فلم ’’پُھلے‘‘ کے گرد تنازعہ کا تجزیہ

سماجی حساسیت، سنسرشپ اور تاریخی سچائی

0

شاہجہاں مخدوم (سینئر صحافی، ممبئی)

تنازعے نے سماجی تبدیلی کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے
فلم ’’ پُھلے‘‘ جو مہاتما جوتی راؤ پُھلے اور ساوتری بائی پُھلے کی انقلابی زندگیوں پر مبنی ہے اپنی طے شدہ ریلیز سے پہلے ہی تنازعات کی زد میں آ چکی ہے۔ اننت مہادیون کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں پرتیک گاندھی اور پترلیکھا مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔ فلم خواتین کی تعلیم، ذات پات کے امتیاز کے خاتمے اور سماجی مساوات کی جدوجہد کو اجاگر کرتی ہے۔ تاہم، اس کے ٹریلر اور چند مناظر نے سماجی، ثقافتی اور سیاسی حلقوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔ یہ تجزیہ فلم ’ ’ پُھلے‘‘ کے گرد پیدا ہونے والے تنازعے کی گہرائی میں اترتا ہے اور سماجی حساسیت، تاریخی سچائی اور سنسرشپ کے باہمی تعامل کا جائزہ لیتا ہے۔
تنازعے کی جڑ: ٹریلر اور اعتراضات فلم ’’ پُھلے‘‘ کا ٹریلر مہاتما پھلے کے کٹھن سفر اور 19ویں صدی کے ہندوستان میں ذات پات، چھوت چھات اور خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی جیسے سماجی مسائل کو مرکز بناتا ہے۔ ایک خاص منظر، جس میں ایک برہمن لڑکا ساوتری بائی پھلے پر گوبر اور پتھر پھینکتا ہے، برہمن مہا سنگھ کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنا۔ تنظیم کے رہنما آنند دیو نے الزام عائد کیا کہ فلم ذات پات کی بنیاد پر کشیدگی کو ہوا دیتی ہے اور برہمن برادری کو پھلے جوڑے پر ہونے والے مظالم کا واحد ذمہ دار ٹھیراتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فلم میں ان برہمن افراد کی حمایت کو بھی اجاگر کیا جائے جنہوں نے پھلے جوڑے کا ساتھ دیا، تاکہ ایک زیادہ متوازن بیانیہ سامنے آ سکے۔ انہی اعتراضات کے سبب فلم کی ابتدائی ریلیز کی تاریخ یعنی 11 اپریل 2025 (جو مہاتما پھلے کی سالگرہ ہے) مؤخر کر کے 25 اپریل کر دی گئی۔
سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (CBFC) نے تقریباً 12 مناظر کو حذف یا تبدیل کرنے کا حکم دیا، جن میں ’’شودر‘‘، ’’مانگ‘‘، ’’مہار‘‘ جیسے ذات سے متعلق الفاظ اور ساوتری بائی پھلے پر گوبر پھینکنے کا منظر شامل تھا۔ اس فیصلے نے سماجی کارکنوں، سیاسی قائدین اور فلم سازوں میں غم و غصہ کو جنم دیا۔ ونچت بہوجن اگھاڑی کے رہنما پرکاش امبیڈکر نے CBFC کے دفتر کے باہر احتجاج کی دھمکی دی، جبکہ ہدایت کار اننت مہادیون نے بورڈ کی تبدیلیوں کو ’’بے معنی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلے معاشرے کی حد سے زیادہ حساسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
تاریخی سچائی اور فلمی آزادی مہاتما پھلے نے ذات پات، چھوت چھات اور سماجی ناہمواری کو براہ راست چیلنج کیا۔ ان کی کوششیں شودر اور اتی شودر برادریوں کو بااختیار بنانے اور خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے تھیں، جنہوں نے اس وقت کے بالادست طبقات کی اجارہ داری کو چیلنج کیا۔ اُن کے اہم کام، جیسے ’’گُلاگِری‘‘ اور ’’سروجنک ستیہ دھرم‘‘، سماجی استحصال کی جڑوں کا گہرا تجزیہ کرتے ہیں اور انقلابی خیالات پیش کرتے ہیں۔ فلم ’’پھلے‘‘ اسی تاریخی سچائی پر مبنی ہے، تاہم بیانیہ کو مؤثر بنانے کے لیے سنیمائی آزادی کا سہارا لیا گیا ہے۔
