غزہ پر تازہ حملوں کے لیے اضافی محفوظ دستے

اہل غزہ کو بھوکا مار کر مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ممکن نہیں

0

مسعود ابدالی

یروشلم کے قریب خوف ناک آگ، چھ ہزار ایکڑ پر لگے عرقد کے درخت جل کر خاکستر
عالمی فوج داری عدالت کا خوف، اسرائیلی سپاہیوں کے لیے بے نامی اعزاز
اپنی سیاست کے لیے ہمارے کندھے استعمال نہ کرو، پانچ سو یہودی علما کا صدر ٹرمپ کو خط
اسرائیل کی ہنگامی کابینہ نے غزہ میں عسکری کارروائیوں کا دائرہ مزید بڑھانے اور حملوں میں شدت لانے کے لیے اضافی محفوظ (Reserve) دستوں کو طلب کر لیا ہے۔ غزہ میں مارے جانے والے اسرائیلی سپاہیوں کے اعزاز میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ قیدیوں کو بحفاظت واپس لانا بہت ضروری ہے لیکن ہمارا بلند ترین ہدف (Supreme Goal) فتح مبین اور مزاحمت کاروں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ اسی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے خاتون اول سارہ نیتن یاہو نے انکشاف کیا کہ غزہ میں اب صرف 24 قیدی زندہ بچے ہیں۔ انہوں نے اپنی معلومات کا ماخذ نہیں بتایا اس لیے کہ اسرائیلی شعبہ سراغ رسانی شاباک (Shin Bet) کے مطابق 59 قیدی مزاحمت کاروں کی تحویل میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے غرب اردن میں قبضہ کی جگہ پر بنائے گئے مدرسے میں طلبہ اور ربائیوں (ائمہ) سے اپنے جذباتی خطاب میں وزیر خزانہ بیزلیل اسموترچ نے کہا ’خدا کی مدد اور اپنے جوانوں کی قربانیوں کے صدقے ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک غزہ فلسطینیوں سے پاک، شام تحلیل، لبنانی مزاحمت کار فنا اور ایران کا جوہری پروگرام ملیامیٹ نہیں ہو جاتا‘ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)۔ یعنی معاملہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ یہ مہم جوئی گریٹر اسرائیل کا حصہ نظر آ رہی ہے۔ سفارتی سرگرمیوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرب و مسلم ممالک بھی اہل غزہ کی شکست کے منتظر ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ تزویراتی امور ران ڈرمر نے کابینہ اجلاس میں انکشاف کیا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند کئی ممالک غزہ میں اسرائیل کی فتح کا انتظار کر رہے ہیں۔ ران ڈرمر پُر اعتماد ہیں کہ اسرائیل اگلے بارہ ماہ میں یہ ہدف حاصل کرلے گا۔
اسرائیلیوں کا خوش فہمی کی حد تک اعتماد اپنی جگہ لیکن اہل غزہ کی مزاحمت میں تادم تحریر کوئی کمی یا کمزوری نظر نہیں آئی جس کی غیر جانب دار سفارتی ماہرین بھی تصدیق کر رہے ہیں۔ اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر، امن بات چیت میں شریک ایک اعلیٰ سطحی مصری افسر نے 2 مئی کو لبنانی جریدے الاخبار سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل اور امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اہل غزہ کو بھوکا مار کر وہ مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ جنگ کا فوری خاتمہ اور غزہ سے فوجی انخلا باقی ماندہ قیدیوں کو بحفاظت بازیاب کرنے کا واحد راستہ ہے۔
اتوار (4 مئی) کی شام تل ابیب کے بن گوریان ایئرپورٹ پر حوثیوں کے میزائیل حملے کے بعد سارے اسرائیل پر سراسیمگی طاری ہے۔ اس روز یمن سے پانچ منجنیقی (ballistic) میزائیل داغے گئے۔ تل ابیب، یروشلم، بحیرہ مردار کے ساحل، حتیٰ کہ شمال میں وادی اردن تک سائرن گونجتے رہے اور لاکھوں اسرائیلیوں نے چھٹی کا دن زیر زمین تہہ خانوں میں گزارا۔ اسرائیلی فضائیہ نے بن گوریان ایئرپورٹ کی طرف آنے والے میزائیل کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ میزائیل ایئرپورٹ کے بہت قریب سڑک پر گرا جس سے چھ اسرائیلی شدید زخمی ہوگئے۔
