غزہ: فاقہ کشی اور گولی کے بیچ موت کی منڈی

جنگ بندی کیوں تعطل کا شکار ہے؟ ۔رفح کے ملبے پر فلسطینیوں کے لیے فلاحی جنت تعمیر ہوگی

0

مسعود ابدالی

رہائی پانے والے اسرائیلی قیدیوں کی فہرست مزاحمت کار مرتب کرتے ہیں
اسرائیلی جرائم کو نسل کشی کیوں کہا؟ اقوام متحدہ کی نمائندہ پر امریکہ نے پابندی لگا دی
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنا دورہ امریکہ مکمل کرکے وطن واپس جا چکے۔ ان کی آمد سے پہلے صدر ٹرمپ کے سخت بیانات سے یہ تاثر مل ریا تھا کہ گویا وہ اسرائیلی وزیراعظم پر دباؤ ڈال کر انہیں معقولیت پر مجبور کریں گے، مگر نتیجہ امریکی سیاست کے ماہرین کی توقعات کے عین مطابق نکلا۔ امریکی سیاستدانوں کے لیے اسرائیل کی مخالفت ان کی سیاسی عاقبت کے لیے مہلک ہے۔ پہلے ہی اعلان کر دیا گیا تھا کہ ملاقات کے بعد نہ کوئی مشترکہ اعلامیہ ہوگا نہ پریس کانفرنس، جس سے واضح تھا کہ نیتن یاہو اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے امریکی صدر سے تعاون اور غیر مشروط مدد کی ضمانت لینے آئے ہیں۔
جہاں تک جنگ بندی یا امن معاہدے کا تعلق ہے، مزاحمت کار مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا پر زور دے رہے ہیں، جبکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے 60 دن بعد دوبارہ جنگ شروع کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اسرائیلی قیادت کھلے عام کہہ رہی ہے کہ مزاحمت کاروں اور مزاحمت کے مکمل خاتمے تک وہ غزہ پر حملے جاری رکھیں گے۔ یعنی عارضی جنگ بندی کا مقصد صرف قیدیوں کی رہائی ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا پر بھی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق اور وقت ہمارے حق میں ہیں، قیدی ہمارے پاس ہیں، لہٰذا معاہدہ ‘معقولیت’ کی بنیاد پر ہوگا۔
قیدیوں کے لواحقین کے سخت دباؤ کے باعث نیتن یاہو کچھ لچک دکھا رہے ہیں لیکن یہ بھی محض وقت گزاری محسوس ہوتی ہے۔ قطر میں جاری مذاکرات کے دوران 10 جولائی کو اسرائیل نے جو نقشہ پیش کیا اسے Map of Partial Redeployment (MOPR) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق مصر کی سرحد پر واقع رفح اسرائیل کے قبضے میں دکھایا گیا ہے۔ علاقے پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے رفح سے خان یونس کو علیحدہ کرنے والے محور موراغ (Morag Corridor) تک اسرائیلی فوج تعینات رہے گی۔ نئے MOPR میں غزہ کی تمام جانب 3 سے 4 کلومیٹر کی پٹی پر بفر زون دکھایا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاھیہ اور بیت حنون میں بھی اسرائیلی فوج موجود رہے گی۔ غزہ شہر کے محلوں التفاح، الشجاعیہ، الزیتون، دیر البلح اور القرارة سمیت 60 فیصد غزہ اسرائیلی عسکری شکنجے میں رہے گا اور یہاں کے بے گھر فلسطینیوں کو رفح میں قائم کیے گئے عارضی کیمپوں میں ٹھونس دیا جائے گا تاکہ موقع ملتے ہی انہیں رفح پھاٹک کے ذریعے مصر کی جانب دھکیل دیا جا سکے۔
اس حوالے سے اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز رفح کے ملبے پر Humanitarian City کے نام سے ایک "فلاحی جنت” تعمیر کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جہاں پہلے تو ان سات لاکھ بے گھروں کو ‘آباد’ کیا جائے گا جو ساحلی علاقے المَواسی میں خیمے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس "انسانی شہر” میں نہ بجلی و گیس ہوگی، نہ واپسی کی اجازت۔ آب نوشی کے لیے رفاحی ادارے سبیلیں سجا دیں گے اور رفتہ رفتہ غزہ کے 25 لاکھ نفوس اس ملبے پر کھڑے امریکی و اسرائیلی طرز تعمیر کے حسین شاہکار کی زینت بن جائیں گے۔
