قرآن کی بیانیہ تکنیک
کلام الٰہی کا انداز بیاں اور تکنیک دنیا میں لکھی جانے والی تمام تحریروں اور غیر آسمانی کتابوں سے مختلف ہے
ابو فہد ندوی
بیشتر افسانے، کہانیاں اور ناول صیغۂ واحد غائب، یعنی غائب راوی کے توسط سے لکھے جاتے ہیں۔ بیانیے کی اس تکنیک میں غائب راوی ایک خارجی وجود کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ جسے تھرڈ پرسن (Third Person) کہا جاتا ہے۔ متن میں غائب راوی کی مداخلت اچھی نہیں سمجھی جاتی، پھر بھی کئی مصنفین ایسا کرتے ہیں کہ وہ خواہی نہ خواہی کسی نہ کسی موڑ پر آکر خود کو بیانیے میں ظاہر کر دیتے ہیں اور قاری اِس غیر مانوس مداخلت سے چونک پڑتا ہے۔
واحد غائب کے صیغے میں لکھے جانے والے ناول اور افسانوں میں راوی اپنی موجودگی کو ظاہر نہیں کرتا اور پھر بھی ناول، افسانے اور کہانی کے تمام کرداروں کی دیوار اور پردے کے پیچھے کی زندگی بھی بیان کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے خواب اور تمناؤں کو بھی بیانیے میں شامل کرتا ہے۔ اسی لیے اسے ہمہ داں راوی کا خطاب دیا جاتا ہے، گویا وہ کوئی غیب داں فرشتہ ہے جو کرداروں کی خلوت و جلوت کے تمام واقعات و حوادث کا چشم دید گواہ ہے۔
اس کے برعکس اگر کوئی کہانی، افسانہ یا ناول صیغۂ واحد متکلم، یعنی حاضر راوی کے توسط سے لکھا جائے تو اس صورت میں چونکہ قلم کار خود ہی مرکزی کردار بن جاتا ہے تو وہ کرداروں حوالے سے ان کے تخلیے کی زندگی کے تمام وقوعوں کو بیان کرنے کا صحیح معنی میں مجاز ٹھہرتا ہے۔
افسانوی ادب میں کردار، پلاٹ اور بیانیہ سب کچھ فرضی، تخیلی یا علامتی ہوتا ہے تاہم وہ بے بنیاد نہیں ہوتا، اس میں کئی طرح کی معاشرتی اور نفسیاتی حقیقتیں شامل ہوتی ہیں، وہ ہواہوائی ٹائپ کا مواد نہیں ہے، اسی لیے افسانوی بیانیے کے وقوعوں اور راوی کے متخیّلہ اظہاریوں کے درمیان بھی علت و معلول کے رشتے استوار رکھنے ہوتے ہیں۔
افسانوی ادب کے برعکس قرآن کا بیانیہ واشگاف حقائق پر مبنی بیانیہ ہے، وہ نہ تو تخیلی ہے اور نہ ہی علامتی۔ قرآن ایسی ہستی کا کلام ہے جو زمانوں کی مختلف جہتوں سے بھی ماوراء ہے، اور اسی لیے ایسا ہے کہ قرآن کا بیانیہ تینوں زمانوں کو محیط ہے۔ اس میں ماضی و حاضر بھی ہے اور مستقبل بھی۔ قرآن کا بیانیہ زمانہ حاضر کے حوالے سے جتنا باوثوق اور قابل اعتماد ہے اتنا ہی ماضی اور حال کے حوالے سے بھی قابل اعتماد اور باوثوق ہے۔
قرآن کے بیانیے میں صاحب کلام متکلم کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے، تاہم اس کے ظہور کا پیرایہ تنوع کا حامل ہے۔ قرآن کے بیانیے میں وہ عموما فرسٹ پرسن کے طور پر دکھائی دیتا ہے اور کہیں کہیں تھرڈ پرسن کے طور پر بھی۔ پھر فرسٹ پرسن کی حیثیت سے بھی وہ کبھی واحد متکلم کے صیغے کے توسط سے کلام کرتا ہوا نظر آتا ہے اور کبھی جمع متکلم کے صیغے کے توسط سے۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض آیات واحد متکلم کے صیغے سے شروع ہوتی ہیں اور جمع متکلم کے صیغے پر ختم ہوتی ہیں اور اسی طرح اس کے برعکس بھی۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ قرآن کے بیانیے کی تکنیک میں تنوع ہے۔
