
مسعود ابدالی
یورپی یونین کا اسرائیل پر تادیبی پابندیوں سے گریز۔ سلووانیہ نے اسرائیل کے دو انتہا پسند وزرا کو ناپسندیدہ قراردیدیا
غرب اردن میں قبضہ گردوں نے بے زبان بھیڑوں کو گولی ماردی۔ نسل کشی کے خلاف یورپی موسیقاروں کا اتحاد
غزہ میں جنگ بندی کی تاحال کوئی سنجیدہ امید نظر نہیں آتی۔ صدر ٹرمپ مسلسل ’جلد آنے والی خوشخبری‘ کی پیش گوئی کر رہے ہیں مگر نہ نیتن یاہو سنجیدہ ہیں نہ ان کے انتہا پسند اتحادی فوجی انخلاء پر آمادہ ہیں۔ 10جولائی کو اسرائیل نے جزوی انخلاء کا جو نقشہ (Map of Partial Redeployment – MOPR) پیش کیا، وہ مزاحمت کاروں کے لیے ناقابل قبول تھا۔ دو دن بعد ترمیمی تجاویز پیش ہوئیں، مگر 16 جولائی کو مزاحمت کاروں نے صاف کہہ دیا کہ ’’ہر نئی تجویز پہلے سے زیادہ غیر لچکدار ہوتی ہے۔‘‘ مستقل جنگ بندی اور فوجی انخلا ہماری بنیادی شرط ہے جس سے پہلے قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہوگا۔ قطر کے وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمن الثانی کے ساتھ امریکی صدر نے واشنگٹن میں عشائیہ کیا تاکہ قطر، مزاحمت کاروں کو قائل کرے لیکن یہ بھی بے نتیجہ رہا۔
نیتن یاہو اپنی حکومت بچانے کے لیے نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب خود اسرائیل میں اس پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔اسرائیلی اپوزیشن رہنما اور سابق وزیر دفاع آویگدور لائبرمین (Avigdor Liberman) نے الزام لگایا کہ حالیہ مہینوں میں جو اسرائیلی فوجی مارے گئے، وہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے نہیں بلکہ حکومتی اتحاد کو بچانے کے لیے بھینٹ چڑھے ہیں۔ انہوں نے حریدی مذہبی طبقے کے لیے لازمی فوجی خدمت سے استثنیٰ کو ’قانونِ فرار‘ اور فوج کے ساتھ غداری قرار دیا۔ دوسری جانب دینی مدارس (یشیوا) کے طلبہ کو لازمی فوجی بھرتی سے استثنیٰ نہ دینے پر کئی جماعتیں اتحاد چھوڑ چکی ہیں۔ اب حکومت کی بقا بیزلیل سموترچ اور بن گویر کی خوشنودی پر منحصر ہے، جو غزہ اور غربِ اردن پر مکمل قبضے کے حامی ہیں۔
غزہ میں غذائی قلت کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ بھوک سے تڑپتے فاقہ زدہ بچوں کے جو سمعی و بصری تراشے نشر ہورہے ہیں انہیں دیکھنا بھی مشکل ہے۔اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ کا ہر دس میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت (Malnutrition) کا شکار ہے۔ امدادی کیمپوں پر اسرائیلی حملوں میں چھ ہفتوں کے دوران 875 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ 14 جولائی کو خان یونس میں امدادی مرکز پر فائرنگ میں 20 افراد شہید ہوئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس حملے کے پیچھے مسلح جتھے تھے جنہیں خود اسرائیل نے تشکیل دیا ہے۔
اسرائیل کے اس غیر لچکدار رویے کہ بڑی وجہ امریکہ اور مغربی ممالک کی غیر مشروط پشت پناہی ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے یورپی یونین میں اسرائیل کو معقولیت پر آمادہ کرنے کے لیے پابندیوں کی بات ہورہی تھی۔ آئر لینڈ اور اسپین اسرائیل پر پابندیوں کے حامی بتائے جاتے ہیں۔ لیکن اس معاملے پر غور کرنے کے لیے 15 جولائی کو ہونے والے اجلاس کے بعد یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور، مسز کایا کالاس نے اعلان کیا کہ یورپی یونین نے غزہ میں اسرائیل کے فوجی اقدامات پر پابندیوں کے نفاذ سے گریز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اجلاس سے ایک دن پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ گدون سعر نے یورپی ممالک کے وزراے خارجہ سے انفرادی ملاقاتوں میں انہیں دھمکی دی تھی۔
اس حوالے سے امریکی قانون سازوں کارویہ بھی مختلف نہیں ہے۔ آئرلینڈ کی پارلیمنٹ میں ایک مسودۂ قانون زیرِ غور ہے جس کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے کی اسرائیلی بستیوں سے درآمدات پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ اس پر امریکہ کے 6 سینیٹروں اور ایوانِ نمائندگان کے 16 اراکینِ نے یکے بعد دیگرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس بل کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ معنی خیز بات کہ یہ کوئی مشترکہ اعلامیہ نہیں بلکہ ہر ایک نے انفرادی ٹویٹ داغے مگر وقت اور زبان کے تنوع کے ساتھ مرکزی خیال کی یکسانیت سے ایک منظم و مربوط مہم کا پتہ چلتا ہے۔