ساوتری بائی پھلے پر گوبر پھینکنے والا منظر تاریخی اعتبار سے درست ہے، جیسا کہ کئی مؤرخین اور پھلے خاندان کی نسلوں نے تصدیق کی ہے۔ جب ساوتری بائی پھلے نے لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کیے تو انہیں قدامت پسند حلقوں کی طرف سے شدید مخالفت اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ نیلو پھلے کی بیٹی اور پھلے خاندان کی وارث، سینئر اداکارہ گرگی پھلے نے کہا، ’’سچائی کو بدلا نہیں جا سکتا، اور بیانیے کے لیے ایسے مناظر کو حذف کرنا غلط ہے۔‘‘ برہمن مہا سنگھ کا مؤقف ہے کہ ایسے مناظر ایک مخصوص برادری کو نشانہ بناتے ہیں، جو معاشرتی کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں۔
ہدایت کار اننت مہادیون نے وضاحت کی کہ فلم مستند تاریخی دستاویزات اور کتابوں پر مبنی ہے اور اس کا مقصد کسی بھی برادری کے خلاف نفرت پھیلانا نہیں بلکہ پھلے جوڑے کی ہم آہنگ اور انقلابی شخصیت کو اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹریلر کی بنیاد پر قبل از وقت رائے قائم کرنے سے ہی تنازعے نے جنم لیا۔
سماجی حساسیت اور سنسرشپ
فلم ’’پھلے‘‘ کے گرد تنازعے نے ایک بار پھر سماجی حساسیت اور ہندوستان میں سنسرشپ کے کردار سے متعلق مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ سی بی ایف سی کے فیصلوں نے چند اہم سوالات کو جنم دیا ہے: تاریخی سچائی پیش کرنے والے فلم سازوں کو کتنی پابندیوں کا سامنا کرنا چاہیے؟ کیا سماجی کشیدگی سے بچنے کے نام پر سچ کو دبانا درست ہے؟ سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی نے تبصرہ کیا، ’’پھلے کے بارے میں ایک ایماندار فلم برہمنیت اور ذات پات کے نظام کے خلاف ان کی جدوجہد کا ذکر کیے بغیر کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ مذہبی خراجِ تحسین پیش کرنا آسان ہے، لیکن غیر آرام دہ سچائیوں کا سامنا کرنا مشکل ہے۔‘‘
سی بی ایف سی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد پوار دھڑے) کے جینت پاٹل نے نشاندہی کی، ’’دی کشمیر فائلز اور دی کیرالا اسٹوری جیسی پروپیگنڈا فلموں پر سی بی ایف سی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، لیکن پھلے کے خیالات کو روکا جاتا ہے۔‘‘ اس رویے نے سنسرشپ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے بھی سی بی ایف سی پر مرکزی حکومت کے دباؤ میں کام کرنے کا الزام لگایا، جس سے تنازعے میں سیاسی پہلو شامل ہو گیا۔
سیاسی اور ثقافتی جہتیں فلم ’’پھلے‘‘ کا تنازعہ صرف سنیمائی یا تاریخی تشویش تک محدود نہیں بلکہ اس میں سیاسی اور ثقافتی جہتیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ مہاتما پھلے کے خیالات سماجی انصاف، مزاحمت، اور سماجی تبدیلی کے لیے ایک تحریک کی حیثیت رکھتے ہیں، اور 10 اپریل 2025 کو ان کی زندگی پر مبنی اس فلم کے خلاف ابھرنے والی مزاحمت اسی جدوجہد کی ایک جھلک ہے۔
