
غزہ نسل کشی کے 600 دن
لشکرِ جدعون یا Gideon's Chariot آپریشن کا آغاز۔ اسرائیل کا نیا مذہبی ٹچ
مسعود ابدالی
امریکہ غزہ کو کوچہ آزادی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے: صدر ٹرمپ
غزہ بے نامی پلاٹ یا قابل فروخت Real Estate نہیں: مزاحمت کاروں کا صدر ٹرمپ کو جواب
آزاد فلسطین کے حق میں حریدی فرقے کا جلوس، انتہا پسند وزیر کی بیوی کو طمانچے لگ گئے ۔امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک جاری
جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اس کے دو چار دن بعد یعنی 27 مئی کو غزہ نسل کشی کے 600 دن مکمل ہو جائیں گے اور اس وحشت کے ختم ہونے کا بظاہر کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے جنونی اتحادی غزہ کے ایک ایک شہری کے قتل یا انخلا سے پہلے بمباری بند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی نسل پرستوں کی غیر مشروط پشت پناہی کے لیے امریکہ کا عزم بہت واضح اور غیر مبہم ہے۔ گزشتہ ہفتے جب اسرائیلی وزیر اعظم نے اسوسی ایٹڈ پریس (AP) سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر حملے کسی صورت نہیں روکے جائیں گے۔ اگر مزاحمت کار قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوئے تو وقتی طور پر فائر بندی ہوگی اور قیدیوں کی باز یابی کے بعد حملے دوبارہ شروع کر دیے جائیں گے۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فلسطین کے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف نے صاف صاف کہا کہ امریکہ غزہ خونریزی ختم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالے گا۔ اگر مزاحمت کار فلسطینیوں سے مخلص ہیں تو ہتھیار رکھ کر غزہ چھوڑ دیں کہ اس کے سوا اسرائیلی حملے روکنے کا دوسرا اور کوئی راستہ نہیں۔
دوسروں سے کیا شکوہ کہ خود عرب دنیا کی جانب سے اس معاملے پر کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات اس کا کسی اہم نشست میں کہیں ذکر بھی سنائی نہیں دیتا۔ چند روز پہلے عرب شیوخ و سلاطین نے صدر ٹرمپ کی ایک مسکراہٹ پر اربوں ڈالر نچھاور کر دیے اور کسی کو ان مظلوموں کے حق میں ایک لفظ بولنے کی توفیق نہیں ہوئی بلکہ ہر جگہ ٹرمپ صاحب غزہ کے مزاحمت کاروں پر غُراتے رہے اور انتہائی رعونت سے بولے اگر میں امریکہ کا صدر ہوتا تو طوفان الاقصیٰ کا واقعہ ہی پیش نہ آتا۔ ساری دنیا کو انسانیت کے خلاف اس گھناونے جرم کی مذمت کرنی چاہیے۔ غزہ کے مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ غزہ موت کی وادی ہے، ایک عمارت بھی سلامت نہیں رہی۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ غزہ کو کنٹرول میں لے کر اسے کوچہ آزادی میں تبدیل کردے۔ ان ارشادات گرامی پر عرب رہنما انتہائی سعادت مندی سے سر جھکائے رہے لیکن اہل غزہ نے ترنت ایک بیان داغا کہ غزہ بے نامی پلاٹ یا قابل فروخت Real Estate نہیں۔ یہ فلسطینی ریاست کا اٹوٹ حصہ ہے۔ قتل عام اور نسل کشی کے باوجود ہم تھکے نہیں اور مزید قربانیوں کے لیے تیار و کمر بستہ ہیں۔ غزہ انخلا کے حوالے سے امریکہ کے NBC ٹیلی ویژن نے انکشاف کیا ہے کہ دس لاکھ اہل غزہ کو لیبیا منتقل کرنے کے امریکی منصوبے کو آخری شکل دی جا رہی ہے۔
اس وقت غزہ میں اسرائیلیوں کا ہدف مزاحمت کاروں کے عسکری سربراہ اور یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار ہیں۔ ان کے قتل کے لیے سارے غزہ پر 30 ہزار پونڈ کے بنکر بسٹر بم گرائے جا رہے ہیں۔جمعرات 22 مئی کو فجر سے شروع ہونے والی بمباری کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ حملے کے پہلے دن فجر سے ظہر کے درمیان 94 افراد جاں بحق ہوئے اور ملبے تلے دبے لوگوں کی تعداد اس سے تین گنا ہے۔ تا دم تحریر محمد سنوار کے قتل کی کوئی مستند خبر نہیں آئی۔