غزہ مزاحمت کاروں کے خلاف مقتدرہ فلسطین (PA) کی مہم بھی زور و شور سے جاری ہے۔ اسرائیلی موقف کی حمایت کرتے ہوئے مقتدرہ کے سربراہ محمود عباس نے غزہ میں غذائی قلت کا الزام مزاحمت کاروں پر لگایا کہ ان کے مسلح جتھے امدادی سامان لوٹ رہے ہیں۔ خود اسرائیلی ذرائع کے مطابق گزشتہ 60 دنوں سے ایک بھی امدادی ٹرک غزہ نہیں پہنچا تو معلوم نہیں مزاحمت کار کیا لوٹ رہے ہیں۔
اس ہفتے یروشلم کی جھاڑیوں میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے اسرائیل کے شہری دفاعی نظام کی قلعی کھل گئی۔ آگ چند گھنٹوں میں مرکزی شاہراہ تک آگئی۔ اتفاق سے یہ تباہ کن آگ 29مئی کو بھڑکی جب فوج سے ہم آہنگی کے لیے میموریل ڈے منایا جارہا تھا اور آگ کے پھیلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اس کے شعلے یروشلم کے مضافات میں پریڈ گراونڈ تک پہنچ گئے اور وہاں موجود کچھ ٹینک بھی شعلوں کی لپیٹ میں آگئے جن پر سوار سپاہیوں کو بہت مشکل سے نکالا گیا۔ سارے ملک سے فائر انجن جمع کرلینے کے بعد بھی آگ پر قابو نہ پایا جاسکا تو یونان، کروشیا، اٹلی، یونانی قبرص، بلغاریہ، برطانیہ، فرانس، چیک ریپبلک، سویڈن، ارجنٹینا، ہسپانیہ اور آذربائیجان سے ماہرین اور کیمیکل طلب کیے گئے۔ یعنی غزہ، بیروت، شام، یمن اور غربِ اردن کو جلا کر خاک کر دینے والے اسرائیل کے پاس اپنے گھروندوں میں لگی آگ بجھانے کے وسائل تک میسر نہیں ہیں۔
یکم مئی کو درجہ حرارت اور ہوا کی رفتار کم ہونے کی بنا پر آگ پھیلنے کی رفتار کم ہوئی جس کے بعد اس پر قابو پالیا گیا۔ یہودی روایات کے مطابق نزول مسیح کے وقت عرقد (Nitraria Schoberi) کے درخت انہیں تحفظ فراہم کریں گے چنانچہ یروشلم کے قریب جنگلات میں عرقد کے 24 کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جو اس آگ سے بری طرح متاثر ہوئے اور خوف ناک آگ نے عرقد جنگلات کے 6000 ایکڑ رقبے کو جلا کر خاک کر دیا۔ درجنوں گاڑیاں اور قیمتی املاک کے علاوہ دو درجن سے زیادہ لوگ جھلس کر شدید زخمی ہوئے۔
حکومت نے آتش زنی کا الزام فلسطینیوں پر تھوپ دیا اور یروشلم کے ام طوبیٰ محلے کے ایک پچاس سالہ شخص کے قبضے سے برآمد ہونے والے لائٹر اور ٹشو پیپر کو بطورِ ثبوت پیش کرکے اس کے خلاف دہشت گردی اور مجرمانہ آتش زنی کا پرچہ کاٹ دیا گیا۔ دلچسپ بات کہ فرزند اول یائر نیتن یاہو نے ٹویٹر (X) پر لکھا کہ ’آگ بائیں بازو کے انتہا پسندوں نے بھڑکائی تاکہ یوم آزادی منایا نہ جا سکے‘
عالمی فوج داری عدالت (ICC) نے نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع اور فوج کے سابق سرابرہ کے خلاف جو پروانہ گرفتاری جاری کیے ہیں، ان کی وجہ سے عام اسرائیلی سپاہی سخت خوف زدہ ہیں۔ غزہ میں ’شجاعت و بہادری‘ کا مظاہرہ کرنے والے 120 سپاہیوں کو تمغات سے نوازا گیا لیکن ICC کے خوف سے یہ تقریب خفیہ رکھی گئی اور میڈل بھی نام کے بجائے سپاہیوں کے بیج نمبر کو عطا کیے گئے۔ تقریبِ تقسیمِ اعزاز میں صدر اور فوج کے چیف آف اسٹاف سمیت کسی کو اپنا موبائل فون وہاں لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہند رجب فاونڈیشن نے تمغے لینے والے ان سپاہیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔
آئی سی سی کے پروانہ گرفتاری کو بنیاد بنا کر، ترکیہ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے خصوصی طیارے کو اپنی فضائی حدود میں پرواز کرنے سے روک دیا۔ نیتن یاہو 4 مئی کو سرکاری دورے پر باکو جا رہے تھے۔ وہ متبادل راستے یعنی بحیرہ روم سے شمال کی جانب خلیج یونان اور پھر بلغاریہ کے راستے بحیرہ اسود عبور کر کے جارجیا کے اوپر سے ہوتے ہوئے آذر بائیجان جاسکتے تھے لیکن انہیں ڈر تھا کہ کہیں بلغاریہ اور جارجیا آئی سی سی کے وارنٹ پر عمل درآمد کے لیے ان کے جہاز کو اترنے پر مجبور نہ کردیں، چنانچہ دورہ آذربائیجان منسوخ کر دیا گیا۔
