غیر قانونی پٹاخہ فیکٹریاں۔ روزی روٹی کی خاطر جان گنواتے لوگ
لا اینڈ آرڈر، روزگار اور ماحولیات سے بے اعتنائی کیوں؟
کلکتہ(دعوت نیوز بیورو)
پچھلے دس سالوں میں پٹاخہ فیکٹری دھماکوں کی وجہ سے سیکڑوں افراد ہلاک ۔حکومت موثر کارروائی کرنے میں ناکام
27؍ اگست کی صبح ضلع شمالی 24 پرگنہ کے دتہ پوکھر کا نیل گنج گاؤں اچانک دھماکے کی آواز سے لرز اٹھا۔ گنجان آبادی کے درمیان واقع غیر قانونی فیکٹری میں دھماکے سے 9 افراد کی موت ہوگئی ہے۔بنگال میں غیر قانونی پٹاخہ فیکٹریوں میں دھماکے کی خبریں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مئی 2023ء کے بعد مغربی بنگال میں پٹاخوں کی غیر قانونی فیکٹریوں میں دھماکوں کا یہ پانچواں واقعہ ہے اور ان پانچ دھماکوں میں کل 28 افراد کی جانیں چلی گئی ہیں۔ 16 مئی کو ضلع مشرقی مدنی پور کے ایگرا میں واقع ایک غیر قانونی پٹاخے کے کارخانے میں دھماکے میں 9 افراد کی موت ہوگئی۔ اس واقعے کے دس دن بعد جائے حادثہ کا دورہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست سے غیر قانونی پٹاخہ فیکٹریوں کا خاتمہ کردیں گی اور ماحول دوست پٹاخے کی فیکٹریاں بنائی جائیں گی۔ ممتا بنرجی کے وعدوں کے باوجود غیر قانونی پٹاخہ فیکٹریوں میں دھماکوں کے تسلسل نے ریاستی حکومت اور ممتا بنرجی کی اعتبار اور عزائم پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ان فیکٹریوں کے مالکین میں بیشتر کا تعلق ترنمول کانگریس سے ہے۔ دراصل بنگال کے دیہی علاقے میں پٹاخوں کی غیر قانونی مینوفیکچرنگ ایک چھوٹے پیمانے کی صنعت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ان کارخانوں میں سینکڑوں مقامی اور بیرونی باشندے روزانہ کام کرتے ہیں۔ یہ کارخانے چونکہ غیر قانونی ہوتے ہیں اس لیے مزدوروں کے حفاظتی نقطہ نظر سے کچھ بھی انتظامات نہیں ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آئے دن دھماکے ہوتے ہیں اور عام مزدور اور غریبوں کی جانیں جاتی رہتی ہیں۔ ان دھماکوں نے ممتا بنرجی کی حکومت کی لا اینڈ آرڈر کی ناکامی، دیہی علاقوں میں روزگار کے بہتر مواقع کی کمی اور حکومت کی ماحولیات کے تئیں بے توجہی کو اجاگر کر دیا ہے۔
غیر قانونی فیکٹری میں دھماکہ خیز اشیا کتنی بڑی تعداد میں موجود تھیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 27؍ اگست کی صبح اچانک زور دار آواز میں دھماکہ ہوا تو فیکٹری میں موجود 8 افراد کی فوری موت ہوگئی جبکہ قریبی سڑک پر ایک راہ گیر کی بھی اس کی زد میں آ کر موت ہوگئی۔ دھماکے کی شدت سے ملحقہ مکانات بھی یکے بعد دیگرے منہدم ہوگئے۔دھماکے کی طاقت سے فیکٹری ورکرز کے جسم کے اعضاء قریبی مکانوں کی چھتوں پر بکھر گئے اور کچھ ٹکڑے سو میٹر سے بھی زیادہ دور تک بکھرے ہوئے نظر آئے۔ دھماکے کی آواز جائے وقوعہ سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر بارسات تک سنی گئی۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس فیکٹری میں پہلے بھی کم شدت کے دھماکے ہو چکے ہیں مگر اس پر پولیس نے کبھی توجہ نہیں دی۔ ایک مقامی شخص نے اپنا نام چھپائے رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اس فیکٹری میں پہلے بھی دھماکوں کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ ہم نے اپنی کھڑکیوں سے خون آلود لاشوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ مقامی ترنمول لیڈروں نے ہمیں اس علاقے سے دور رہنے کی ہدایت کی تھی۔ پولیس سے جب شکایات کی جاتیں تو کہا جاتا کہ یہ ان کے معاملے ہیں باہری لوگوں کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ دھماکے کے قریبی جگہ سے ’پوٹاشیم کلورائیڈ‘ کو برآمد کیا گیا ہے۔ پوٹاشیم کلورائیڈ پٹاخوں کی تیاری میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس سے بم بنائے جاتے ہیں۔ اس فیکٹری کے مالکین کو پولیس کی حمایت حاصل تھی اسی لیے یہ فیکٹری گنجان آبادی میں موجود تھی۔ کئی مرتبہ مقامی لوگوں نے اس فیکٹری کے خلاف احتجاج کیا مگر پولیس نے فیکٹری مالکین کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ اس معاملے میں حکومت کے دو وزراء جیوتی پریو ملک اور رتھن گھوش کے نام سامنے آرہے ہیں جن کی سرپرستی فیکٹری مالکین کو حاصل تھی اسی وجہ سے پولیس کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہے۔
سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس پنکج کے مطابق جو کچھ مئی میں ایگرا میں ہوا وہ اب دتہ پوکر میں ہوا۔ ان چند مہینوں میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ یہ ایک سنگین انتظامی کوتاہی ہے۔ ایگرا کے بعد توقع تھی کہ غیر قانونی فیکٹریوں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی اور اس طرح کے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے مگر اتنی جلدی اس طرح کے واقعات دہرائے جائیں گے ہمیں اس کی توقع نہیں تھی۔ مقامی پولیس انچارج کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے کیوں کہ فیکٹری کے مالک کی گرفتاری ہوئی اور ضمانت پر رہا ہونے کے بعد اس نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ تعلیمی اور سیاسی مبصر بسوناتھ چکرورتی جنہوں نے انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ کے ایک پروجیکٹ پر جس کا عنوان ’’مغربی بنگال میں سیاسی تشدد کی نوعیت اور اس کا دائرہ کار‘‘ تھا، کام کر چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت ایگرا سانحہ سے سبق سیکھنے میں ناکام رہی ہے۔ اس واقعے سے بنگال پولیس کی گرتی ہوئی کارکردگی اور جرائم کے خلاف کاروائی کے تئیں ان کے عزم واضح ہوتے ہیں۔ چکرورتی کہتے ہیں کہ بنگال پولیس سیاست زدہ ہوچکی ہے۔ وہ حکم رانوں کے اشاروں پر اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں جبکہ پٹاخوں کی یہ غیر قانونی فیکٹریاں ممکنہ طور پر خام بموں کی تیاری میں ملوث ہیں جو مقامی پولیس انتظامیہ کی ناک کے نیچے کام کر رہی ہیں۔ پنچایت انتخابات میں بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات ہوئے اور بموں کا استعمال کیا گیا جس سے 74 افراد کی موت ہوئی۔
اس واقعے نے جہاں ریاست کی امن و امان کی صورتحال کو بے نقاب کیا وہیں ریاست میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔ دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بے روزگاری سے مجبور افراد اس طرح کے خطرناک کام کر کے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔غیر قانونی فیکٹریوں سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی بتاتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں ایسے کئی خاندان ہیں جن کے گھر کے سارے افراد غیر قانونی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ ان فیکٹریوں میں سارا دن کام کرنے کے باوجود ماہانہ دس ہزار روپے سے زائد کوئی بھی نہیں کماتا ہے۔صرف فیکٹریوں کے مالکین کماتے ہیں اور جلد امیر ہو جاتے ہیں۔ ممتا بنرجی اگرچہ روزگار فراہم کرنے کے دعوے کرتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مغربی بنگال میں دیہی معیشت کافی دباؤ کا شکار ہے۔ بامعنی روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی کمی نے ایک خلا پیدا کر دیا ہے جسے غیر قانونی سرگرمیاں تیزی سے پر کر رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے منریگا کے لیے مختص کیے گئے فنڈز میں بتدریج کمی نے اس صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ترنمول کانگریس کے ترجمان نے الزام کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کی ہے۔