یوم سبت پر 17 مئی کو لشکرِ جدعون (Gideon’s Chariot) کے نام سے نیا آپریشن شروع کیا گیا ہے جس کے لیے محفوظ دستوں کے پانچ تازہ دم ڈویژن اور ٹینکوں کا نیا دستہ غزہ پہنچا دیا گیا ہے۔ عبرانی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک اہلیہ حضرت قطورہ کی اولاد خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر آباد ہو گئی جس کے بعد یہ علاقہ مدین کہلایا۔ کچھ عرصے بعد مدین لٹیروں اور ڈاکوؤں کا مسکن بن گیا۔ ترازو میں ڈنڈی مارنے کی شیطانی روایت کا آغاز بھی مدین سے ہی ہوا تھا۔ توریت کی سورہ Judges کے مطابق ایک خدا ترس جنگجو جدعون 300 سپاہیوں کا مختصر لشکر لے کر یہاں آیا اور اس نے ان بے ایمانوں کو شکست دے کر مدین پر دوبارہ فلسفہ ابراہیمی کے تحت منصفانہ حکومت قائم کر دی تھی۔ نہتے اور بھوکے پیاسے فلسطینیوں کے قتل عام کو خدا ترس مجاہدین سے منسوب کرتے ہوئے ان وحشیوں کو ذرا بھی شرم نہیں آئی۔
عالمی رہنما غزہ نسل کشی پر تشویش کا اظہار تو کر رہے ہیں لیکن امریکہ کے خوف سے اسرائیل پر دباو ڈالنے کے لیے پابندیوں اور دوسری تادیبی کاروائیوں کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے غزہ پر مکمل قبضے کی مہم کو انسانی حقوق و بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ فوجی دباؤ ڈال کر شہری آبادی کو مصری سرحد کی طرف دھکیلنا غزہ کو ایک خاص نسل یعنی فلسطینیوں سے خالی کرانے کی منظم مہم ہے اور نسلی تطہیر بین الاقوامی قانون کے تحت ایک سنگین جرم ہے۔
سب سے مضحکہ خیز بیان فرانس کے صدر ایمیونل میکراں کا ہے۔ البانیہ کے دارالحکومت تیرانہ کی یورپی سربراہ کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ غزہ بد ترین انسانی المیے کا شکار ہے اور وہ اس مسئلے پر امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم سے بات کریں گے۔ اگر یہ بات انہوں نے ازراہ تفنن کی ہے تو یہ بھونڈا مذاق اور سنجیدگی کی صورت میں ہمیں ان کی دماغی حالت پر شک ہو رہا ہے۔ غزہ کے قتل عام میں امریکی اسلحہ اور اسرائیلیوں کے بازو استعمال ہو رہے ہیں اور قصاب سے بکرے پر رحم کی درخواست کو خللِ دماغ کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
غزہ نسل کشی کے خلاف ہسپانیہ کا موقف کسی حد تک جان دار لگ رہا ہے۔ بغداد میں عرب لیگ سربراہی اجلاس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل نے انتہا کر دی ہے۔ ہسپانیہ اقوام متحدہ میں ایک قرارداد کے ذریعے عالمی عدالت (ICC) سے جنگ بندی کا حکم جاری کرنے کے لیے کہے گا کہ یہ فلسطین اسرائیل تنازعہ نہیں بلکہ انسانیت کا معاملہ ہے۔ اس سے ایک دن پہلے وزیر اعظم سانچیز نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے اور میڈرڈ ایسے ملک سے کاروبار نہیں کرسکتا۔
پارلیمنٹ میں ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کے دوران بین الاقوامی قانون کا احترام کرنا چاہیے. انسانی امداد پر پابندی کا کوئی جواز نہیں۔ اٹھارہ مئی کو اطالوی ارکانِ پارلیمنٹ نے مصر غزہ سرحد یعنی باب رفح پر معصوم بچوں کے قتل عام کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے نمائندے شامل تھے۔ شاید اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے اہل غزہ کے لیے امدادی سامان پر پابندی ختم کر دی ہے۔ یہ اعلان ہوتے ہی ان کے انتہا پسند اتحادیوں کا شدید رد عمل سامنے آیا اور عظمت یہودی جماعت نے کہا ہے کہ اگر امدادی سامان کی بحالی برقرار رہی تو وہ حکومت سے الگ ہوجائیں گے۔جماعت کے سربراہ اور وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے کہا کہ دنیا جو چاہے کرلے ہم شیطانی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موصوف کے انتہا پسند موقف کی خود اسرائیل میں مزاحمت شروع ہو چکی ہے۔ یروشلم کے مضافاتی علاقے بیت الشمس (Beit Shemesh) میں ان کا حریدی فرقے کی طرف سے صیہونیت مردہ باد، فری فری فلسطین کے نعروں سے استقبال ہوا اور ان کی بیگم کو یاروں نے طمانچے جڑ دیے۔
