فلسطینی اراضی کی غیر قانونی فروخت۔لمحۂ فکریہ

غزہ اور مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی، ٹرمپ کا متنازعہ منصوبہ

0

اسد مرزا

غزہ ’صاف ‘مہم کے ساتھ ہی امریکی قدامت پسند یہودیوں کو فلسطینی زمینیں فروخت کرنا ۔چہ معنی دارد؟
اپنے دوسرے دورۂ اقتدار میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے محض پہلے ہفتے میں ہی ڈونالڈ ٹرمپ نے چند ایسے احکامات اور بیانات جاری کیے ہیں جن سے پوری دنیا ششدر رہ گئی ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی میں اضافہ کرتے ہوئے ٹرمپ نے پچھلے دنوں غزہ کے حوالے سے کہا کہ ’’ہمیں اس ساری جگہ کو صاف کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے اردن اور مصر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو اپنے ملکوں میں رہنے کے لیے جگہ دیں۔ غزہ کی پٹی کو’’صاف‘‘ کرنے کی ٹرمپ کی مجوزہ تجویز سے دس لاکھ سے زائد فلسطینی متاثر ہوں گے۔ٹرمپ کے مخالفین نے اسے نسلی تطہیر اور علاقائی انتشار کا انتباہ قرار دیا ہے۔
بظاہر ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں سوار نامہ نگاروں سے کہا ’’آپ ڈیڑھ ملین لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور ہم صرف اس ساری جگہ کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول یہ ممکنہ منتقلی عارضی بھی ہو سکتی ہے یالمبی مدت کی بھی ہو سکتی ہے۔
یہ تجویز بائیڈن انتظامیہ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کے اس پرانے موقف سے انحراف کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ میں غیرفلسطینیوں کو آباد نہیں کیا جانا چاہیے اور غزہ کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہونا چاہیے۔ ممکنہ طور پر یہ بیان ٹرمپ انتظامیہ کو اسرائیل کے انتہائی انتہا پسنداور دائیں بازو کے سیاست دانوں کے ساتھ جوڑ سکتا ہے، جو یہودی آباد کاری کے لیے فلسطینیوں کو علاقے سے باہر منتقل کرنے کی وکالت کرتے رہے ہیں۔
اگرچہ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے ابھی تک اس تجویز پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے، تاہم انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی سیاست دانوں نے اس خیال کو سراہا ہے۔
مذہبی صیہونیت پارٹی (Religious Zionism Party)کی قیادت کرنے والے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے کہا کہ ٹرمپ نے تسلیم کیا ہے کہ غزہ دہشت گردی کی افزائش گاہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طویل مدت میں ہجرت کی حوصلہ افزائی ہی واحد حل ہے جواسرائیل میں امن اور استحکام لاسکتا ہے اور اسی میں اسرائیلی باشندوں کی سلامتی بھی ہے ۔ وزارتِ دفاع میں عہدہ رکھنے والے سموٹریچ نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ سموٹریچ 2023 سے اس نظریہ کی وکالت کر رہے ہیں جسے وہ ’’دنیا بھر کے ممالک میں ’غزہ کے عربوں‘ کی رضاکارانہ ہجرت کہتے ہیں۔‘‘
اردن، مصر اور فلسطینی اتھارٹی کا ردِ عمل
دریں اثنا، مصر اور اردن کے رہنماؤں نے فلسطینیوں کو لینے کے لیے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ صدر عبدالفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو مسترد کر دیا ہے۔ السیسی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی نقل مکانی کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، مصر کی قومی سلامتی پر اس کے اثرات کی وجہ سے اسے کبھی برداشت نہیں کیا جاسکتا یا اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں 47,400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور غزہ کا زیادہ تر شہری بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔
مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم ان تباہیوں کو دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے جو 1948 اور 1967 میں ہمارے لوگوں پر آئی تھیں۔‘‘
