غزہ کے فلسطینی، بدنام زمانہ جیل گوانتاناموبے کے قیدیوں سے بھی کم جگہ میں محصور

23 لاکھ فلسطینی پچپن مربع کلومیٹر میں قید ۔ ہر فرد کو دنیا کی بدنام زمانہ جیل گوانتانامو کے قیدی سے بھی کم جگہ میسر

0

یورو-میڈ مانیٹرکی رپورٹ

ہر خاندان کئی بار دربدر ۔ محفوظ کہلانے جانے والے زونس بھی موت کے پھندے بن گئے۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتی کارروائی ناگزیر
فلسطین، مقبوضہ علاقہ ۔ اسرائیلی جارحیت کو 21ماہ مکمل ہو چکے ہیں اور غزہ پٹی کے فلسطینی اب اس محصور خطے کے صرف 15فیصد سے بھی کم حصے—یعنی بمشکل پچپن مربع کلومیٹر—میں قید کر دیے گئے ہیں۔ لگ بھگ 23 لاکھ انسان بدترین گنجائش، گھٹن زدہ فضا اور خوفناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، حتیٰ کہ ان کے حصے کی جگہ بدنام زمانہ جیل گوانتاناموبے کے قیدیوں سے بھی کم ہے۔
یہ آبادی اس تنگ و تاریک گوشے میں مسلسل بمباری، محاصرے، پانی، خوراک، علاج اور پناہ سے محرومی کے عالم میں محبوس ہے اور نہ صرف اپنے اجڑے علاقوں کو لوٹنے سے روکی گئی ہے بلکہ ان کے وجود کو مٹانے کی ایک منظم نسل کشی کی پالیسی کا شکار ہے۔ یہ اسرائیلی منصوبہ قتلِ عام، جبری بے دخلی، قحط اور انسانی زندگی کی منظم تباہی پر مبنی ہے، جس کا مقصد فلسطینی قوم کو ان کے وطن سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔
اب صورتحال محض بمباری اور قتل تک محدود نہیں رہی بلکہ غزہ کے مکمل صفایے کا منظم منصوبہ بن چکی ہے۔ یہاں کے باشندوں کو اجتماعی قیدیوں کی طرح ایک مختصر علاقے میں محدود کر دیا گیا ہے، جہاں ہر لمحہ عسکری نگرانی اور براہ راست نشانے کا خطرہ ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے تقریباً 85 فیصد علاقے کو جبری انخلا کے احکام یا غیر قانونی فوجی کنٹرول کے ذریعہ ممنوعہ علاقہ بنا دیا ہے۔
یہ اقدامات کسی عارضی ہنگامی حالت کا نہیں بلکہ ایک مستقل منصوبہ بند عمل کا حصہ ہیں، جن کا مقصد غزہ کی سماجی، جغرافیائی اور آبادیاتی شناخت کو مٹانا ہے۔
آج غزہ کے عوام شدید ہجوم، دائمی بمباری اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے سبب بدترین انسانی حالات میں جی رہے ہیں۔ یہاں فی مربع کلومیٹر اوسطاً چالیس ہزار افراد مقیم ہیں، جب کہ المَواسی کا علاقہ سینتالیس ہزار افراد فی مربع کلومیٹر کی تنگ ترین گنجائش کے ساتھ دنیا کا سب سے گنجان آباد مقام بن چکا ہے۔
یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک پیہم جاری اسرائیلی جرم کی گواہی ہے جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے دن دہاڑے رونما ہو رہا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے جبراً نکال کر بار بار بے دخل کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ ’’محفوظ انسانی زون‘‘ کہلانے والے علاقوں تک پہنچنے کے باوجود موت کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔
غزہ کی ہر ایک فیملی کئی بار نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے، بعض خاندان پانچ، چھ یا دس مرتبہ سے بھی زیادہ بے گھر کیے جا چکے ہیں۔ یہ سب کچھ اس پالیسی کی عکاسی کرتا ہے جو اجتماعی تعاقب اور جبری دربدر کرنے پر مبنی ہے — گویا تحفظ کی تلاش ہی ایک فریب بن چکی ہے۔
آج غزہ کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں رہا۔ نہ کوئی جائے پناہ باقی رہی، نہ عارضی چھت۔ بجلی، پینے کا پانی، صحت کی سہولتیں، خوراک — سب کچھ ناپید ہو چکے ہیں۔ گلیوں میں گندہ پانی بہتا ہے، بیماریاں، وبائیں، چوہے، کیڑے اور فاقہ کشی عام ہے اور زندگی کا ہر پہلو زوال پذیر ہو چکا ہے۔