جس دن نیتن یاہو نے لشکرِ جدعون کا اعلان کیا اسی روز ہزاروں اسرائیلیوں نے غزہ میں زندہ دفن کر دیے جانے والے بچوں کی تصویریں لے کر زبردست مظاہرہ کیا۔ تل ابیب کے مرکزی چوک میں مظاہرین نے ‘‘بچوں کا قتل عام موسیٰؑ کی تعلیمات کے خلاف ہے‘‘ کے نعرے لگائے۔
ساری دنیا میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ باہزل (Basel, Switzerland) کے یوروژن (Eurovision) موسیقی میلے کے سامنے غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ گزشتہ ہفتے جب اسرائیلی وزیر خارجہ جدون سعر جاپان کے دورے پر آئے تو ٹوکیو پریس کلب کے سامنے مقامی صحافیوں نے مظاہرہ کیا۔ اپنی تقریر میں پریس کلب کے رہنماوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کو آزاد صحافت کا قبرستان بنا دیا ہے۔
غزہ نسل کشی کے خلاف ہالینڈ کے شہر ہیگ میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ خونزیری کی علامت کے طور پر مظاہرین نے سرخ لباس پہن رکھے تھے۔ خواتین نے اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ شرکت کی۔
پابندیوں اور ملک بدری کے باوجود امریکی جامعات بھی سینہ سپر ہیں۔ گزشتہ ہفتے جامعہ اسٹینفورڈ (Stanford University) کیلیفورنیا کے طلبہ اور اساتذہ نے غزہ سے ہم آہنگی کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ کیمپ میں موجود اساتذہ کا کہنا تھا کہ یہ ہڑتال اور احتجاج کے ساتھ اہل غزہ سے ہم آہنگی کا اظہار ہے کہ بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر ہمیں پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہوئے شرم آتی ہے۔
طلبہ کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی انتقامی کاروائیوں پر عدالتوں سے داد رسی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکی دارالحکومت کی جامعہ جارج ٹاون کے طالب علم ڈاکٹر بدر خان سوری کو وفاقی جج نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ بھارت نژاد ڈاکٹر سوری مزاحمت کاوں کے ایک سابق رہنما کے داماد ہیں۔ انہیں 17 مارچ کو ایمگریشن پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اس سے پہلے غزہ نسل کشی کی مذمت کے الزام میں گرفتار ہونے والے محسن مہدوی اور پی ایچ ڈی کی ترک نژاد طالبہ Rümeysa Öztürk کو بھی ضمانت پر رہائی مل چکی ہے۔
ہر چند کہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے: اٹھارہ مئی کو صحافی عزیزالحجار، عبدالرحمان اور خاتون صحافی نور قندیل اسرائیلی بمباری میں اپنی جانوں سے گئے۔ حملے میں عزیزالحجار کی اہلیہ اور نور قندیل کے شوہر خالد ابو سیف بھی جاں بحق ہوئے۔ غزہ میں جان سے گزرنے والے صحافیوں کی تعداد ڈھائی سو سے تجاوز کر چکی ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
پابندیوں اور ملک بدری کے باوجود امریکی جامعات بھی سینہ سپر ہیں۔ گزشتہ ہفتے جامعہ اسٹینفورڈ (Stanford University) کیلیفورنیا کے طلبہ اور اساتذہ نے غزہ سے ہم آہنگی کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ کیمپ میں موجود اساتذہ کا کہنا تھا کہ یہ ہڑتال اور احتجاج کے ساتھ اہل غزہ سے ہم آہنگی کا اظہار ہے کہ بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر ہمیں پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہوئے شرم آتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025