دنیا بھر میں نسل کشی کرنے والوں کا تعاقب جاری ہے۔ دو مئی کو لندن میں جب اسرائیلی اداکارہ غال غدوت (Gal Gadot) کی زیر تکمیل فلم The Runner کی شوٹنگ شروع ہوئی تو فلسطین پر بمباری بند کرو اور آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے مظاہرین سیٹ تک آگئے اور منتظمین شوٹنگ رکوا کر اداکارہ کو عقبی دروازے سے نکال کر لے گئے۔ غال غدوت سابق اسرائیلی فوجی ہیں۔
امریکہ میں غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک چلانے والے طلبہ کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی انتقامی کارروائی میں مزید شدت آگئی ہے۔ یکم مئی کو صدر ٹرمپ نے جامعہ ہارورڈ کا ٹیکس سے استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یعنی اب جامعہ کو دیے جانے والے عطیات پر معاونین کو ٹیکس میں چھوٹ نہیں ملے گی۔ صدر ٹرمپ کو شکایت ہے کہ جامعہ نے اسرائیل مخالف مظاہروں کو کچلنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے جامعہ ییل (Yale University) نے Yelies4Palestine کے بعد مرکزی تنظیم Students for Justice in Palestine (SJP) پر بھی پابندی لگا دی۔
لیکن طلبہ کی مزاحمت جاری ہے۔امریکی دارالحکومت کی جامعہ جارج ٹاون (Georgetown University) کے ریفرنڈم میں طلبہ نے اسرائیلی فوج سے وابستہ کسی ادارے میں جامعہ کے وقف فنڈ سے سرمایہ کاری نہ کرنے کی منظوری دے دی۔ تجویز کے حق میں 67.7 اور مخالفت میں 32.1 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 30 فیصد تھا۔ ریفرنڈم کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ووٹ ڈالنے کا کم سے کم تناسب 25 فیصد ہونا ضروری ہے۔ طلبہ کی سفارشات اب جامعہ کے بورڈ آر گورنرز میں پیش کی جائیں گی۔
تیس اپریل کو امریکی عدالت نے غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طالب علم محسن مہدوی کو رہا کر دیا۔ چونتیس سالہ مہدوی کو ایمیگریشن اور وزارت اندرونی سلامتی (DHS) کے ایجنٹوں نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ امریکی شہریت کے لیے انٹرویو دے رہا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے محسن مہدوی کے ملک بدری کا احکامات جاری کیے ہیں۔رہائی پر سیکڑوں نوجوان مہدوی کے استقبال کے لیے ورمونٹ (Vermont) کے ایمگریشن حراستی مرکز کے سامنے جمع ہو گئے۔ اپنے مداحوں سے خطاب کرتے ہوئے محسن مہدوی نے کہا ’میں صدر ٹرمپ اور ان کی کابینہ سے صاف اور دو ٹوک کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم آپ سے ڈرنے والے نہیں ہیں‘۔ غربِ اردن کے فرعا مہاجر کیمپ میں جنم لینے والے مہدوی نے اہل فلسطین کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہماری آزادی کے لمحات بہت قریب آ چکے ہیں۔
طلبہ کے خلاف انتقامی کارروائی پر یہودیوں کو بھی تشویش ہے۔ صاحبانِ بصیرت کو معلوم ہے کہ ماورائے قانون اقدامات کو نہ روکا گیا تو مسلمانوں پر برسنے والا یہ کوڑا کل کسی اور برادری کی پیٹھ بھی لہو لہان کر سکتا ہے۔ ساڑھے پانچ سو یہودی ائمہ (Rabbis) نے ٹرمپ انتظامیہ کے نام خط میں کہا ہے کہ اپنی سیاست کے لیے ہمارے کندھے استعمال نہ کرو۔ سام دشمنی (Antisemitism) کے نام پر مسلم طلبہ کے خلاف انتقامی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے یہودی علما نے اسے مذہبی آہنگی اور خود یہودیوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ علما نے اپنے خط میں لکھا کہ جامعات کی فنڈنگ ختم کرنا، طلبہ مظاہرین کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دینا اور یہودیوں کو آمرانہ ہتھکنڈوں کے جواز کے طور پر استعمال کرنا ہمیں محفوظ نہیں بناتا بلکہ اس سے امریکی یہودیوں کے خلاف خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم یہودی طالب علموں کے تحفظ کے بہانے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر ان گھناؤنے حملوں کو مسترد کرتے ہیں جو ہماری تعلیمی اور ثقافتی زندگی کے ناقابل تسخیر قلعے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے غزہ میں فاقہ کشی کے شکارلوگوں کی مدد کے لیے پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا کی بحریہ سے درخواست کی تھی کہ ایک مشترکہ بحری قافلے یا Flotilla کے ذریعہ غزہ کے لوگوں کے لیے امدادی سامان بھیجا جائے۔