غزہ جنگ کے خلاف عالمی طلبہ تحریک کا اثر نظر آنے لگا

متعدد یونیورسٹیوں  کے اسرائیل سے معاہدات ختم کرنے کے اشارے ،طلبہ جنگ بندی  کی آواز بلند کرنےپر بضد

غزہ ،11مئی :۔

غزہ میں گزشتہ سات ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی نے عالم انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔انسانیت نواز اور انصاف پسندوں نے اس انسانیت سوز حرکت کی ہر سطح پر مذمت کی ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار حکومتوں کا رویہ بھی انتہائی افسوسناک رہا ہے۔انہوں نے اسرائیلی جارحیت پر نہ صرف آنکھیں بند رکھیں بلکہ اس میں برابر کے شریک رہے۔لیکن وقت کے ساتھ تبدیلی آ رہی ہے ۔اسرائیل نواز ممالک میں یونیور سٹیوں کے طلبہ نے غزہ جارحیت کے خلاف تحریک شروع کر رکھی ہے۔خاص طور پرامریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کی غزہ جنگ کے خلاف جاری تحریک کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی پذیرائی ملنے کی لہر تیز تر ہے۔

امریکہ سے باہر کے ملکوں کی یونیورسٹیاں اور کالج بھی مظاہرین کے ساتھ یہ طے کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے علیحدگی کر سکیں۔

تاہم امریکہ کی طرح کئی دوسرے ملکوں خصوصا یورپی ملکوں میں کچھ تعلیمی اداروں نے بھی پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کا استعمال کرتے ہوئے جنگ کی مخالفت کرنے والے مظاہروں کو روک دیا ہے اور جبرا طلبہ کے احتجاجی کیمپ اکھاڑ دیے ہیں۔ کئی ملکوں میں دیگر طلبہ گروپوں کے ساتھ مل کر جنگ مخالف طلبہ کو دباؤ میں لانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔

اگرچہ ہر تعلیمی ادارے کے جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ الگ الگ ہیں اور وہ اپنے مطالبات کو بھی الگ الگ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ تاہم اپنی تعلیم گاہوں کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کے خاتمے کا مطالبہ اور جنگ بندی کا مطالبہ تقریباً ہر جگہ یکساں ہے۔

یہ طلبہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے علاوہ اپنے اپنے انداز میں اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے ملکوں اور کمپنیوں کی بھی مخالفت کررہے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے ہتھیار نہ بیچیں۔ جبکہ اسرائیلی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کرنے کا کہہ رہے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ مدد و تعاون کے گہرے رشتے میں منسلک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بعض یونیورسٹیوں نے طلبہ کے ان مطالبات سے اتفاق کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ریور سائیڈ نے اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے چیزوں کو شفافیت کے ساتھ ظاہر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ نیز ہتھیار بنانے والی ایسی کمپنیوں جن کے ہتھیار اسرائیل استعمال کرتا ہے کے ساتھ یونیورسٹی نے اپنے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے۔

اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے حوالے سے جمعہ کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘یونیورسٹی آف کیلیفورنیا بیرون ملک اپنے مطالعے کے پروگرام پر بھی نظر ثانی کرے گی۔ نیز اس کے بزنس سکول نے کئی عالمی پروگرام بند کر دیے ہیں۔ جن میں یونیورسٹی کے طلبہ کو مصر، اردن اور اسرائیل جانے کے موقع فراہم کرنے والے پروگرام بھی شامل تھے۔’

براؤن یونیورسٹی میں بھی طلبہ نے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے اور جنگ کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ براؤن یونیورسٹی کے طلبہ نے اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنے کیمپ اتار لیں گے اور اس کے بدلے میں یونیورسٹی بورڈ طلبہ کو اسرائیل کے ساتھ یونیورسٹی کے معاہدوں کے خلاف ووٹ کرنے کا حق دے گا۔