
غزہ اور غرب اردن کے بعد اسرائیلی بربریت کا دائرہ مزید وسیع
امریکہ اور اسرائیل نے قیدی کی رہائی اور چار لاشوں کی حوالگی مسترد کر دی
مسعود ابدالی
اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی، شمالی غزہ پر وحشیانہ بمباری۔ زیرِ زمین سرنگیں محفوظ
فلسطین پر زبان بند رکھو‘‘- جامعہ کولمبیا کے کلیۂ صحافت کا طلبہ کو انتباہ۔اہلِ غزہ کو سوڈان، صومالیہ اور صومالی لینڈ میں بسانے کی سازش؟؟‘‘
امریکی دباؤ پر G-7 تنظیم فلسطینی ریاست کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئی
’’اہلِ غزہ اچھے لوگ ہیں‘‘ اظہار رائے پر امریکی ایلچی عہدے سے برطرف۔پاکستانی آرکیٹیکٹ کا اسرائیلی انعام لینے سے انکار
گزشتہ دس دنوں سے غزہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ امدادی سامان پر مکمل پابندی کی وجہ سے پوری پٹی شدید غذائی قلت کا شکار ہے، اور اس صورتحال میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ تبدیلی آئے بھی کیسے جب کہ دنیا کو اس کی پروا تک نہیں؟ خوف کا یہ عالم ہے کہ امریکی جامعات کے شعبہ ہائے صحافت اور ابلاغ عامہ اپنے طلبہ کو فلسطین کے بارے میں زبان بندی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جامعہ کولمبیا کے رئیسِ کلیہ صحافت و ابلاغ عامہ، جے کوب (J. Cob) اور سینئر پروفیسر ڈاکٹر اسٹیورٹ کارل (Stuart Karle) نے امریکہ میں زیرِ تعلیم غیر ملکی طلبہ کو نصیحت فرمائی ہے: "اگر آپ سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر سرگرم ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے پیج پر مشرق وسطیٰ کا زیادہ ذکر نہ ہو۔ یہ بڑا خطرناک وقت ہے، کوئی بھی آپ کی حفاظت نہیں کر سکتا۔”
ایسے ہی خوف کا شکار G-7 کی قیادت نظر آ رہی ہے۔ کینیڈا میں وزرائے خارجہ کے اجلاس میں غرب اردن پر فوجی آپریشن اور فلسطینیوں پر قابضین کے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مسئلے کے پائیدار حل کے لیے دو ریاستی فارمولا تجویز کیا گیا، لیکن امریکہ کے اعتراض پر مشترکہ اعلامیے سے اسے حذف کر دیا گیا، اور غرب اردن میں فلسطینیوں پر قابضین کے حملوں کی مذمت کے بجائے "تشدد پر تحفظات” جیسے مبہم الفاظ استعمال کیے گئے۔ مہذب دنیا نے ابھی سچ بولنے کی تہذیب نہیں سیکھی۔
امن مذاکرات عملاً معطل ہیں۔ غزہ میں نظر بند اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی، آدم بوہلر (Adam Boehler) کو گزشتہ ہفتے ان کے منصب سے ہٹا دیا گیا۔ بوہلر صاحب کا کہنا ہے کہ یہ کوئی باقاعدہ تقرری تھی ہی نہیں، وہ ذاتی سطح پر اس "کارِ خیر” میں رضاکارانہ طور پر اسٹیو وٹکاف کا ہاتھ بٹا رہے تھے، لیکن صحافتی حلقوں کے خیال میں ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران ان کا مزاحمت کاروں کو "nice guys” کہنا اشتعال، بلکہ عتاب کی وجہ بنا ہے۔
آٹھ مارچ کو CNN پر انٹرویو کے دوران میزبان جیک ٹیپر نے ان سے کہا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم اور ان کے رفقا کو شدید تحفظات ہیں کہ آپ "دہشت گردوں” کے ساتھ ایک میز پر بیٹھے ہیں۔ اس پر جناب بوہلر نے وضاحت کی: "میں اپنے اسرائیلی دوستوں کے جذبات کی قدر کرتا ہوں اور مجھے معاملے کی حساسیت کا اندازہ ہے، لیکن مسئلے کے حل کے لیے براہِ راست بات چیت کے سوا چارہ بھی کیا ہے؟” پھر مزاحمت کاروں کے وفد کا ذکر کرتے ہوئے بولے: "صورت شکل میں یہ ہمارے ہی جیسے ہیں، ان کے سروں پر سینگ نہیں۔ بظاہر Pretty Nice Guys یعنی بہت شائستہ لوگ ہیں۔”