فلسطینیوں کے لیے سابقہ تاریخ کو نکبہ یا تباہ کن کے نام سے جانا جاتا ہے جس سے مراد وہ سات لاکھ فلسطینی ہیں جو 1948 میں جنگ آزادی سے پہلے اور اس کے دوران اقوام متحدہ کی تجویز کردہ تقسیم کے بعد جو اب اسرائیل ہے وہاں سے بھگا دیے گئے یا نکال دیے گئے تھے۔ مزید1967 کی جنگ میں، جس کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا اور تب بھی ان علاقوں سے کئی لاکھ فلسطینی مزید بے گھر کردیے گئے تھے۔ عباس نے اس تجویز کو بھی یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ’’کوئی بھی ایسی پالیسی جو مشرقی یروشلم سمیت غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں فلسطینی سرزمین کے اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہو، وہ کبھی ہمیں قبول نہیں ہوگی۔‘‘
غزہ میں حماس کے شانہ بشانہ لڑنے والی تنظیم فلسطینی اسلامی جہاد نے ٹرمپ کے خیال کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ اس نے ہمارے لوگوں کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کرکے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
قانونی حیثیت
اس سے قبل اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت نے جولائی 2024 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ عالمی قوانین کے خلاف ہے۔بین الاقوامی عدالت (آئی سی جے) نے کہا کہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں آبادکاری کی سرگرمیاں بند کرنی چاہئیں اور ان علاقوں اور غزہ کی پٹی پر اپنا غیر قانونی قبضہ جلد از جلد ختم کرنا چاہیے۔آئی سی جے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی درخواست پر گزشتہ سال کے آغاز سے ہی اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ عدالت سے خصوصی طور پر کہا گیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے تئیں اسرائیل کی پالیسیوں اور طرز عمل اور قبضے کی قانونی حیثیت پر اپنا نقطہ نظر پیش کرے۔ تحریر کے ساتھ میں دی گئی تصویروں سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 1948 سے پہلے اور اب یعنی کہ 2024 میں اسرائیل کتنی فلسطینی زمین پر اپنا غیر قانونی جارحانہ قبضہ کرچکا ہے۔
مغربی کنارے میں زمین کی غیر قانونی فروخت
دریں اثنا ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اسرائیل میں مقیم رئیل اسٹیٹ کے تجارتی ادارے مغربی کنارے میں زمین اور فلیٹس امریکی شہریوں کو فروخت کر رہے ہیں اور سرمایہ کاروں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ وعدہ شدہ زمین کا ایک ٹکڑا خریدیں (جو بظاہر غیر قانونی ہے )۔ خریداروں کی اکثریت دائیں بازوں کے قدامت پسند یہودیوں کی ہے۔یہ تقریبات امریکہ کے کئی شہروں میں منعقد کی گئی ہیں جہاں مدعو افراد کو ان کی مذہبی وابستگی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔صحافی مارک سٹینر نے امریکہ میں قائم ’دی رئیل نیوز نیٹ ورک ‘پر اپنے پوڈ کاسٹ ’ناٹ ان آور نیم‘ میں ایک تخلیقی کارکن اور صحافی ایلینور گولڈ فیلڈ کو اس نئے کاروبار کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے مدعو کیا۔ ایلینور کے مطابق، ممکنہ خریداروں کو بہت احتیاط کے ساتھ چنا جاتا ہے۔ان کے بقول کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے ایسے ایونٹ کے لیے اندراج کرنے کی کوشش کی تو انہیں منتظم کے ساتھ زوم کال کرنی پڑی اور منتظم نے ان کی کتابوں کی الماری کو دیکھنے کے لیے کہا کہ آیا وہاں کون سی کتابیں موجود ہیں، یعنی وہاں یہودیوں کی کتابیں ہیں یا نہیں۔ انہوں نے یہ جاننے کا بھی مطالبہ کیا کہ وہ افراد کون سے عبادت گاہ میں جاتے ہیں اور ان کا ربی کون ہے۔ اور آخر کار انتہائی دائیں بازو کے انتہائی قدامت پسند یہودیوں کو بالٹی مور، امریکہ میں ہونے والے پروگراموں میں مدعو کیا گیا۔یہ تقریبات نیویارک، نیوجرسی، بالٹی مور اور کئی دیگر امریکی ریاستوں اور شہروں میں منعقد ہو چکی ہیں۔
