
فلسطین اور اسرائیل: نئے عالمی بیانیے کا آغاز۔ دو ریاستی حل کی طرف بڑھتا ہوا یورپ
فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان۔ غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک تاریخی قدم
ڈاکٹر سلیم خان
سعودی عرب کی سفارتی حکمت عملی کامیاب: مغرب میں فلسطین کی حمایت بڑھنے لگی
برطانوی سیاست میں ہلچل: 221 اراکینِ پارلیمان کا فلسطین کی باضابطہ منظوری کا مطالبہ
ایک ایسے وقت میں جب غزہ کے ایک لاکھ شیرخوار بچوں کے سر پر صہیونیت کی ننگی تلوار لٹک رہی ہے فرانسیسی صدر ایمینوئل میکراں نے عن قریب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر کے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ اسرائیل کے حلیف اور جی-7 کے پہلے رکن ملک کا یہ اعلان صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے اس قدر بڑا جھٹکا تھا کہ اس نے اسے اسرائیل کی تباہی کا لانچنگ پیاڈ قرار دے دیا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ یہ تو دنیا کے سارے انصاف پسندوں کے من کی بات ہے جو نیتن یاہو کی زبان سے نکل گئی۔ کاش کہ اس جراحی سے اسرائیل نام کے ناسور کا ہمیشہ کے لیے قلع قمع ہو جائے۔ اس معاملے کا دوسرا تعجب خیز پہلو یہ ہے کہ یہ سفارتی کارنامہ اس سعودی عرب کی کوششوں کا نتیجہ ہے جس کے ساتھ ’معاہدہ ابراہیمی‘ کرکے اسرائیل فلسطینیوں کو عرب دنیا سے الگ تھلگ کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح گویا جس ملک کو توڑنے کے لیے استعمال کرنے کا آلۂ کار بنانے کی شیطانی سازش رچی جارہی تھی اسی نے فلسطین کو مغربی یوروپ کی ایک بڑی طاقت سے تسلیم کروا لیا اور اسی کے ساتھ برف کے پگھلنے کا آغاز بھی ہو گیا۔
حماس نے فرانسیسی صدر کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے "مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف کی سمت میں ایک مثبت قدم” قرار دیا اور مزید کہا کہ ’’ہم دنیا کے تمام ممالک سے اور خاص طور پر یورپی ممالک اور جنہوں نے ابھی تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے، مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں فرانس کی پیروی کریں‘‘ فلسطینی اتھاریٹی کے نائب صدر حسین الشیخ نے سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسی نے دنیا کے سامنے دو ملکی حل کا فارمولا تجویز کیا تھا جس کے سبب فرانس نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے۔ واضح رہے کہ فلسطین کو الگ ملک کی منظوری دلانے کے لیے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے جون 2025 میں ایک مہم چلائی تھی۔
سعودی عرب کا موقف ہے کہ 1967 کی سرحدوں پر ہی یہ تنازعہ ختم ہو سکے گا۔ اس کے تحت مشرقی یروشلم جس پر فی الحال اسرائیل کا قبضہ ہے فلسطین کا دارالحکومت بنے گا۔ سعودی عرب کی سربراہی میں اس ماہ نیویارک میں دو قومی نظریہ پر ایک میٹنگ ہونی ہے۔ برطانیہ اور دیگر ممالک کو بھی راضی کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔معروف میڈیا ہاوس بلومبرگ کے مطابق برطانیہ کی کابینہ کے کئی وزراء، بشمول وزرائے صحت، انصاف اور ثقافت نے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے عمل کو جلد از جلد شروع کیا جائے۔ فرانس نے برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ غزہ کے بحران پر ہنگامی مشاورت کے بعد یہ اعلان کیا کہ وہ ستمبر میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ اجلاس کے دوران فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لے گا۔ ویسے تو اقوام متحدہ کے تقریباً 150 رکن ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں جن میں اسپین ناروے اور آئر لینڈ شامل ہیں، تاہم امریکہ اور برطانیہ وغیرہ ابھی تک اس فہرست میں موجود نہیں ہیں۔
اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے میکراں کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایکس پر لکھا "ہم سب کو مل کر اس چیز کی حفاظت کرنی چاہیے، جسے نیتن یاہو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دو ریاستی حل ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔” آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن ہیرس نے بھی ایکس پر ایک پوسٹ میں فرانس کے اقدام کو "اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے امن اور سلامتی کی واحد پائیدار بنیاد” قرار دیا نیز کینیڈا نے بھی اس کا استقبال کیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک بھی جلد فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے جو خطے میں دیرپا امن اور سلامتی کو یقینی بنائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس مقصد کے لیے اوٹاوا اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر فعال کردار ادا کرے گا۔ مارک کارنی وہیں نہیں رکے بلکہ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی کابینہ کی ناکامی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ انسانی بحران کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
جی-7 کے ایک اور رکن اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے بھی کہا کہ ان کا ملک غزہ میں جاری قتل اور قحط کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، تاہم واضح کیا کہ اٹلی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہے یعنی اس کی کچھ شرائط ہیں جس کے بعد آج نہیں تو کل وہ بھی تسلیم کرلے گا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی طرح دنیا کے سب سے زیادہ سنگ دل ممالک کے دل بھی پگھلنے لگے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایمینوئل میکراں کے اعلان کو تاریخی قرار دے کر اس کی تعریف کی اور دوسرے ممالک سے بھی اس کی پیروی کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر بڑے یوروپی ممالک کے مقابلے میں فرانس نے سب سے پہلے سعودی عرب کی اس کوشش پر پہل کیوں کی؟ دراصل تاریخی طور پر سعودی عرب اور فرانس کے درمیان قدیم سفارتی تعلقات ہیں اور ان کے بیچ تجارت، ثقافت اور دفاعی معاہدوں تک ہر میدان میں باہمی تعاون و اشتراک جاری رہا ہے۔
تاریخی اعتبار سے 1839 میں فرانس نے جدہ میں اپنا پہلا قونصل خانہ کھولا تھا۔ 1919جنوری میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز السعود نے فرانس کا سرکاری دورہ کیا۔ 1926 میں ہی فرانس نے حجاز اور نجد کی مملکت کو تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم کر لیے جبکہ متحدہ مملکت تو چھ سال بعد 1932 میں قائم ہوئی۔ اسی سال سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے پیرس کا دورہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیر جانب دار رہنے کے باوجود سعودی عرب نے فرانس اور اتحادیوں کو تیل کی سپلائی جاری رکھی جو علامتی طور پر جرمنی اور جاپان کے خلاف جنگ کا اعلان تھا۔ 1956 میں جب فرانس، برطانیہ اور اسرائیل نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا تو ملک سعود بن عبدالعزیز نے ان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے اور تیل کی ترسیل بھی روک دی تاہم 1962 میں دوبارہ فرانس اور برطانیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔
1967 میں سعودی عرب و فرانس کے درمیان تعلقات کافی مضبوط ہو گئے کیونکہ فرانس نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی تھی۔ اسی سال شاہ فیصل نے فرانس کے صدر چارلس ڈیگال سے پیرس میں ملاقات کی۔ یہ ان کا بطور حکم راں پہلا سرکاری دورہ تھا۔ اس کے بعد 1972میں دونوں ممالک نے فوجی تعاون کے منصوبے پر دستخط کیے۔ اگلے سال پھر شاہ فیصل نے فرانس کا دورہ کیا تو صدر جارجز پومیڈو نے ان کا استقبال کیا۔1977 میں فرانسیسی صدر والری جسکا دایستاں نے ریاض کا دورہ کرکے سعودی عرب کو ایک عالمی قوت کے طور پر سراہا۔ اسی سال شاہ خالد نے فرانسیسی بینک کا لائسنس کی منظور کیا اور اگلے سال سرکاری دورے پر بھی گئے۔ 1980 میں فرانسیسی صدر والری جسکا دایستاں دوسری بار اور ایک سال بعد نو منتخب صدر فرانکوا میتراں نے بھی ریاض کا دورہ کیا۔ 1984 میں شاہ فہد نے سربراہِ مملکت کی حیثیت سے فرانس کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ 2006 میں فرانسیسی صدر ژاک شیراک کو پہلی بار سعودی عرب کی ’مجلس‘ یعنی پارلیمنٹ کو خطاب کرنےکا اعزاز ملا۔ دونوں ممالک کے سربراہوں کے دوروں کا سلسلہ جاری رہا اور ان کے درمیان مختلف معاہدوں پر دستخط ہوتے رہے۔