جناب اسٹیو وٹکاف بھی اب اپنے لب و لہجے سے مصالحت کار کے بجائے نیتن یاہو کے ترجمان نظر آ رہے ہیں۔ قطر سے واپس جاتے ہوئے انہوں نے کہا، "صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ مزاحمت کار تمام قیدی فوراً رہا کر دیں، ورنہ انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔” انہوں نے کہا کہ "دہشت گرد یہ سمجھ رہے ہیں کہ وقت ان کے ساتھ ہے، ایسا ہرگز نہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ غزہ پر جہنم کے دروازے وا ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔”
اس سے ایک دن پہلے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر FOX کے بل ہیمر (Bill Hemmer) سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بہت اعتماد سے کہا، "مزاحمت کاروں کے ہتھیار ڈال کر غزہ خالی کر دینے سے پٹی پر امن کا آغاز ہوگا۔” جب میزبان نے پوچھا، "کیا مزاحمت کار یہ شرائط قبول کر لیں گے؟” تو موصوف بلا توقف بولے، "ان کے پاس متبادل کیا ہے؟ غزہ خالی کر دینے کے سوا ان کے پاس اور کوئی منطقی راستہ یا چارہ نہیں۔”
بات چیت کے دوران آدم بوہلر نے اعتماد سازی کے لیے امریکی شہری ایڈن الیگزینڈر کو رہا کرنے اور چار امریکیوں کی لاشوں کی حوالگی کی تجویز پیش کی تھی۔ مزاحمت کاروں نے یہ درخواست قبول کر لی، لیکن وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس پیشکش کو چالاکی اور نفسیاتی حربہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ امریکی وزیر خارجہ کے خیال میں ایک امریکی قیدی اور چار لاشوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے 400 فلسطینیوں کی رہائی ایک "احمقانہ فارمولا” ہے۔ شاید فاضل وزیر خارجہ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ امریکی ثالثی میں وضع کیے جانے والے معاہدے کے دوران ہی یہ فارمولا طے ہوا تھا۔
غزہ کے حوالے سے ابہام و تضاد ہر سطح پر نمایاں ہے۔ آئرلینڈ کے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران، جب وہاں موجود ایک صحافی نے وزیر اعظم مارٹن سے پوچھا، "فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے (صدر ٹرمپ کے) منصوبے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟” تو مارٹن صاحب کے کچھ کہنے سے پہلے ہی جناب ٹرمپ بولے، "کوئی بھی کسی فلسطینی کو بے دخل نہیں کر رہا۔” اس بات پر فلسطینیوں نے اطمینان کا اظہار کیا، لیکن اس یقین دہانی کی بازگشت ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ اہلِ غزہ کو بسانے کے لیے سوڈان، صومالیہ اور صومالی لینڈ سے رابطوں کی خبر سامنے آ گئی۔
اس کا انکشاف سب سے پہلے ٹائمز آف اسرائیل نے کیا، جس کے مطابق امریکہ اور اسرائیل ان ممالک سے رابطے میں ہیں۔ صومالی لینڈ کو اب تک دنیا نے آزاد ملک تسلیم نہیں کیا، اور جیسے مراقش کو دہشت گرد فہرست سے نکالنے کا وعدہ کر کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا، ویسے ہی فلسطینیوں کی میزبانی کے عوض صومالی لینڈ کو اقوام متحدہ کی رکنیت پیش کی جائے گی۔
اسرائیل کے مذہبی عناصر "ٹرمپ سرکار” کو حصولِ عظمتِ اسرائیل کی نشانی قرار دے رہے ہیں۔ وزیرِ ماحولیات نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "ٹرمپ انتظامیہ، خدا نے ہماری نصرت کے لیے بھیجی ہے اور خدا ہمیں واضح طور پر بتا رہا ہے کہ اب زمین (غزہ) کا وارث بننے کا وقت آ گیا ہے۔”
حوالہ: عبرانی ریڈیو رشدِ بیت، انگریزی ترجمہ: روزنامہ الارض
غزہ اور غرب اردن کے ساتھ اب دیگر علاقوں کی عرب آبادیوں میں بھی عسکری آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے الخلیل الاسفل (Lower Galilee) کے شہر عرّابہ پر اسرائیلی فوج نے دھاوا بولا، جس میں تین نوجوان جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ گھر گھر چھاپوں میں سو سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ غرب اردن میں قابضین کے خلاف فلسطینیوں کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ نابلوس کے قریب دوما میں فلسطینیوں کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ رات کے وقت کی جانے والی اس وحشیانہ کارروائی میں، گھروں کو باہر سے مقفل کرنے کے بعد انہیں نذرِ آتش کیا گیا۔ شاید یہ صدر ٹرمپ کی اس دھمکی کا عملی مظاہرہ تھا کہ "جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔”