نیو جرسی کے ٹینیک کے رہائشی رچ سیگل نے الجزیرہ کے کیون ہرٹن کو ان کے پوڈ کاسٹ ’دی ٹیک‘ پر بتایا کہ انہیں پہلی بار 2007 میں معلوم ہوا کہ یہاں ٹینیک میں جائیداد فروخت کے ایسے ایونٹ منعقد کیے جارہے تھے اور وہ صرف اس لیے آگاہ ہوسکے کیونکہ انہوں نے عبرانی زبان کے ایک یہودی اخبار میں ایسے ایک رئیل اسٹیٹ ایونٹ کا اشتہار دیکھا تھا۔ انہوں نے جب اس واقعہ کی تھوڑی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ یہ پراپرٹی پروموٹر درحقیقت یہاں Teaneck نیو جرسی میں یہودیوں کو مغربی کنارے کے سیٹلمنٹ گھر براہ راست فروخت کر رہے ہیں۔
رچ نے مزید کہا کہ اس نے سوچا کہ یہ غیر قانونی اور یقینی طور پر غیر اخلاقی ہے اور مجھے اسے روکنے کی کوشش کرنی ہوگی اور اس نے ایسا کیا بھی۔ چنانچہ 2007 میں پہلا موقع تھا کہ اس نے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا اس نے دوسرے طریقوں سے بھی اسے روکنے کی کوشش کی، مقامی پولیس سے لے کر ایف بی آئی تک سب کو کال کیا لیکن کوئی بھی اس کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔
رچ کے مطابق حال ہی میں یعنی 7 اکتوبر 2024 کے بعدان کے شہر ٹینیک میں چیزیں ابال پر آگئیں، جب اس نے ان رئیل اسٹیٹ شوز کے خلاف مظاہرے منعقد کرنے کی کوشش کی، اسے اور اس کی ایک ساتھی کو ان میں سے ایک شو سے دھکے دے کر باہر نکال دیا گیا جب انہوں نے اپنی شناخت عیاں کی۔ رچ ایلینور کی طرح خود بھی ایک یہودی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ ان شوز میں صرف انتہائی دائیں بازو کے قدامت پسند یہودیوں کو ہی مدعو کیا جاتا ہے جو ایلینور کے مشاہدے کی تصدیق کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ Teaneck میں یہودی عبادت گاہیں رئیل اسٹیٹ میلوں کی میزبانی کر رہی ہیں جو اراکین کو اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے کی بستیوں میں غیر قانونی جائیداد خریدنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ اسے زمین کا چھڑانا یا گھر واپس آنا کہتے ہیں۔
اصل گیم پلان
اب اگر کوئی ظاہری طور پر ان دونوں غیر متعلق لیکن درحقیقت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے معاملوں کو جوڑتا ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ غزہ اور مغربی کنارے کو فلسطینیوں سے آزاد کرانے پر کیوں زور دے رہے ہیں۔جبکہ یہ اسرائیلی کمپنیاں مغربی کنارے کی اراضی قدامت پسندوں اورصہیونیوں کو فروخت کر کے کل 22 بین الاقوامی، امریکی اور اسرائیلی قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ٹرمپ، جیسا کہ عام طور پر جانا جاتا ہے کہ ایک پراپرٹی ڈیولپر ہیں، وہ اور ان کے داماد جیرڈ کشنر، اسرائیل میں کئی کمپنیوں کے مالک ہیں اور یقیناً جب اس معاملے کی جانچ ہوگی تو یہ واضح ہوجائے گا کہ انہیں اور ان کے حواریوں کو غیر قانونی طور پر فلسطینیوں کی زمین بیچ کر کتنا مالی فائدہ ہوا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی دوسری بات جو آپ کو حیران کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں اس غیر قانونی فروخت کی کوئی تفصیل زیادہ عیاں نہیں کی گئی ہے، صرف کچھ ناوابستہ اور آزاد اداروں نے ان تفصیلات کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جانی چاہیے تاکہ اسرائیل کو مزید فلسطینیوں کا حق مارنے سے روکا جاسکے۔
***

 

***

 ’’47ویں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر اپنی دوسری میعاد کے پہلے ہفتے میں متعدد متنازعہ ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں اور بہت سے بین الاقوامی معاملات پر اپنا طویل نظریہ پیش کیا ہے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی بازآبادکاری بھی ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ حیرت انگیز انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ مغربی کنارے کی فلسطینی زمین امریکہ میں غیر قانونی طور پر قدامت پسند صہیونیوں کو فروخت کی جارہی ہے۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025