غزہ کے سیکڑوں تکنیکی ماہرین اور انجینئرز اسرائیل کے نشانے پر

ہیثم نباہین، براء سقا، احمد قدورۃ اور طارق ثابت جیسے متعدد ذہین ترین دماغ شہادت کے درجے پر فائز

محمد العلی

اکتوبر 2022 میں دنیا نے ایک فلسطینی سافٹ ویئر انجینئر کو بچانے کے دلچسپ نظارے کا مشاہدہ کیا تھا ، جبکہ ملائشیا کے دارالحکومت کے مضافات میں موساد کے ساتھ تعاون کرنے والے مقامی ایجنٹوں نے ان کو قید کر لیا تھا اور چند دنوں تک اسرائیلی انٹلیجنس نے اس سے پوچھ تاچھ بھی کی تھی۔ اس وقت دنیا کو پتہ چلا کہ عمر کا زندہ رہنا ملائشیا اور ترکی کے درمیان انٹلیجنس تعاون کی وجہ سے تھا، جہاں عمر نے موساد ایجنٹوں کے ذریعے کوالالمپور کے سفر پر جانے سے پہلے قیام کیا تھا اور چند سالوں تک کام بھی کیا تھا۔ یہ وہی عمر ہے جو ایک پروگرامر ہے اور غزہ پٹی سے اس کا تعلق ہے۔ 2015 میں اسرائیلی آئرن ڈوم کے نظام کو معطل کرنے کا سہرا ان ہی کے سر جاتا ہے۔
2022 کے موسم گرما میں دو ملکوں کے ذریعے اقامت کی سہولت فراہم کر کے جو سیکیورٹی عمر کو ملی تھی وہ ان کے ان بہت سارے ساتھیوں کو نہیں مل سکی جو غزہ پٹی میں رہ رہے تھے، لہٰذا جب 8 اکتوبر 2023 کو اسرائیل نے غزہ پٹی اور ان کے شہریوں پر حملہ کرنا شروع کیا تو حقوق انسانی کی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق جس طرح خصوصی طور پر غزہ کے ڈاکٹروں کو حملے کا نشانہ بنایا گیا اسی طرح، غزہ کے پروگرامروں انجینئروں اور ہائی ٹیک کمپنیوں کو بھی خصوصی طور پر حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا مختصر سا تذکرہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
ہیثم نباہین:
37 سالہ سافٹ ویئر انجینئر ہیثم نباہین جو کہ اپنی فیلڈ کے ماہر تھے، اسرائیلی حملے کے بعد وسطی غزہ کے بریج مہاجر کیمپ سے اپنی بیوی انجینئر نسمہ صادق اور اپنے دو بچے لیان اور محمد کے ساتھ جنوبی غزہ پٹی سے رفح کی طرف ہجرت کر گئے، دو مہینے بعد فروری 2024 میں اچانک ان کے اس گھر پر جہاں انہوں نے پناہ لے رکھی تھی، ایک اسرائیلی میزائل گرا اور فوراً ہی ان کے دونوں بچے شہید ہو گئے اور ان کی بیوی شدید ترین زخمی ہو گئیں اور وہ خود معجزاتی طریقے سے بچ گئے اور جب ہیثم رفح سے مخیم بریج واپس آگئے تو پھر اچانک اسرائیلی فضائیہ نے ان کے گھر پر بمباری کر دی، جس کے نتیجے میں وہ خود، ان کی بیوی، والدین اور بہن شہید ہو گئیں۔
ان کے بھائی عزالدین نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر ان کے بھائی کو قتل کرنے کے لیے ایک سے زیادہ بار حملہ کیا، کیونکہ وہ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ماہر تھے۔ ہیثم اسلامی یونیورسٹی غزہ سے فارغ التحصیل تھے اور انہوں نے ملٹی میڈیا اور ویب ڈیویلپمنٹ میں تخصص کیا تھا۔ ان کے بھائی کے مطابق فلسطین اور عرب دنیا میں ان کا شمار اہم پروگرامرز زمیں ہوتا تھا۔
براء سقا:
براء سقا کی بیوی انجینئر رغد ابو عرجہ کہتی ہیں: ان کے شوہر 1996 میں غزہ میں پید اہوئے، 2018 میں اسلامی یونیورسٹی غزہ سے فارغ ہوئے، سافٹ ویئر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تخصص کیا اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ان کا مقالہ کمپیوٹر انجینئرنگ میں تھا، اس کے بعد انہوں نے اپنے ایک خاص پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کر دیا اور ایک اپنی کمپنی (DITS) کھول لی اور وہ کمپنی کے ٹیکنیکل اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھے۔