2017 میں موجودہ فرانسیسی صدر ایمینوئل میکراں نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان سے ملاقات کرکے خطے میں استحکام اور دہشت گردی کی بابت اپنے تعاون کا یقین دلایا تھا۔ فرانسیسی صدر کے ذریعہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان اسی تاریخی تسلسل کا حصہ ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا "فرانسیسی عوام مشرق وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں- اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور ہمارے یورپی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر بطور فرانسیسی شہری، یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امن ممکن ہے”۔صدر میکراں نے تو جون میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن کانفرنس کے ملتوی ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ اگست کے اواخر تک ٹل گیا۔
خلیجی ممالک کی طرف سے فرانس کے اعلان کا خیر مقدم کیا گیا۔ انہوں نے فرانس کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ باقی یورپی ملکوں کو بھی فرانس کے نقشِ قدم پر آگے بڑھنا چاہیے۔ ویسے فرانس سے قبل امسال مئی میں آئرلینڈ، ناروے اور اسپین فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اب فرانس کے اعلان نے گروپ-7 کے رکن یورپی ملکوں میں بھی سیندھ ماری ہے۔ امید ہے کہ اگلے ستمبر میں نیویارک میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ اجلاس کے موقع پر فرانس اور سعودی عرب کے تعاون سے یو این کی میزبانی میں جس فلسطین کانفرنس کا اہتمام ہو گا اس میں بات آگے بڑھے گی کیونکہ قطر اس پیش رفت کو فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی مانتا ہے اور اس سے خطے میں جامع امن کی توقع کرتا ہے۔ کویت نے فرانسیسی صدر میکروں کے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کو خوش آمدید کہہ کر اسے ایک بڑا قدم بتایا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی فرانس کے اعلان پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔
فرانس کے اس فیصلے سے جہاں امن پسند دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں اسرائیل اور اس کے آقا امریکہ کی نیند اڑ گئی۔ نیتن یاہو نے سوشل میڈیا پر میکراں کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست "اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے لیے ایک بنیاد بنے گی اور اس کے ساتھ امن سے رہنا نا ممکن ہو گا”۔ یہ تو ایک بہت بڑی خوش خبری ہے کیونکہ جو سفاک حکومت بھوکے بچوں پر گولیاں برساتی ہے اس کا صفحۂ ہستی سے مٹ جانا بے حد ضروری ہے۔ اسرائیل کے نائب وزیر اعظم یاریو لیون نے بھی فرانس کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے "فرانس کی تاریخ پر سیاہ نشان اور دہشت گردی کی براہ راست مدد” قرار دیا۔ وہ بھول گئے کہ فی الحال دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود ان کا ملک اسرائیل ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف کی نظر میں ان کا وزیر اعظم نسل کشی کا مجرم ہے اور اس کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ نکلا ہوا ہے۔ وہ امریکہ کے علاوہ کسی ملک میں جائے تو اس کی گرفتاری ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کے پیر میں کانٹا چبھے تو امریکہ کے سر میں درد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے فرانس کے اس خوش آئند فیصلے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘فرانسیسی صدر نے جو کہا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں وہ ایک اچھے آدمی ہیں، میں میکراں کو پسند بھی کرتا ہوں مگر ان کا یہ بیان کوئی وزن نہیں رکھتا۔’ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فرانسیسی صدر کے اس فیصلے کو لاپروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کو "سختی سے مسترد کرتے ہیں” انہوں نے ایکس پر لکھا "لاپروائی پر مبنی یہ فیصلہ صرف حماس کے پروپیگنڈے کا کام کرتا ہے اور امن کو خراب کرتا ہے۔ یہ 7؍ اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔” اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی اپنی مذمت میں 7؍ اکتوبر کا حوالہ دیا تھا۔ ان عقل کے اندھوں کو غزہ میں ہونے والی تقریباً ساٹھ ہزار شہادتیں اور دیگر تباہی و بربادی نظر نہیں آتی لیکن دنیا تو سب کچھ دیکھ رہی ہے۔
یہودی برسوں تک ہٹلر کے ذریعہ کی جانے والی نسل کشی کے بہانے دنیا بھر سے ہمدردیاں سمیٹتے رہے۔ اب ان کو 7؍ اکتوبر کا حیلہ مل گیا ہے لیکن اس کے بعد صہیونی سرکار جو مظالم کے پہاڑے توڑے اسے دیکھ کر اگر ہٹلر بھی زندہ ہوتا تو شرما جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری میں امریکہ کے علاوہ بیشتر ممالک نے اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بھی اب اسرائیل کی حمایت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سیریا پر بمباری کے بعد یہ اختلاف کھل کر سامنے آگیا جب نیتن یاہو کو امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے بے قابو جنونی اور پاگل قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر بھی جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کی طرف قدم اٹھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا "جنگ بندی ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور ایسے دو ریاستی حل کی راہ پر گامزن کرے گی جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن اور سلامتی کی ضامن ہو۔” حکم راں لیبر پارٹی سمیت برطانوی پارلیمنٹ کے کئی ارکان نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کو بطورِ ریاست باقاعدہ طور پر تسلیم کرے۔ فرانسیسی اعلان کے بعد نو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کے دستخط شدہ خط میں یہ مطالبہ کیا گیا۔
مذکورہ بالا خط میں 221 اعتدال پسند دائیں بازو کی کنزرویٹو پارٹی، مرکز کی لبرل ڈیموکریٹس اور اسکاٹ لینڈ و ویلز کی علاقائی جماعتوں کے برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کو لکھا کہ "ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کےآئندہ اجلاس میں فلسطینی ریاست کو با ضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے”۔ ان لوگوں نے اعتراف کیا کہ "اگرچہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ برطانیہ اکیلا فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں بنا سکتا لیکن برطانیہ کا باضابطہ اعلان ایک اہم علامتی قدم ہو گا”۔ ان لوگوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں برطانیہ کی رکنیت اور اس کی تاریخی ذمہ داریوں کا حوالہ دیا۔ خط میں برطانیہ کے بالفور اعلامیے (1917) کا ذکر کیا گیا جس نے اسرائیل کے قیام کی بنیاد فراہم کی تھی۔ اراکین نے مزید لکھا "1980 سے ہم دو ریاستی حل کی حمایت کرتے آئے ہیں اور فلسطین کو تسلیم کرنا اسی موقف کو تقویت دے گا۔ یہ قدم فلسطینی عوام کے حوالے سے ہماری تاریخی ذمہ داری کو نبھانے کے مترادف ہو گا”۔ اس دباو کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر کو کہنا پڑا کہ "اس بابت کوئی ابہام نہیں ہے کہ ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنا امن کی طرف لے جا نے والے اقدامات میں شامل ہے لیکن یہ اقدام ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے”۔ فرانس اور برطانیہ کے ساتھ اگر جرمنی بھی فلسطین کی حمایت میں آ جائے تو یوروپ کی رائے عامہ کا اسرائیل کے بجائے غزہ کی جانب جھک جائے گی اور یہ نہ صرف فلسطین کی آزادی و خود مختاری بلکہ امن عالم کی جانب ایک بہت اہم قدم ہوگا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025