غزہ میں امن کی موہوم سی امید
!! قیدی چھڑانے کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ کا شدید دباؤ۔ مزاحمت کار لچک دکھانے پر آمادہ
مسعود ابدالی
سلطنت اسرائیل و یہودا کے قبل از مسیح نقشے کی اشاعت
فوجیوں کے والدین کا نیتن یاہو کے نام کھلا خط، ہمارے بچوں کو جنگ کا ایندھن مت بناؤ
ہمارے وزیر اعظم امن مذاکرات سبوتاژ کر رہے ہیں۔ ٹرمپ سے ایک ماں کی التجا
میکسیکو میوزیم میں نیتن یاہو کا مجسمہ زمیں بوس۔ جامعہ کولمبیا کی سینئر پروفیسر استعفیٰ پر مجبور
غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے مزاحمت کاروں پر ڈونالڈ ٹرمپ کا دباو شدید ہوگیا ہے، وہ اپنی حلف برداری (20جنوری) سے پہلے قیدیوں کی رہائی پر بضد ہیں۔ صدر بائیڈن بھی جاتے جاتے یہ تمغہ اپنے نام کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یرغمالیوں کے مذاکرات میں ‘حقیقی پیش رفت’ ہو رہی ہے، لیکن اہل غزہ معاہدے کی راہ میں ‘رکاوٹ ہیں۔ اس پر ہمیں معروف مزاح نگار کرنل محمد خان یاد آگئے جنہوں نے اپنے ایک دل پھینک دوست کا تذکرہ کرتے ہوئے کہیں لکھا ہے کہ ‘موصوف ہر کچھ عرصہ بعد ایک نئے عشق کی کامیابی پر ہم دوستوں کو مٹھائی کھلانے کے بعد جذباتی لہجے میں روداد قلبی کچھ اس طرح بیان کرتے ‘یار میرا عشق 50 فیصد کامیاب ہوچکا، میں تو بالکل یکسو ہوں بس وہ راضی ہوجائے تو سہرا سجالوں’ بھولے بائیڈن تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ورنہ انہیں بھی معلوم ہے کہ معاہدہ فریقین کی رضا مندی سے طے ہوتا ہے، جب مزاحمت کار آمادہ نہیں تو پھر پیش رفت کیسی؟ اہل غزہ صاف کہہ چکے ہیں کہ جنگ بندی سے پہلے قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہوگا۔ بائیڈن اور ڈونالڈ ٹرمپ کی یک طرفہ ترجیح قیدیوں کی رہائی جبکہ مزاحمت کار قیدیوں کے تبادلے سے پہلے جنگ بندی چاہتے ہیں۔
اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ نو منتخب امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیووٹکاف (Steve Witkoff) دوحہ میں قطری و مصری حکام سے بات چیت کرکے 11 جنوری کو اسرائیل پہنچے جہاں انہوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو سے گفتگو کی جس کے بعد موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی کی قیادت میں ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد مزاحمت کاروں سے ملاقات کے لیے قطر بھیج دیا گیا۔ وفد میں اندرون ملک سراغ راساں ادارے شاباک (Shin Bet) کے ڈائریکٹر ران بار بھی شامل ہیں۔
امریکی خبر رساں ایجنسی Axios کے مطابق، اسٹیو وٹکاف نے قطر، مصر اسرائیل کی قیادت کو یہ بتا دیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ہر قیمت پر 20 جنوری سے پہلے قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ دوسری طرف صدر بائیڈن کے خصوصی ایلچی برٹ مک گرک (Brett McGurk) اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس بھی دوحہ سے 12 جنوری کو اسرائیل پہنچ گئے۔
اسرائیل اور امریکہ سے جاری ہونے والی خبروں سے ایسا لگ رہا ہے کہ مزاحمت کار لچک دکھانے پر آمادہ ہیں اور اگر ‘چند’ زیر بحث نکات پر مفاہمت ہوگئی تو امن معاہدہ بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔ اس سے پہلے مستضعفین غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر اصرار کر رہے تھے جس پر اسرائیل بظاہر تیار نہیں تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مزاحمت کار اس نکتے پر اسرائیل کو مراعات دینے کے لیے تیار ہوگئے ہیں یا اسرائیل کے موقف میں نرمی کے آثار ہیں۔ اس معاملے کو ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ناک کا مسئلہ بنالیا ہے اور وہ مزاحمت کاروں، قطر، مصر اور اسرائیل سب پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اہل غزہ کو براہ راست دھمکی دینا تو نو منتخب امریکی صدر کے لیے ممکن نہیں لیکن وہ مصر اور خلیجی حکم رانوں سے کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی طرح مستضعفین کو قیدیوں کی رہائی پر آماد کرو ورنہ یہ خود تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔
مذاکرات کی کامیابی اور قیدیوں کی رہائی سے قطع نظر فلسطینیوں کے لیے راحت کا ہمیں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ امن معاہدے کے بعد بھی اسرائیل لبنان کی طرح مختلف حیلوں اور بہانوں سے غزہ پر حملے جاری رکھے گا۔ گزشتہ ہفتے وزیر دفاع اسرائیل کٹز کی صدارت میں فوجی سربراہوں کا اجلاس منعقد ہوا جس میں غزہ پر ایک نئے حملے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ جنوبی لبنان، یمن، غزہ اور غرب اردن کے مختلف مقامات پر بمباری میں اس ہفتے شدت محسوس ہوئی۔ اسی کے ساتھ اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی کھل کر تشہیر کر رہا ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں ٹویٹر پر 928 قبل مسیح میں بنا سلطنت اسرائیل و یہودا کا نقشہ شائع ہوا جس میں اردن، غرب اردن، شام اور لبنان کے بڑے حصے کو اسرائیلی سلطنت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ نقشے کی عربی زبان میں اشاعت بھی معنی خیز ہے۔
غزہ کے ساتھ غرب اردن میں فلسطینیوں کے مکانات کے انہدام کا سلسلہ جاری ہے۔ خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet) نے ان کارروائیوں پر شدید مزاحمت کا خدشہ ظاہر کیا تھا، چنانچہ اسرائیلی فوج کی تین تازہ دم بٹالینیں جنین کی طرف روانہ کردی گئیں ہیں۔ قبضہ گرد انتہا پسندوں نے غرب اردن میں جگہ جگہ بل بورڈ لگا دیے ہیں جن پر عربی میں لکھا کہ فلسطین کا کوئی مستقبل نہیں۔
اسرائیل کی حمایت میں امریکہ کا عزم غیر متزلزل لگ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم، وزیر دفاع اور عسکری سربراہ کے خلاف پروانہ گرفتاری جاری کرنے پر امریکی ایوان نمائندگان نے عالمی فوج داری عدالت ICC پر پابندیوں کا بل 155 کے مقابلے میں 243 ووٹوں سے منظور کر لیا ہے۔ ڈیموکریٹس کی اکثریت نے بل کی مخالفت کی تھی۔ یہ بل گزشتہ برس بھی منظور ہوا تھا لیکن سینٹ سے منظور نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسودہ قانون غیر موثر ہوگیا ہے۔ تاہم اب جبکہ سینیٹ پر ریپبلکن کو واضح برتری حاصل ہے اس بل کی ایوان بالا سے منظوری کا امکان بہت روشن ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن، غزہ بربریت کو نسل کشی نہ قرار دینے کے موقف پر ثابت قدم ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ ‘غزہ میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد ناقابل قبول ہے لیکن اسرائیلی آپریشن کو نسل کشی نہیں کہا جاسکتا’
تاہم بھاری جانی نقصان سے خود اسرائیل کے اندر جنگ بندی کے لیے مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ غزہ تعینات 800 فوجیوں کے والدین نے وزیر اعظم نیتن یاہو کے نام ایک کھلے خط میں لکھا ‘ہمارے بچے تمہاری ہوس اقتدار کا ایندھن بن رہے ہیں۔یہ بے مقصد جنگ صرف تمہارے اپنے مفاد میں ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ایک غیر ضروری جنگ میں جھونکے جارہے ہیں جو تمہارے اقدامات سے ہم پر آئی ہے۔ ہمارے بچوں نے بہت سے دوستوں کو کھو دیا اور ذہنی اور جسمانی طور پر مر رہے ہیں اور زخمی ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے پاس غزہ میں رہنے کا کوئی جواز نہیں یے سوائے وہاں آباد ہونے کی مسیحائی خواہشات کے’