اپنی کمپنی کے ساتھ ساتھ 2020 میں انجینئر براء فلسطین کے باہر کام کرنے والی ایک بڑی کمپنی میں ٹیکنیکل ڈائریکٹر ہو گئے۔
2022 میں انہوں نے اپنی صلاحیت کو مزید ڈیولپ کرنا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے میدان میں کام کرنا شروع کر دیا، پھر کمپیوٹر انجینئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اسلامی یونیورسٹی غزہ کے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ڈپارٹمنٹ سے ملحق ہو گئے ۔سقا نے ان کی کئی ساری کمپنیوں کے ساتھ کام کیا جو اس میدان میں خاص تھیں، وہ CTO کمپنی میں تکنیکی ڈائریکٹر تھے اور پروگرامنگ کورسز اور خصوصی ورکشاپ مہیا کرنے میں سرگرم تھے۔ ان کی بیوی رغد کے مطابق انجینئر سقا نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی کاروبار کے علاوہ کئی سارے سسٹمز، اپلیکیشنز اور ویب سائٹس کئی ساری کمپنیوں اور کلائنٹس کے لیے بنائے۔ رغد بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر پروگرامنگ اور ڈیزائننگ میں پرجوش تھے، کیونکہ جب وہ ہائی اسکول میں تھے اس وقت سے ہی الیکٹرانک اپلیکیشنز بنانا شروع کر دیا تھا اور مسلسل اس کو ڈیویلپ کرتے رہے یہاں تک کہ 2014 میں اسلامی یونیورسٹی غزہ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ سے منسلک ہو گئے اور الیکٹرانک ویب سائٹ اور موبائل ایپلیکیشنز کو ڈیویلپ کرنے اور ڈیزائننگ کے میدان میں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنا بھی شروع کر دیا۔
سقا غزہ کے رمال محلے میں رہتے تھے اور اسرائیلی جنگ کے دوران محلہ سامر میں منتقل ہو گئے تھے جہاں ان کا سسرال تھا اور وہیں پر نومبر 2023 میں اپنی دو سالیوں، ساس اور سسر کے ساتھ اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے۔
احمد قدورۃ:
انجینئر احمد ان پروگرامرز میں سے ایک تھے جو اسرائیلی حملے کا نشانہ بنے، وہ غزہ پٹی اور عالم عربی کی سطح پر ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑے ماہرین میں سے ایک تھے، اسرائیلی فوج نے نومبر میں وسطی غزہ کے جبالیا کیمپ میں ان کے گھر پر حملہ کیا جس میں وہ اپنے خاندان کے کئی سارے افراد کے ساتھ شہید ہو گئے۔ احمد قدورۃ جو کہ ابھی صرف 22 سال کے تھے لیکن غزہ پٹی کی سطح پر ان کا ایک اہم گرافکس ڈیزائنر کے طور پر شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے GSG کے فری لانس اکیڈمی سے گریجویشن کیا اور اسلامی یونیورسٹی سے تخلیقی ٹیکنالوجی میں ڈپلوما کیا اور 2018 میں کمیونٹی میڈیا انسٹیٹیوٹ سے فراغت حاصل کی، اسی کے ساتھ ساتھ وہ کمپنیوں اور پروجیکٹس میں ڈیولپر کی حیثیت سے کام بھی کر رہے تھے۔
طارق ثابت:
اسرائیلی فوج نے انجینئر طارق ثابت پر وسطی غزہ کے دیر البلح میں اکتوبر میں ان کے گھر پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں وہ اپنی بیوی، بیٹے ، والدین اور گھر کے کئی افراد کے ساتھ شہید ہو گئے۔
اس تیس سالہ انجینئر کا پروگرام منیجمنٹ کے بڑے ماہرین میں شمار ہوتا تھا، وہ UCAS ٹیکنالوجی کمپنی میں سنیئر پروگرام منیجر کے عہدے پر فائز رہے، یہ کمپنی غزہ میں ایک فلسطینی کمپنی ہے جو کاروباری خیالات کو فروغ دینے اور منیجمنٹ اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