قرآن کے بیانیے میں اس طرح کا کوئی راوی (Narrator)نہیں ہے جس طرح کے راوی احادیث کے بیانیے میں ہوتے ہیں اور ادبی وصحافتی تحریروں میں ایک راوی ہوتا ہے۔ قرآن کا بیانیہ اللہ کی ذات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ نبی (ﷺ) تک من وعن پہنچا ہے، یعنی جس فارم میں اللہ کی ذات سے اس کا ظہور ہوا اسی فارم میں من وعن نبی (ﷺ) تک پہنچا، پھر نبی (ﷺ) سے صحابہ کرام تک بھی اسی فارم میں پہنچا اور پھر اسی فارم میں اسے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ نبی (ﷺ) نے اللہ سے کلام اخذ کرکے اسے بالواسطہ خطاب (indirect Speech) بنا کر بیان کیا ہو۔ مثلا ’’اے مؤمنو سنو! اللہ یوں فرماتا ہے، اللہ نے تمہارے لیے یہ حکم نازل کیا ہے کہ نماز پڑھو اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘ قرآن کا بیانیہ اس طرح کا نہیں ہے، جبکہ احادیث کا بیانیہ اسی طرح کا ہے، اس میں ایک راوی ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے یوں فرمایا ہے، میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے یا میں نے فلاں کام اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ قرآن کا بیانیہ اللہ رب العالمین کی ذات سے جس طرح معرض اظہار میں آیا اسی طرح من وعن محفوظ کیا گیا ہے، نہ معنوی سطح پر اس میں کچھ کمی بیشی ہوئی ہے اور نہ ہی لفظی سطح پر کچھ حذف واضافہ ہوا ہے۔ قرآن کے بیانیے کے حوالے سے اگر کسی نوعیت کا کوئی اختلاف کہیں ہے تو وہ تفہیم کا ہے، کہ مسلمانوں نے اس کے ایک ہی متن میں مختلف معنیٰ نکالے ہیں، مگر ایسا بھی قرآن کے غالب حصے کے ساتھ نہیں ہوا۔
قرآن کے بیانیے میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرسٹ پرسن کے بجائے اگر بظاہر تھرڈ پرسن کے طور پر نظرآتا ہے تو وہ اس وجہ سے ہے کہ قرآن کا قاری متنِ قرآن میں موجود لفظِ ’قل‘ کے توارد کی نوعیت اور معنویت کا ادارک نہیں رکھتا۔ سورہ فاتحہ کی پہلی آیت ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ اور اس جیسی دیگر آیات میں بظاہر یہ احساس ہوتا ہے کہ ’الحمدللہ رب العالمین‘ کہنے والا تو انسان ہے نہ کہ خود اللہ؟ کیونکہ یہ اس طرح تو نہیں ہے کہ ’’میں اللہ ہوں، تمام جہانوں کا رب اور تمام تعریفیں میرے لیے ہی خاص ہیں‘‘ یعنی یہ بیانیہ واحد متکلم یا جمع متکلم کے صیغے میں تو نہیں ہے؟ تو پھر یہ اللہ کا کلام کیسے ہوا؟ یہ سوال بظاہر قرآن کے بیانیے پر قائم ہوتا ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے پیچھے ’قل‘ کی عمل داری ہے، جو کہ قرآن کے بیانیے میں کہیں ظاہر ہوتا ہے اور کہیں محذوف ہوتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو اور نبی کے توسط سے انسانوں کو سکھایا ہے کہ میری تعریف اس طرح کرو اور مجھ سے یوں مانگو اور یوں کہا کرو: ’الحمد للہ رب العالمین‘۔ اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ قرآن کی کئی دیگر آیات میں خود ’الحمد للہ‘‘ سے پہلے بھی لفظ ’قل‘ موجود ہے۔ سورہ اسراء میں ارشاد ہے: وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ ﴿١١١﴾ ترجمہ: ’’اے نبی! ان سے کہو کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے لیے کوئی بیٹا نہیں رکھا اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔۔‘‘