حافظ صاحب کی تجویز پر تو کسی نے کان نہ دھرا لیکن ترک، یورپ و فلسطینی رفاحی ادارے Freedom Flotilla Coalition(FCC) نے ایک جہاز پر خوراک اور ادویات غزہ بھیجنے کا اہمتام کیا جس کی نگرانی FCC کی رہنما گریٹا تھنبرگ (Greta Thunberg) کر رہی تھیں۔ گریٹا کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے ہے۔اس مشن کو الضمیر یا Conscience کا نام دیا گیا۔ الضمیر پر عملے کے 12 افراد کے ساتھ انسانی حقوق کے 4 کارکن بھی سوار تھے۔ کشتی پر دو مئی کی صبح اسرائیل نے مالٹا کے قریب ڈرون حملہ کیا جس سے کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن کشتی کے اگلے حصے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اس کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ مالٹا کے حکام نے تمام افراد کو بحفاظت کشتی سے نکال لیا۔ الضمیر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب یہ بین الاقوامی پانیوں میں تھی۔ اس اعتبار سے یہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی پانیوں میں جہاز رانی کے حقوق جتانے کے لیے امریکی بحریہ کے جہاز بحر جنوبی چین میں چینی ساحل کے قریب سفر کرتے ہیں۔ اسی دلیل پر چچا سام نے یمن کو کھنڈر بنا دیا کہ حوثیوں کے حملوں سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے بین الاقوامی پانیوں میں آزاد جہاز رانی متاثر ہو رہی ہے۔
پندرہ برس پہلے 31 مئی 2010 کو غزہ فریڈم فلوٹیلا کے عنوان سے ترک کشتی ماوی مرمرہ (MV Mavi Marmara) امدادی سامان کے ساتھ غزہ روانہ کی گئی تھی۔ چھ کشتیوں کے اس قافلے کا اہتمام Free Gaza Movement اور ترک تنظیم iHH نے کیا تھا۔ جب فلوٹیلا غزہ سے 190 کلو میٹر دور تھا تو ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اسرائیلی کمانڈو ان کشتیوں پر اترآئے، ان کی اندھا دھند فائرنگ سے 10 ترک کارکن جاں بحق ہوئے۔ اس قافلے کی ایک کشتی پر معروف صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے جنہوں نے بحفاطت نکلنے کے لیے اسرائیلی چھاپہ ماروں کی پیشکش مسترد کر دی اور آخر تک کشتی پر رہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 اس ہفتے یروشلم کی جھاڑیوں میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے اسرائیل کے شہری دفاعی نظام کی قلعی کھل گئی۔ آگ چند گھنٹوں میں مرکزی شاہراہ تک آگئی۔ اتفاق سے یہ تباہ کن آگ 29مئی کو بھڑکی جب فوج سے ہم آہنگی کے لیے میموریل ڈے منایا جارہا تھا اور آگ کے پھیلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اس کے شعلے یروشلم کے مضافات میں پریڈ گراونڈ تک پہنچ گئے اور وہاں موجود کچھ ٹینک بھی شعلوں کی لپیٹ میں آگئے جن پر سوار سپاہیوں کو بہت مشکل سے نکالا گیا۔ سارے ملک سے فائر انجن جمع کرلینے کے بعد بھی آگ پر قابو نہ پایا جاسکا تو یونان، کروشیا، اٹلی، یونانی قبرص، بلغاریہ، برطانیہ، فرانس، چیک ریپبلک، سویڈن، ارجنٹینا، ہسپانیہ اور آذربائیجان سے ماہرین اور کیمیکل طلب کیے گئے۔ یعنی غزہ، بیروت، شام، یمن اور غربِ اردن کو جلا کر خاک کر دینے والے اسرائیل کے پاس اپنے گھروندوں میں لگی آگ بجھانے کے وسائل تک میسر نہیں ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025