انوراگ کشیپ کا تنازعہ
فلم ساز انوراگ کشیپ کے ریمارکس نے تنازعے کو مزید شدت دی۔ انہوں نے فلم کی حمایت کرتے ہوئے برہمن کمیونٹی کے بارے میں ایک قابلِ اعتراض تبصرہ کیا، جس پر سخت ردِعمل سامنے آیا اور ممبئی میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ انوراگ کشیپ نے بعد میں معافی مانگی، لیکن اس واقعے نے تنازعے میں ایک ذاتی اور ثقافتی پہلو بھی شامل کر دیا۔ گیت نگار منوج منتاشر نے کشیپ کو ’’قوم دشمن‘‘ قرار دیا، جس سے سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث چھڑ گئی۔
فلم سازوں اور عوام کا ردِعمل
تنازعے کو کم کرنے کے لیے فلم کے ہدایت کاروں نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رہنما چھاگن بھوجبل سے ملاقات کی، جنہوں نے فلم کی حمایت کی اور کہا، ’’مہاتما پھلے کے کام کو دنیا تک پہنچنا چاہیے۔‘‘ تاہم، کچھ افراد نے اس تنازعے کو محض ایک پبلسٹی اسٹنٹ قرار دیا۔ مراٹھی اداکار کیرن مانے نے کہا،’’یہ صرف ایک پبلسٹی اسٹنٹ ہے۔ فلم تاریخ نہیں ہے، اس لیے ہمیں اسے مفت تشہیر دینے کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔‘‘
سوشل میڈیا پر فلم کی حمایت اور مخالفت دونوں دیکھنے میں آئیں۔ کچھ افراد نے اسے سماجی بیداری پیدا کرنے کا ذریعہ قرار دیا، جب کہ دوسروں نے اسے ذات پات پر مبنی نفرت کو فروغ دینے کی کوشش کہا۔ یہ صورت حال معاشرے میں نظریاتی تقسیم اور تاریخی سچائیوں کو تسلیم کرنے سے متعلق بے چینی کو ظاہر کرتی ہے۔
سچائی، حساسیت، اور سماجی تبدیلی فلم ’’پھلے‘‘ کا تنازعہ محض ایک فلم کے بارے میں نہیں بلکہ ہندوستان میں سماجی تبدیلی، تاریخی سچائی اور ثقافتی حساسیت کے درمیان پیچیدہ تعامل کی علامت ہے۔ مہاتما پھلے نے پسماندہ طبقات کو آواز دی اور ایک استحصال سے پاک معاشرے کا خواب پیش کیا۔ ان کے خیالات آج بھی مزاحمت کا سامنا کرتے ہیں، جیسا کہ اس تنازعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ فلم ان کے انقلابی نظریات کو نئی نسل تک پہنچانے کی کوشش ہے، مگر اسے سماجی اور سیاسی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
سنسرشپ کے نام پر تاریخی سچائی کو دبانا سماجی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ساتھ ہی، سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک زیادہ جامع اور متوازن نقطۂ نظر اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ ’’پھلے‘‘ محض ایک تفریحی فلم نہیں بلکہ ایک فکر انگیز تخلیق ہے جو معاشرے کو اس کی تاریخ اور حالیہ چیلنجوں سے جوڑتی ہے۔ یہ تنازعہ اس بات کی علامت ہے کہ اب تبدیلی اور بڑھتی ہوئی حساسیت کو سنجیدگی سے لینے کا وقت آ چکا ہے۔
سوال یہ ہے: کیا ہم سچائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، یا ہم حساسیت کے نام پر اسے دبانے کی کوشش کرتے رہیں گے؟
’’پھلے‘‘ نہ صرف مہاتما پھلے کے خیالات اور جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے بلکہ گہرے سماجی تناؤ کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ یہ تنازعہ سچائی کو قبول کرنے اور سماجی مساوات کی جانب قدم بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس کے لیے سینما، سماج، اور سیاست کے درمیان ایک تعمیری مکالمہ ناگزیر ہے۔