مذکورہ اعتراض وقتاً فوقتاً اٹھایا جاتا رہا ہے کہ قرآن کے بیانیے میں اللہ فرسٹ پرسن کے طور پر موجود کیوں نہیں ہے؟ یا یہ کہ قرآن کی بیانیہ تکنیک تھرڈ پرسن یعنی غائب راوی کے ذریعہ کیوں معرض وجود میں آئی ہے جس طرح غیر حقیقی بیانیوں ناول، افسانوں اور لوک کہانیوں میں ہوتا ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ متن قرآن میں اللہ ہمیشہ تھرڈ پرسن نہیں ہے بلکہ بہت سے مقامات پر وہ فرسٹ پرسن بھی ہے۔ چند آیات ملاحظہ کریں:
وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ ﴿الحجر: ٢٣﴾
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ
﴿الأعراف: ١١﴾
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴿المؤمنون: ١١٥﴾
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿الحجر: ٢٦﴾
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ ﴿طه: ٥٥﴾
نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ﴿الكهف: ١٣﴾
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَـٰذَا الْقُرْآنَ
﴿يوسف: ٣﴾
اس طرح کی بہت سی آیات ہیں جن میں اللہ جمع متکلم کے صیغے میں فرسٹ پرسن کے طور پر کلام کر رہا ہے اور بعض مقامات پر واحد متکلم کا صیغہ بھی استعمال ہوا ہے جیسے: ’’إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي‘‘ ﴿طه: ١٤﴾ اور’’ قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ‘‘ ﴿طه: ٤٦﴾
اور دوسرا جواب وہی ’قل‘ والا ہے کہ متن قرآن میں لفظ قل محذوف ہے، اور اس محذوف کی علامت کے طور پر کہیں کہیں لفظ ’قل‘ کو ظاہر کرکے لکھا بھی گیا ہے، مثال اوپر گزر چکی ہے۔ سورہ فاتحہ کی پہلی آیت الحمد للہ رب العالمین سے پہلے ’’قولوا‘‘ محذوف مانا گیا ہے۔ تفسیر بغوی میں ہے: قوله: ’’الحمد لله‘‘لفظه خبر كأنه يخبر أن المستحق للحمد هو الله عز وجل وفيه تعليم الخلق تقديره قولوا الحمد لله ‘‘(تفسیرالبغوی)
احادیث کے بیانیے میں راوی ہیں اور بعض احادیث میں کئی کئی راوی ہیں، فلاں نے فلاں سے سنا اور فلاں نے فلاں سے مگر قرآن کے بیانیے میں واسطے کے طور پر کوئی راوی نہیں ہے۔ قرآن کو احادیث کی طرح جمع نہیں کیا گیا۔ قرآن کو ڈائریکٹ فارم میں جمع کیا گیا ہے۔
مثلا آیت نازل ہوتی ہے: ’’قل ھو اللہ احد، اللہ الصمد‘‘ ترجمہ: ’’اے نبی! لوگوں کو آگاہ کردو کہ اللہ ایک ہے، اور وہ بے نیاز ہے‘‘ تو جب نبی (ﷺ) نے اس آیت کو صحابہ کرام کو سنایا تو اس میں سے ’قل‘ کو حذف نہیں کیا۔ حالانکہ ’قل‘ سے نبی (ﷺ) کو خطاب کیا گیا ہے، پھر جب نبی (ﷺ) لوگوں کو سنا رہے ہیں تو وہ خود کو درمیان میں نہیں لا رہے ہیں، حالانکہ لا سکتے تھے۔ نہ جبرئیل امین خود کو درمیان میں لائے اور نہ نبی (ﷺ) اور نہ صحابہ کرام۔ قرآن کی آیتیں لکھے جانے تک تین یا دو واسطے تو درمیان میں آ ہی گئے مگر قرآن کے متن میں مذکور ایک واسطہ بھی نہیں ہے۔