(حوالہ: ٹائمر آف اسرائیلِ یروشلم پوسٹ، Ynetnews)
غزہ میں قید ایک اسرائیلی فوجی نمرود کوہن کی والدہ وکی کوہن نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک کھلا خط لکھا کہ ‘ہمارے وزیر اعظم معاہدے کو سبوتاژ اور جنگ کو روکنے سے انکار کر رہے ہیں۔ جنگ ختم ہونے پر ہی ہمارا بیٹا واپس آ سکتا ہے۔ہمیں بس آپ سے ہی امید ہے اس لیے کہ آپ ہی نیتن یاہو کو جنگ کے خاتمے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
اسرائیلی فوج میں بے چینی بھی بڑھتی جا رہی ہے اور فوجی غزہ جانے کے لیے تیار نہیں۔ ایک ریزرو سپاہی 28 سالہ یوتم ولک نے کہا کہ ‘7 اکتوبر کے حملے کے بعد میں جذبہ حب الوطنی سے سرشار غزہ گیا تھا کہ میرے ملک کی بقا کا معاملہ تھا لیکن اب میرا خیال ہے کہ اسلحہ نہیں بلکہ سفات کاری کی ضرورت ہے۔ آخر ہم کتنے فلسطینیوں کو قتل اور اپنے کتنے مہہ پاروں کو قربان کریں گے۔میں جیل کو غزہ کی دلدل پر ترجیح دوں گا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 130 سے زیادہ سپاہیوں نے غزہ جانے سے انکار کر دیا ہے۔ ایک کھلے اجتماع میں ان جوانوں نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ ‘ہمارا ضمیر نہتوں پر گولیاں چلانے کی اجازت نہیں دیتا’
دنیا بھر میں غزہ میں نسل کشی کے خلاف نفرت کے اظہار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چنانچہ آٹھ جنوری کو میکسیکو کے میوزیم میں ایک نوجوان نے وہاں نصب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مومی مجسمے کے قریب سرخ رنگ کا چھڑکاو کیا، ہتھوڑے سے مجسمے کے چہرے کو توڑا اور پھر ‘فلسطین زندہ باد’، سوڈان زندہ باد’ اور پورٹوریکو زندہ باد’ کا نعرہ لگاتے ہوئے اسے زمیں بوس کر دیا۔ یہ ساری کارروائی دن دہاڑے درجنوں لوگوں کے سامنے ہوئی اور تماشائیوں نے تالیاں بھی بجائیں۔
با ضمیر دانش وروں کی آزمائش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکہ میں جامعہ کولمبیا کے کلیہ قانون کی سینئر پروفیسر ڈاکٹر کیتھرین فرینک Katherine Franke کو انتظامیہ اور ریپبلکن پارٹی کے ارکان کانگریس کی طرف سے شدید دباؤ کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ ڈاکٹر صاحبہ انسانی حقوق خاص طور سے صنفی مساوات اور صنفی تعصب سے متعلق امور کی ماہر ہیں۔ غزہ نسل کشی پر ان کا موقف بڑا دو ٹوک تھا۔ جب کولمبیا کے طلبہ احتجاجاً خیمہ زن ہوئے تو ڈاکٹر صاحبہ نے طلبہ کے حقِ احتجاج و اجتماع کا قانونی دفاع کیا تھا۔ انہوں نے جامعہ کے ڈیڑھ سو اساتذہ کی دستخطوں سے انتظامیہ کو خط لکھا جس میں کہا گہا تھا کہ طلبہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فلسطین پر 75 سالہ قبضے کے سیاق و سباق میں غزہ تنازعہ کو پیش کریں۔ اس خط کی اشاعت پر ڈاکٹر صاحبہ تنقید کا نشانہ بنیں۔ ان پر یہ بھی الزام لگا کہ وہ کلاس میں اسرائیلی طالب علموں کے بارے میں منفی تبصرے کرتی ہیں۔ چنانچہ ان کے خلاف ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے فیصلہ سنایا کہ اسرائیلی طالب علموں کے بارے میں ڈاکٹر کیتھرین کے تبصرے امتیازی تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحبہ مستعفی ہوگئیں۔ اپنے استعفیٰ میں ڈاکٹر کیتھرین فرینک نے لکھا کہ ‘انہیں عملاً بر طرف کر دیا گیا ہے۔
(مضمون نگار سے رابطہ : [email protected])
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024