ساوتری بائی پھلے پر گوبر پھینکنے کے واقعات کا تاریخی اور ادبی ثبوت
ساوتری بائی پھلے پر گوبر پھینکنے کے واقعات تاریخی اور ادبی ذرائع میں اچھی طرح سے دستاویزی ہیں، جو ان کی خواتین کی تعلیم کے کام کے لیے شدید مخالفت کی علامت ہیں۔ جب ساوتری بائی پھلے نے 1848 میں پونے کے بھائیڈ واڑہ میں لڑکیوں کے لیے اسکول شروع کیا تو معاشرے کے قدامت پسند طبقات نے انہیں گوبر، گائے کا پیشاب، پتھر، اور کوڑا پھینک کر ذلیل کیا۔ ذیل میں تاریخی اور ادبی حوالہ جات ہیں جو ان واقعات کے ثبوت فراہم کرتے ہیں:
تاریخی حوالہ جات
1. ساوتری بائی پھلے کی ہم عصر تحریریں اور خطوط
ساوتری بائی پھلے اور جوتی راؤ پھلے کے درمیان خط و کتابت اور ستیہ شودھک سماج کے ریکارڈز میں ان واقعات کا ذکر ہے۔ ساوتری بائی پھلے نے خود سماجی مخالفت کے بارے میں لکھا، جس میں گوبر اور کوڑا پھینکنے سمیت جسمانی اور نفسیاتی ہراسانی کا ذکر ہے۔
2. فاطمہ شیخ سے متعلق ریکارڈز
فاطمہ شیخ، جو ساوتری بائی کے ساتھ کام کرتی تھیں، نے بھی اپنے اسکول کی مخالفت کو دستاویزی کیا۔ جب فاطمہ اور ساوتری بائی پھلے نے عثمان شیخ کے گھر پر اسکول شروع کیا تو مقامی کمیونٹیز نے ان پر گوبر اور کوڑا پھینکا، جیسا کہ کچھ تاریخی دستاویزات میں نوٹ کیا گیا ہے۔
3. برطانوی دور کے انتظامی ریکارڈز
برطانوی حکومت نے ساوتری بائی پھلے اور جوتی راؤ پھلے کی تعلیمی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی سماجی مخالفت کا ذکر کیا۔ 1850 کی دہائی کے کچھ انتظامی رپورٹس میں پونے کے قدامت پسند گروہوں کے ردعمل کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں گوبر پھینکنے کے واقعات شامل ہیں۔
ادبی حوالہ جات اور کتابیں
مندرجہ ذیل کتابیں اور ادب گوبر پھینکنے کے واقعات کے ثبوت فراہم کرتے ہیں:
1. ’’ساوتری بائی پھلے: سمگر وانگمے‘‘ (ایڈیٹر: ڈاکٹر ایم جی مالی)
یہ مجموعہ ساوتری بائی پھلے کی نظموں، خطوط، اور تحریروں پر مشتمل ہے۔ ان کی کچھ تحریروں میں اسکول جاتے ہوئے درپیش ذلتوں کا ذکر ہے، جن میں گوبر اور کوڑا پھینکنے کے واقعات شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ان کے کام کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔
2. ’’کرانتی جیوتی ساوتری بائی پھلے‘‘ (مصنف: نا۔ جی۔ پوار)
یہ سوانح عمری ساوتری بائی کی اسکول جاتے ہوئے درپیش مخالفت کی تفصیلات دیتی ہے۔ مصنف نے گوبر پھینکنے کے واقعات میں ان کی ہمت اور استقامت کو اجاگر کیا۔
3. ’’ساوتری بائی پھلے: بھارتیہ عتری مکتی چیا جنک‘‘ (مصنف: شیلاجا مولک)
یہ کتاب ساوتری بائی کی تعلیمی کام کی مخالفت کی مفصل تاریخ فراہم کرتی ہے۔ گوبر اور پتھر پھینکنے کے واقعات کا ذکر اس وقت کے قدامت پسند ذہنیت کو واضح کرتا ہے۔
4. ’’کاسٹ، کنفلکٹ اینڈ آئیڈیالوجی: مہاتما جوتی راؤ پھلے اینڈ لو کاسٹ پروٹیسٹ ان نائنٹینتھ سنچری ویسٹرن انڈیا‘‘ (مصنف: روزلنڈ اوہانلن)