آئی ایس آئی کلکتہ میں معاشیات کے پروفیسر اندرنیل داس گپتا نے کہتے ہیں کہ جب بھی بنگال میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے یا کسی حادثے میں بنگالی شہری کی موت ہوتی ہے تو ریاستی حکومت یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ منریگا کی رقم مرکزی حکومت جاری نہیں کر رہی ہے۔ ریاست میں منریگا بند ہے اس لیے لوگ بے روزگاری کی وجہ سے دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منریگا بند ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع میں نمایاں کمی آئی ہے مگر یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ بے روزگاری کی صرف یہی ایک وجہ ہے۔ چاہے یہ کورومنڈل ریل حادثہ ہو، میزورم میں ریلوے پل کا انہدام ہو یا خام بم فیکٹری میں دھماکہ ہو، بنگال حکومت ہر جگہ یہی دلیل کا استعمال کرتی ہے۔ دراصل وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے بلند و بانگ دعوے کے باوجود ریاست کے دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں۔ جوٹ مل کے کارخانے بند ہوگئے ہیں جبکہ اس کی متبادل کوئی صنعت نہیں آئی ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے پاس اب دو ہی مواقع ہیں کہ یا وہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں ہجرت کر جائیں اور بنگال سے دوگنی اجرت پر کام کرکے کمائیں یا روزی روٹی کے لیے پٹاخے کے کارخانوں جیسے غیر قانونی اور خطرناک کاروبار سے وابستہ ہوجائیں ۔
دتہ پوکر میں دھماکہ کے بعد مغربی بنگال پولیوشن کنٹرول بورڈ اور حکومت آمنے سامنے ہوگئے ہیں۔ ڈبلیو بی پی سی بی کے چیف قانونی افسر نے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) کے مشرقی علاقہ کے بنچ میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں ریاستی حکومت پر 5,500 غیر قانونی فیکٹریوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا الزام لگایا ہے، جن میں مینوفیکچرنگ فیکٹریاں اور گودام بھی شامل ہیں۔ بورڈ نے الزام عائد کیا کہ این جی ٹی کے حکم کی بار بار خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اس وقت بنگال میں صرف سات گرین کریکر مینوفیکچرنگ یونٹ ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم پریبیش اکیڈمی نے جو ماحولیاتی آلودگی کے خلاف رضاکارانہ کام کرتی ہے، ایگر دھماکہ کے بعد حکومت بنگال کو خط لکھ کر حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی مگر حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ نیشنل گرین ٹربیونل، ایسٹرن زون بنچ نے 16 اکتوبر 2015ء کو حکومت کو غیر قانونی پٹاخہ فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت دی مگر حکومت نے ان سنی کی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ممتا حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے تئیں بھی عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔
ایگرا دھماکہ کی طرح دتہ پوکر دھماکے بعد گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور حکومت اس عزم کا اعادہ کر رہی ہے کہ ریاست سے غیر قانونی فیکٹریوں کا خاتمہ کردیا جائے گا۔حکومت نے کچھ قوانین میں بھی تبدیلی بھی کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ چند گرفتاریاں کرنے اور ایک دو بیان بازی سے کیا مسائل حل ہو جائیں گے؟ غیر قانونی پٹاخہ فیکٹریوں کا معاملہ لا اینڈ آرڈر، روزگار اور ماحولیات سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک ان تینوں پر یکساں توجہ نہیں دی جائے گی اس وقت حالات بہتر ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023