مزاحمت کاروں نے MOPR مسترد کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اہل غزہ کو یہ ضمانت بھی مطلوب ہے کہ عارضی جنگ بندی کا مقصد قیدیوں کی رہائی نہیں بلکہ مستقل جنگ بندی کی جانب پیش قدمی ہو۔ اسی بنا پر مزاحمت کار چاہتے ہیں کہ 18 مارچ 2025 کو دوبارہ شروع کی گئی اسرائیلی جنگ سے پہلے جو پوزیشنیں تھیں، اسرائیلی فوج ان تک واپس چلی جائے۔
جہاں تک اسرائیلی قیدیوں کا تعلق ہے تو ان کی درست تعداد صرف مزاحمت کاروں کو معلوم ہے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ اسرائیلی تخمینوں کے مطابق 20 زندہ قیدی اور 30 اسرائیلی لاشیں اہل غزہ کے قبضے میں ہیں جن کا تبادلہ اسرائیلی جیلوں میں بند 10,800 فلسطینیوں سے ہونا ہے۔ اس معاملے میں گزشتہ دنوں نیتن یاہو کو شرمندگی اٹھانی پڑی جب واشنگٹن میں قیدیوں کے لواحقین نے ان سے پوچھا کہ اگر معاہدہ ہو گیا تو پہلے کون رہا ہوگا؟ اس پر نیتن یاہو نے اعتراف کیا کہ مزاحمت کار رہائی پانے والوں کی فہرست مرتب کرتے ہیں، ہمارے پاس کوئی فہرست نہیں ہے۔
امن بات چیت کے ساتھ غزہ میں امدادی مراکز پر موت کی تقسیم جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ترجمان روینا شم داسانی کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک تقریباً 800 فلسطینی امداد تک رسائی کی کوشش میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر قتل امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF)” کے امدادی مراکز کے آس پاس ہوئے۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام مراکز پر بھی شکار جاری رہا اور 183 فلسطینی ان امدادی قافلوں کے راستے میں اسرائیلی فائرنگ اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنے جنہیں اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے چلا رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا موقف ہے کہ فلسطینی راستوں کی پابندی نہ کرنے اور عسکری علاقوں میں داخل ہونے کی بنا پر ‘حادثات’ کا شکار ہو رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے ایک اسرائیلی ریزرو فوجی نے بتایا کہ غزہ میں تعینات فوجیوں کو حکم ہے کہ جو بھی "نو-گو زون” میں داخل ہو، چاہے وہ نہتا شہری ہی کیوں نہ ہو، اسے فوراً گولی مار دی جائے۔ فوجی کے مطابق اس کو کہا گیا کہ "جو بھی ہمارے علاقے میں داخل ہو، اسے مرنا چاہیے، چاہے وہ سائیکل چلاتا ہوا کوئی نوجوان ہی کیوں نہ ہو۔” اس سے پہلے اسرائیلی جریدے ہآریٹز (Haaretz) کو دسمبر اور جنوری میں کئی سپاہیوں نے بتایا تھا کہ بلاجواز فائرنگ کے احکامات ڈویژن کمانڈر بریگیڈیئر جنرل یہودا واش نے خود دیے ہیں۔
اس قسم کے واقعات پر اب سلیم الفطرت اسرائیلی بھی ردعمل دے رہے ہیں۔ پانچ اسرائیلی سپاہیوں کی ہلاکت پر اسرائیلی صحافی Israel Frey نے ٹویٹ کیا کہ "دنیا آج ان پانچ نوجوانوں کے بغیر بہتر جگہ ہے جنہوں نے انسانیت کے خلاف بدترین جرائم میں حصہ لیا۔ (یہ بہتر ہے) غزہ کے اس بچے کے لیے جس کا بغیر بے ہوشی کے آپریشن ہو رہا ہے، اس بچی کے لیے جو بھوک سے مر رہی ہے اور اس خاندان کے لیے جو بمباری کے دوران خیمے میں چھپا بیٹھا ہے۔ اسرائیلی ماؤں! اپنے بیٹوں کو جنگی مجرم کی حیثیت سے تابوت میں وصول مت کرو، ظلم کی سہولت کاری سے انکار کر دو!” اسرائیل فرے کو اس جرات رندانہ پر گرفتار کر لیا گیا۔ دوسری جانب غرب اردن سے سینئر فلسطینی صحافی، ناصر اللحام کو الدوحہ، بیت اللحم کے قریب ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ ناصر پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا۔
نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے چچا سام بدستور پرعزم ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کو "نسل کشی” کہنے اور بڑی امریکی کمپنیوں کو اس میں شریک ٹھیرانے کے ‘جرم’ میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ (Special Rapporteur) محترمہ فرانچیسکا البانیز (Francesca Albanese) پر امریکی حکومت نے پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘اسرائیل اور امریکہ دونوں، البانیز کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔’ البانیز نے عالمی عدالتِ انصاف کے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے پہلے جب غزہ نسل کشی تحقیقات کے نتیجے میں عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی قیادت کے خلاف وارنٹ جاری کیے تو انصاف کی راہ میں معاونت کے بجائے ٹرمپ انتظامیہ نے ICC کی چار خواتین ججوں اور چیف پراسیکیوٹر پر تادیبی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
البانیز صاحبہ کی رپورٹ میں گوگل، مائیکروسوفٹ اور ایمیزون پر اسرائیل کے غزہ آپریشن کو کلاؤڈ اور مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں گوگل کے شریک بانی سرگئی برن (Sergey Brin) نے رپورٹ کو "کھلی اور فاش سام دشمنی” (Transparently Antisemitic) قرار دے کر سخت تنقید کی ہے۔ رویوں اور طرز عمل کی اصلاح کے بجائے نسل کشی کی مذمت کو سام دشمنی قرار دینا شرمناک ہے۔
غرب اردن میں اسرائیلی قبضہ گردوں کی بہیمانہ کارروائی جاری ہے۔ 11 جولائی کو رملہ کے شمال میں امریکی شہریت کے حامل 23 سالہ فلسطینی نوجوان سیف الدین مسلت کو درجنوں اسرائیلی آبادکاروں نے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کر دیا۔ فلسطینی شہری غرب اردن میں خربت التل کی طرف پرامن احتجاج کے لیے جا رہے تھے جہاں ایک نئی غیر قانونی اسرائیلی چوکی تعمیر کی گئی ہے۔ راستے میں دہشت گردوں نے انہیں روک کر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کم از کم 10 فلسطینی زخمی ہوئے جن میں سے ایک کو گاڑی سے کچلا گیا۔ دہشت گردوں نے زیتون کے باغ کو بھی آگ لگا دی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ واقعے سے آگاہ ہیں اور فوج کو روانہ کیا گیا ہے، لیکن حسب معمول کسی آبادکار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
غرب اردن میں قابضین نے جہاں فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے وہیں اب مسلمانوں کی قبریں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ یروشلم کے یوسفیہ قبرستان میں کئی قبروں کی لوح مزار اکھاڑ دی گئی ہیں۔
آخر میں UNRWA کے سربراہ فیلیپ لازارینی کا ٹویٹ:
"غزہ فاقہ کشی کا قبرستان بن چکا ہے۔ خاموشی اور بے عملی درحقیقت شراکتِ جرم ہے۔ اہلِ غزہ کے پاس یا تو بھوک سے مرنے یا گولی کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ بے رحم اور شیطانی منصوبہ ہے، قتل کا ایک ایسا نظام جس پر کوئی گرفت نہیں۔ ہمارے اصول، اقدار اور انسانیت کو دفن کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ خاموش ہیں، وہ مزید تباہی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ عمل کا وقت گزر چکا، اب بھی نہ جاگے تو ہم سب اس المیے کے شریک ہوں گے۔”
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے چچا سام بدستور پرعزم ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کو "نسل کشی” کہنے اور بڑی امریکی کمپنیوں کو اس میں شریک ٹھیرانے کے ‘جرم’ میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ (Special Rapporteur) محترمہ فرانچیسکا البانیز (Francesca Albanese) پر امریکی حکومت نے پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘اسرائیل اور امریکہ دونوں، البانیز کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔’ البانیز نے عالمی عدالتِ انصاف کے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025