یہ انگریزی کتاب پھلے جوڑے کی سماجی اصلاحات کی مخالفت کا جائزہ لیتی ہے۔ اس میں ساوتری بائی پھلے پر جسمانی اور سماجی حملوں کا ذکر ہے، جن میں گوبر پھینکنے کے واقعات شامل ہیں۔
5. ’’ساوتری بائی پھلے فرسٹ میموریل لیکچر، 2008‘‘ (مصنف: ٹی۔ سندرارمن)
نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی طرف سے شائع شدہ یہ لیکچر ساوتری بائی پھلے کے اسکول کی مخالفت کا ذکر کرتا ہے، جس میں ان کی ہمت کے تناظر میں گوبر اور کوڑا پھینکنے کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
6. ’’استری شِکشن چیا اگردوت: ساوتری بائی پھلے‘‘ (مہاراشٹر ٹائمز اور دیگر ہم عصر مضامین)
مہاراشٹر ٹائمز کے مضامین میں ساوتری بائی پھلے کی اسکول جاتے ہوئے درپیش ذلتوں کا ذکر ہے۔ ان کی عادت کہ وہ گوبر سے گندا ہونے کے بعد تبدیل کرنے کے لیے اضافی ساڑھی ساتھ رکھتی تھیں، گوبر پھینکنے کے واقعات سے منسلک ہے۔
7. ’’لیک ساوتری چی‘‘ (مصنف: نرملا تائی کاکاڈے، ایڈیٹر: یو ایم پٹھان)
یہ سوانح عمری ساوتری بائی پھلے کی جدوجہد کی تفصیلات دیتی ہے، جس میں گوبر اور کوڑا پھینکنے کے واقعات کا ذکر ہے۔ یہ کتاب ان کے کام کو سمجھنے کے لیے قیمتی ہے۔
8. ’’ساوتری بائی پھلے ینچی سماجک وا شَیکشنک کاریہ‘‘ (مصنف: جی۔ اے۔ یوگل)
یہ کتاب ساوتری بائی پھلے کے تعلیمی کام کی مخالفت کی خاکہ پیش کرتی ہے، جس میں گوبر پھینکنے کے واقعات ان کی عزم کے تناظر میں بیان کیے گئے ہیں۔
9. سوشل میڈیا اور ہم عصر مضامین
کچھ ہم عصر مضامین اور سوشل میڈیا پوسٹس (مثلاً، ڈیلی او، 2019، اور سِوِلز ڈیلی، 2023) گوبر پھینکنے کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں، جو بھائیڈ واڑہ میں ان کے اسکول جاتے ہوئے بالائی ذات کے گروہوں سے درپیش ذلتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔
10. مراٹھی وشواکوش
ساوتری بائی پھلے کی زندگی پر مراٹھی وشواکوش کی انٹری میں اسکول جاتے ہوئے درپیش سماجی مخالفت کا ذکر ہے، جس میں گوبر اور کوڑا پھینکنے کے واقعات شامل ہیں۔
نوٹ
ان واقعات کے ثبوت بنیادی طور پر ساوتری بائی پھلے کی ہم عصر تحریروں، سوانح عمریوں، اور تاریخی دستاویزات سے ملتے ہیں۔ یہ واقعات اس وقت کے قدامت پسند ذہنیت کا نتیجہ تھے، اور ساوتری بائی پھلے نے ایسی ذلتوں سے متاثر ہوئے بغیر اپنا کام جاری رکھا۔ مذکورہ بالا کتابیں اور حوالہ جات ان واقعات کی تاریخی سچائی کو واضح کرتے ہیں۔
(مصنف ممبئی سے شائع ہونے والے مراٹھی ہفت روزہ ’’شودھن‘‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں،
رابطہ: 8976533404)

 

***

 سچائی، حساسیت، اور سماجی تبدیلی فلم ’’پھلے‘‘ کا تنازعہ محض ایک فلم کے بارے میں نہیں بلکہ ہندوستان میں سماجی تبدیلی، تاریخی سچائی اور ثقافتی حساسیت کے درمیان پیچیدہ تعامل کی علامت ہے۔ مہاتما پھلے نے پسماندہ طبقات کو آواز دی اور ایک استحصال سے پاک معاشرے کا خواب پیش کیا۔ ان کے خیالات آج بھی مزاحمت کا سامنا کرتے ہیں، جیسا کہ اس تنازعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ فلم ان کے انقلابی نظریات کو نئی نسل تک پہنچانے کی کوشش ہے، مگر اسے سماجی اور سیاسی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025