پاس راشن کارڈ، آدھار کارڈ اور انتخابی کارڈ موجود ہیں۔ حکومت کتنے اور کارڈ بنانا چاہتی ہے؟ لوگ جانتے ہیں کہ انھیں قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا اور وکلا پر ہزاروں روپے خرچ کرنے ہوں گے۔ عوام بیدار ہیں لیکن حکومت اور آر ایس ایس لوگوں کو گمراہ کررہی ہے۔‘‘
جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر نے کہا: ’’قانون امتیازی سلوک ہے۔ حکومت نفرت کی سیاست کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ ہندوستان کو ناتھورام گوڈسے کے راستے پر گامزن کرنا چاہتی ہے۔ ہم انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے اور اسی وجہ سے ہم مہاتما گاندھی کے مقبرے راج گھاٹ پر جمع ہوئے ہیں۔ ہم بتانا چاہتے ہیں کہ یہ گاندھی اور آئین کا ہندوستان ہے اور ہم اسے گوڈسے کا ہندوستان نہیں بننے دے سکتے ہیں۔‘‘
مسلم مجسل مشاورت کے صدر نوید حامد نے حکومت سے گھمنڈ چھوڑنے اور قانون واپس لینے کی اپیل کی۔ جمعرات اور جمعہ کو لکھنؤ میں پرتشدد شکل اختیار کرنے والے متنازعہ قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج پر یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے تبصرے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا: "حکومت کو تکبر اور سختی ترک کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کو واپس نہیں لیں گے، یہ ان کے تکبر کا واضح ثبوت ہے۔ حکومتیں اس طرح نہیں چلتیں۔ وزیر اعلی کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مظاہرین سے انتقام لیں گے۔ یہ شرمناک ہے”۔
جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ملک معتصم خان نے کہا: "حکومت کو لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔ لوگوں نے اسے صحیح طور پر سمجھا ہے کہ سی اے اے آئین کی روح کے منافی ہے، یہ تفرقہ انگیز ہے اور انسانیت کی نہیں مذہب کی بنیاد پر شہریت دیتا ہے۔‘‘
دلت رہنما اشوک بھارتیہ نے کہا: "سی اے اے اور این آر سی کے ذریعے حکومت اور حکمران جماعت آئین اور آزادی جدوجہد کی اقدار پر حملہ کررہی ہے۔ کیونکہ انھوں نے (بی جے پی / آر ایس ایس کے لوگوں) نے کبھی بھی جدوجہد آزادی میں حصہ نہیں لیا ، لہذا آزادی کی جدوجہد کی اقدار ان کے سینے کو تکلیف دیتی ہیں۔ وہ آزادی کی جدوجہد کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے جو فرقہ واریت اور مذاہب سے بالاتر تھا کیونکہ معاشرے کے تمام طبقات نے اس میں حصہ لیا تھا۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر آج گاندھی ان کے پاس ہوتے تو وہ کیا کرتے، انھوں نے کہا: "چاہے وہ راجگھاٹ، سمتا استھل، پارلیمنٹ ہو یا جنتر منتر، جہاں بھی آئین کی روح کے تحفظ کے لیے احتجاج ہوگا، ہم وہاں ہوں گے۔ اگر گاندھی آج یہاں ہوتے تو وہ بھی اپنی لاٹھی لے کر ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے۔‘‘
پونے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کارکن آیوش جین نے بتایا کہ وہ پونے سے صرف اس قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے آئے ہیں جو لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتا ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے 10 دنوں میں متنازعہ قانون کے خلاف دہلی سمیت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں، جن میں کچھ احتجاج پرتشدد ہوگئے تھے۔ دہلی میں بھی اس دوران بڑے مظاہرے کیے گئے۔ جمعہ کے روز ہی ہزاروں افراد نے نماز جمعہ کے فورا بعد جامع مسجد سے احتجاجی مارچ نکالا تھا۔ جامعہ ملیہ کے طلبا بھی اس معاملے پر سراپا احتجاج ہیں۔