مکینوں کے پاس اب صرف دو ہی راستے ہیں: یا تو بار بار جبراً نقل مکانی کرتے رہیں یا جسمانی و ذہنی اذیت اور روزمرہ کی بے بسی کو سہتے رہیں۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ غزہ کے باشندوں پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ کسی عارضی بحران کا شاخسانہ نہیں بلکہ طویل المدت، دانستہ اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جانے والی جبری بے دخلی ہے۔
یہ پالیسی اسرائیلی ریاست کے اس مقصد کی غماز ہے کہ وہ غزہ کو فلسطینی وجود سے خالی کر کے مکمل عسکری کنٹرول میں لے آئے اور اسے تاریخ کے نقشے سے مٹا دے۔ یہاں نقل مکانی محض جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ اسرائیلی حکمتِ عملی کا بنیادی ہدف ہے۔
یورو-میڈ مانیٹر کے مطابق جولائی کے اوائل تک اسرائیل غزہ کے 92 فیصد مکانات تباہ کر چکا ہے، 80 فیصد سے زیادہ اسکول اور 90 فیصد سے زائد ہسپتال مکمل یا جزوی طور پر منہدم کیے جا چکے ہیں، جب کہ تمام جامعات مکمل طور پر ملیا میٹ کر دی گئی ہیں۔
پورے کے پورے محلے، شہر، دیہات اور کیمپ — اپنے گھروں، سڑکوں، اداروں، بازاروں، مساجد، حتیٰ کہ یادوں سمیت — صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے ہیں۔ ملبہ تک ہٹا کر اسرائیل منتقل کر دیا گیا تاکہ واپسی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے تحت کسی مقبوضہ علاقے سے افراد کی انفرادی یا اجتماعی جبری منتقلی ممنوع ہے، الاّ یہ کہ ان کی سلامتی یا فوری عسکری تقاضے اس کا تقاضا کریں۔ یہاں تک کہ اگر ایسی منتقلی ہو بھی، تو جنگ ختم ہونے پر انہیں واپس ان کے گھروں میں لوٹانا لازم ہے اور ان کی رہائش، خوراک، صحت، تحفظ اور اہلِ خانہ کے اتحاد کو ہر ممکن حد تک یقینی بنایا جانا چاہیے۔
غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ان سب اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے — نہ کوئی فوری عسکری مجبوری ہے، نہ کسی قسم کی انسانی سہولت دی جا رہی ہے، نہ واپسی کی اجازت ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور سنگین جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
جب کسی شہری آبادی کے خلاف منظم حملے کے تحت ایسی جبری نقل مکانی کی جائے تو یہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم اسٹیچیوٹ کے مطابق ’’انسانیت کے خلاف جرم‘‘ کی تعریف میں آتا ہے۔
اس سے بھی سنگین جرم یہ ہے کہ جب قتل عام، مصنوعی قحط، طبی سہولتوں کی عدم فراہمی، واپسی کی ممانعت اور عوامی سطح پر نسل کشی کے اعلانات ایک ساتھ وقوع پذیر ہوں ۔ تو اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اسرائیل فلسطینی قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے دانستہ ایسی تباہ کن صورتحال مسلط کر رہا ہے۔ یہ سب ’’نسل کشی‘‘ کی قانونی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
یہ جبری انخلا، قتل، تباہی اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا اسرائیل کے اس منصوبے کا واضح جزو ہے جس کا ہدف فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے مکمل طور پر بے دخل کرنا ہے — خاص طور پر غزہ سے باہر۔
گزشتہ بیس مہینوں میں ہونے والے مظالم — دو لاکھ سے زائد افراد کا قتل یا زخمی ہونا، پورے شہروں کی تباہی، بنیادی ڈھانچے کا انہدام اور سماجی و معیشتی نظام کا مکمل زوال — اس وسیع تر منصوبے کی کڑیاں ہیں جس کا مقصد فلسطینی قوم کو مٹانا ہے۔