اس وضاحت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کی جمع و ترتیب کا پیٹرن احادیث کی جمع وترتیب کے پیٹرن سے کتنا مختلف ہے۔اسی سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کا تحریری انداز یا بیانیہ تکنیک دنیا میں لکھی جانے والی تمام غیر آسمانی کتابوں سے مختلف ہے۔ قرآن کے بیانیے میں کلام اللہ کے علاوہ کچھ نہیں، حتی کہ پہلے، دوسرے اور تیسرے سامع کا اپنا بھی کوئی لفظ نہیں۔ قرآن کے متن میں باہر سے نہ ایک حرف داخل ہوا اور نہ ہی کوئی ایک حرف متن سے باہر ہوا۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ قرآنی بیانیے میں اللہ فرسٹ پرسن کے طور پر دو طرح سے ظاہر ہوتا ہے۔ اول واحد متکلم اور جمع متکلم کے صیغوں کے ذریعے اور دوسرے اپنے تین معروف اسماء (اللہ، رب اور رحمان) کے ذریعے۔
سورہ یوسف کی درج ذیل آیات دیکھیں، دوسری اور تیسری آیات میں، اللہ جمع متکلم کے صیغے میں کلام کر رہا ہے: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴿٢﴾ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ ﴿٣﴾
آگے چل کر اکیسویں آیت کے پہلے حصے میں ’’ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا ‘‘ میں جمع متکلم کا صیغہ ہے، پھر بائیسویں آیت میں میں ’’آتَيْنَاهُ‘‘ اور ’’نَجْزِي‘‘ موجود ہیں، مگر درمیان میں صیغے کا استعمال نہ کرکے اسم اعظم ’’اللہ‘‘ آجاتا ہے۔ ’’وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ‘‘۔ دونوں آیات پر غور کریں:
وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٢١﴾ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٢﴾
ان آیات میں اور ان جیسی دیگر آیات میں صاحب کلام اپنی ذات کو یا کلام کی طرف اپنی نسبت کو اسم ضمیر سے ظاہر نہ کرکے اپنے نام یعنی اسم علم سے ظاہر کر رہا ہے۔ اور یہ اسلوب یا تکنیک دنیا کی سب زبانوں میں عام ہے۔ مثلا آپ کا نام بادشاہ ہے، آپ مجمع میں بیٹھے ہوئے ہیں، وہاں آپ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کی جاتی ہے تو آپ کہتے ہیں:’’بادشاہ جھوٹ نہیں بولتا‘‘ آپ نے اپنے لیے ضمیر ’میں‘ استعمال نہ کر کے اپنے نام ’بادشاہ‘ کو استعمال کیا۔ یعنی آپ نے یہ نہیں کہا کہ ’’میں جھوٹ نہیں بولتا‘ بلکہ یوں کہا کہ ’’بادشاہ جھوٹ نہیں بولتا‘۔ اس طرح کا اسلوب دنیا کی ہر زبان میں عام ہے۔ تو قرآن میں جو اس طرح کا بیانیہ ملتا ہے جس میں اللہ تھرڈ پرسن کے طور پر دکھائی دیتا ہے جیسے: ’’اللہ لا الٰہ الا ھو الحی القیوم۔۔‘‘ اس سے لوگوں کو دھوکہ ہوتا ہے کہ اس کلام کا جو قائل یا متکلم ہے وہ تو تھرڈ پرسن ہے، مگر فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے لیے ضمیر کا استعمال نہ کر کے اپنے اسماء کا استعمال کیا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023