یورپی یونین کے اجلاس میں اسرائیل پر پابندی کی تجویز تو مسترد ہوگئی لیکن وسطی یورپ کے ملک سلووینیا نے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ اور وزیر قومی سلامتی اتمار بن گویر کو ناپسندیدہ شخصیات (Persona Non Grata) قرار دے کر ان کی ملک میں آمد پر پابندی لگا دی۔ یہ دونوں وزرا اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کے کلیدی اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔
جمہوریت، مساوات، انسانی حقوق اور قانون کی بالا دستی کے دعوے دار امریکی و یورپی سیاست داں مصلحتوں میں الجھے ہوئے ہیں لیکن موسیقی کے لا ابالی گویے غزہ نسل کشی کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ برطانیہ کے معروف موسیقی بینڈ میسیو اٹیک (Massive Attack) نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان موسیقاروں کا ایسا اتحاد قائم کر رہے ہیں جو غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے پر سنسر شپ اور قانونی دباؤ کا شکار ہیں۔ میسیو اٹیک کے مطابق کئی فنکاروں کو UK Lawyers for Israel جیسے اداروں کی جانب سے دھمکایا جا رہا ہے، جن کا مکروہ کردار حال ہی میں Led By Donkeys کی ایک دستاویزی فلم میں بے نقاب ہوا ہے۔ بینڈ نے واضح کیا کہ وہ ان تمام فنکاروں کے ساتھ کھڑے ہیں جو فلسطین کے حق میں بولنے سے خوفزدہ ہیں۔ موسیقاروں کے اس اتحاد میں Kneecap، Fontaines D.C.، Brian Eno اور دیگر کئی فنکار شامل ہو چکے ہیں۔
غزہ اور غرب اردن میں مساجد، مدارس اور دواخانوں کے ساتھ اب اب مسیحی عبادت گاہیں بھی اسرائیل سے محفوظ نہیں رہیں۔ چنانچہ گزشتہ ہفتے یروشلم کے مضافاتی علاقے طیبہ کے قدیم کلیسائے سینٹ جارج قبرستان کے ایک حصے کو آگ لگا دی گئی اور اب 17 جولائی کو وسطی غزہ میں ہولی فیملی کیتھولک چرچ کو ٹینک سے نشانہ بنایا گیا، جس میں دو خواتین ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا جس پر نیتن یاہو نے مسیحی برادری سے معافی مانگی اور یروشلم کے لاٹ پادری (کارڈینل) کے خصوصی دورہ غزہ کا اہتمام کیا گیا۔ نیتن یاہو نے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ لیو چہاردہم کو فون کرکے ان اس بھی واقعے پر معافی مانگی۔
غرب اردن میں فلسطینیوں کے قتل اور ان کے گھروں کو آگ لگانے کے ساتھ باغات کو غارت کرنے اور مویشی چھیننے کی وارداتوں میں شدت آگئی ہے۔ ان کاروائیوں میں بے زبان جانور بھی قبضہ گردوں کی سفاکی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ 18 جولائی کو اسرائیلی آبادکاروں نے مقبوضہ وادی اردن میں فلسطینیوں کے ایک فارم پر حملہ کر کے 117 بھیڑوں کو چھروں اور گولیوں سے ہلاک کر دیا۔
غزہ نسل کشی کے منفی اثرات خود اسرائیل میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ وزارتِ دفاع کے مطابق اسرائیل کے فوجی نفسیاتی دباؤ اور معذوری کے خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں، جس کی بنا پر خود کشی کا رجحان بڑھ جانے کے ساتھ عجیب عجیب قسم کے واقعات ہو رہے ہیں۔ تین چوتھائی غزہ پر قبضے کی دعویدار اسرائیلی فوج کا بھاری بھرکم Excavator غزہ سے چوری ہوکر مغربی کنارے کے شہر حوارہ پہنچ گیا اور ’ناقابل تسخیر فوج‘ کو پتہ ہی نہ چلا۔ خبر دیکھ کر کسی منچلے نے ٹویٹ داغی کہ یہ مشین زمین کھودنے کے لیے خریدی گئی تھی یا اسرائیلی فوج کی قلعی کھولنے کے لیے؟
اور اب انتخاب کا شوشہ: مقتدرہ فلسطین کے سربراہ محمود عباس نے اس سال کے اختتام سے پہلے فلسطینی نیشنل کونسل (پارلیمنٹ) کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ چونکہ وہ اور ان کے اسرائیلی و امریکی سرپرستوں کو 2006 کے چناو کا حادثہ” اب تک یاد ہے، لہٰذا اس بار 300 رکنی نیشنل کونسل کا انتخاب تنظیم آزادی فلسطیں (PLO) کے ارکان کریں گے۔ یعنی جو بھی آئے وہ محمود عباس کی جیب کی گھڑی اور چچا سام کے ہاتھ کی چھڑی ثابت ہو۔ یہ سب کچھ دو ریاستی حل کی لاش پر نیا کفن ڈالنے کی کوشش ہے، جسے فلسطینی عوام کب کا دفنا چکے ہیں۔ مزے کی بات کہ ان کے صدراتی دفتر کے باہر بھی بانکوں نے لکھ دیا: NO MORE TWO STATE, WE WANT 48، یعنی تم اپنی جعلی ریاست اپنے پاس رکھو، ہمیں پورا فلسطین چاہیے۔ ویسے بھی سیاسی و عسکری اعتبار سے مفلوج محمود عباس کے پاس اور کچھ کرنے کو ہے نہیں اس لیے الیکشن کی شکل میں ان کے سرپرستوں نے ان کے ہاتھ میں نیا جھنجھنا تھما دیا کہ بچے کا دل بہلتا رہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025