یہ جبری بے دخلی اسرائیلی آبادکاری پر مبنی نوآبادیاتی منصوبے کا تسلسل ہے، جس کی جڑیں فلسطینیوں کے وجود کی نفی اور زمین پر قبضے میں پیوست ہیں۔ تاہم، موجودہ مرحلہ اپنی شدت، وسعت اور بے رحمی میں بے مثال ہے، جس میں 7 اکتوبر 2023 سے آج تک غزہ کی پوری 23 لاکھ آبادی کو نشانہ بنایا گیا ہے — نسل کشی، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور جبری نقل مکانی کی شکل میں۔
یہ نقل مکانی کسی ’’انتخاب‘‘ کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ایسی شرط بنا دی گئی ہے جس پر صرف زندہ رہنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ یہ آج کی تاریخ کی منصوبہ بند اجتماعی بے دخلی کی سب سے واضح مثالوں میں سے ایک ہے۔
یورو-میڈ مانیٹر کا عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ وہ اس تباہی کو ’’انخلا‘‘ نہیں بلکہ ایک منظم نسل کشی تسلیم کرے۔ محض مذمت یا افسوس کافی نہیں، دنیا کو اس نسل کشی کی تکمیل کے خلاف عملی طور پر کھڑا ہونا ہوگا، تاکہ فلسطینیوں کا وجود، ان کی عزت اور ان کی زمین پر قیام کا حق محفوظ رہ سکے۔
تمام ممالک پر لازم ہے کہ وہ فرداً اور مشترکہ طور پر فوری اقدام کریں:
فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات نافذ کیے جائیں،
اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین اور عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کا پابند بنایا جائے،
مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور
متاثرین کو انصاف، تحفظ اور ازالہ فراہم کیا جائے۔
عالمی برادری کو اسرائیل کے خلاف معاشی، سفارتی اور عسکری پابندیاں عائد کرنی چاہئیں، جن میں اسلحہ کی فراہمی پر پابندی، مالی و عسکری امداد کا خاتمہ، مجرم اہلکاروں کے اثاثے منجمد کرنا، ان پر سفری پابندیاں لگانا، اسرائیلی فوجی کمپنیوں کو عالمی منڈیوں سے خارج کرنا اور ان کی بینکاری و تجارتی سہولتیں روکنا شامل ہو۔
یورو-میڈ مانیٹر نے غزہ کی فوری اور مکمل تعمیرِ نو کا مطالبہ کیا ہے تاکہ مکانات، انفراسٹرکچر، ہسپتال اور تعلیمی ادارے بحال ہوں اور فلسطینیوں کو دوبارہ با عزت زندگی میسر آ سکے۔
مزید برآں، اقوام متحدہ کی نگرانی میں محفوظ انسانی راہداریوں کا قیام فوری طور پر عمل میں آنا چاہیے تاکہ خوراک، دوا اور ایندھن ہر علاقے تک پہنچ سکے، اور اس پر بین الاقوامی نگران ادارے مکمل نگہبانی کریں۔
ایسے ممالک جن کے ہاں عالمی دائرہ اختیار کی عدالتیں موجود ہیں، انہیں اسرائیلی سیاسی و عسکری قیادت کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر کے قانونی کارروائی شروع کرنی چاہیے اور ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے جنہوں نے فلسطینیوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
علاوہ ازیں، بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کو چاہیے کہ وہ اسرائیلی جرائم کی فوری تحقیقات مکمل کر کے ملوث تمام ذمہ داران کے خلاف وارنٹ جاری کرے اور ان جرائم کو باقاعدہ طور پر ’’نسل کشی‘‘ تسلیم کر کے عالمی ضمیر کو متوجہ کرے۔
( بشکریہ: countercurrents.org )

 

***

 اسرائیل نے غزہ کے 92 فیصد مکانات، 90 فیصد ہسپتال، 80 فیصد اسکول اور تمام جامعات تباہ کر دیے ہیں۔ کئی علاقے، محلے، مساجد، بازار اور ادارے زمین سے مٹا دیے گئے ہیں، حتیٰ کہ ملبہ بھی ہٹا کر اسرائیل منتقل کر دیا گیا تاکہ واپسی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔یہ تمام اقدامات محض جنگی حالات کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم، مستقل اور دانستہ پالیسی کا حصہ ہیں، جن کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے مکمل طور پر بے دخل کرنا ہے۔ یہ عمل چوتھے جنیوا کنونشن اور روم اسٹیچیوٹ کے تحت جنگی جرم اور نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025