شہید امریکہ کی میکاگین اسٹیٹ یونیورسٹی سے گریجویٹ تھے، ان کی CV کے مطابق انہیں مختلف عالمی ترقیاتی اداروں، مختلف پیچیدہ پروجیکٹس اور عالمی امدادی تنظیموں میں کام کرنے کا تجربہ حاصل تھا۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے مسلسل فلسطینی پروگرامرز کو ٹارگٹ کرنے اور انہیں قتل کرنے کے سلسلے میں اسرائیلی معاملات پر نظر رکھنے والے حلمی موسیٰ الجزیرۃ نیٹ سے کہتے ہیں کہ یہ پہلی جنگ ہے جس میں اسرائیلی فوج صرف فوجیوں کو نہیں بلکہ پورے طور پر تعلیمی، معاشی، اجتماعی، دینی، تاریخی اور ثقافتی اداروں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ اور اسی طرح ڈاکٹروں، انجینئروں، مختلف میدانوں کے ماہرین، علمی دنیا سے وابستہ لوگوں، ہسپتالوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور خاص طور سے اسلامی یونیورسٹی غزہ اس کے نشانے پر ہے۔
فلسطینی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اتحاد کی تنظیم کے ایڈوائزر ماہر شبیر نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر اور پلاننگ کے تحت غزہ پٹی میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں اور پروگرامرز کو حملے کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ غزہ میں اتحاد کے پاس رجسٹرڈ کل 44 انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کمپنیاں ہیں جس میں سے 86 فی صد کمپنیاں مکمل طور پر اسرائیلی حملے میں تباہ ہو چکی ہیں۔
ماہر شبیر کے مطابق جنگ سے پہلے کمپنیوں کے پاس 525 کارکن تھے اور اب صرف 141 کارکن بچے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اس جنگ میں 35 پروگرامرز کو حملے کا نشانہ بنایا۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ماہر اور ریسرچر نور نعیم نے بتایا کہ غزہ پٹی میں ٹیکنالوجی کے میدان کو پلاننگ کے ساتھ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اورآرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ٹیکنالوجی کے کام کے انفراسٹرکچر کو غزہ پٹی کو ترقی کرنے سے روکنے اور اس میدان میں کام کے مواقع کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا ہے، اسی طرح اسرائیلی فوج نے غزہ میں موجود لائبریریوں اور ان یونیورسٹیوں کو جن سے ہزاروں انجینئرز اور پروگرامرز فارغ ہوئے تھے، تباہ کر دیا ہے اور ان تمام انفراسٹرکچر کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے جس کا تعلق ٹیکنالوجی کے میدان سے تھا۔
مترجم: محمد اکمل علیگ
***

 

***

 غزہ پٹی میں ٹیکنالوجی کے میدان کو پلاننگ کے ساتھ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اورآرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ٹیکنالوجی کے کام کے انفراسٹرکچر کو غزہ پٹی کو ترقی کرنے سے روکنے اور اس میدان میں کام کے مواقع کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا ہے، اسی طرح اسرائیلی فوج نے غزہ میں موجود لائبریریوں اور ان یونیورسٹیوں کو جن سے ہزاروں انجینئرز اور پروگرامرز فارغ ہوئے تھے، تباہ کر دیا ہے اور ان تمام انفراسٹرکچر کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے جس کا تعلق ٹیکنالوجی کے میدان سے تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024