جنگ بندی کے باوجود، نمازِ جمعہ کے دوران شمالی غزہ میں بیت لاہیہ پر بمباری کی گئی، جس میں ترک خبر رساں ایجنسی Anadolu کے صحافی محمد اسلام سمیت 9 افراد جاں بحق ہو گئے۔
صدر ٹرمپ نے جنگ کا دائرہ یمن تک بڑھا دیا ہے۔ 15 مارچ کو عین سحری کے وقت دارالحکومت صنعاء اور سعودی سرحد پر واقع صعدہ میں شدید بمباری کی گئی جس میں کم از کم 53 شہری جاں بحق ہوئے۔ حملے کی تصدیق صدر ٹرمپ نے اپنے نجی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر خود کی۔ اپنے طویل پیغام میں امریکی صدر نے کہا:
"حوثیو! تمہارے دن پورے ہو چکے، جو بائیڈن کا دور لد چکا۔ حملوں سے فوراً توبہ کر لو، ورنہ تم پر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ ایرانیو! حوثیوں کی مدد اور اس امریکی صدر کو دھمکی دینا فوراً بند کرو، جسے امریکی تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ ملا ہے، ورنہ بہت برا ہوگا۔ یمن پر حملے میرے حکم پر کیے گئے ہیں، اور یہ ہلاکت خیز حملے کئی دن، اور ضرورت پڑی تو ہفتوں جاری رہیں گے۔”
دو دن بعد 17 مارچ کو عین اسی وقت بحیرہ احمر کی بندرگاہ الحدیدہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل حوثیوں نے امریکی طیارہ بردار جہاز USS Harry Truman پر ڈرون حملے کا دعویٰ کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے غزہ سے رہا ہونے والے ایک قیدی تل شوہام (Tal Shoham) کے انکشاف نے اسرائیلی عسکری حلقوں کو چونکا دیا۔ اس نے بتایا کہ شدید بمباری اور ہلاکت خیز حملوں کے باوجود، غزہ میں سرنگوں کا نظام نہ صرف صحیح سلامت ہے بلکہ جنگ کے دوران بھی ان کی مرمت، تعمیرِ نو اور توسیع کا کام جاری رہا۔ شوہام نے Fox ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اپنی گرفتاری کے دوران، اس نے سرنگوں کی توسیع کے کام میں ایک دن کا بھی وقفہ نہیں دیکھا۔ اسرائیلی محکمۂ سراغ رسانی کا خیال ہے کہ غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں کی مجموعی لمبائی ساڑھے تین سو میل سے زیادہ ہے۔ مسلسل ڈیڑھ سال کی بمباری کے باوجود، یہ زیرِ زمین نظام تقریباً محفوظ ہے، اور متاثرہ سرنگوں کی بھی مرمت کر لی گئی ہے۔
امریکہ میں غزہ نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ امریکی محکمۂ انصاف کے اس الزام کے بعد کہ جامعہ کولمبیا کی انتظامیہ نے مطلوب افراد کو پناہ دے رکھی ہے، طلبہ کے ہاسٹل اور تدریسی عملے کی رہائش گاہوں کی تلاشی لی گئی۔ چھاپے کے دوران کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، لیکن اپنے گھر سے فلسطینی طالبہ لقیٰ قرضیہ کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ پی ایچ ڈی کی ایک تامل (ہندوستانی) طالبہ رنجھن سرینیواسن تعلیم ادھوری چھوڑ کر خود ہی کینیڈا چلی گئی۔ اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر غزہ کے حق میں مواد دیکھ کر جامعہ نے اس کا ویزا منسوخ کروا دیا تھا۔
ملزمان کو پناہ دینے کے الزامات اور وفاقی گرانٹ میں کٹوتی کے خوف سے، جامعہ نے گزشتہ سال مظاہرے کرنے والے کئی طلبہ کو یونیورسٹی سے خارج کر دیا اور بہت سے فارغ التحصیل طلبہ کی اسناد معطل کر دیں۔ ان اقدامات کے خلاف یہودی صدائے امن (Jewish Voice for Peace) کے زیراہتمام نیویارک کے ٹرمپ ٹاور پر 14 مارچ کو طلبہ نے دھرنا دیا۔ مظاہرین نے سرخ رنگ کی ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں، جن پر لکھا تھا: "Not in Our Name” (ہم یہودیوں کے نام پر ظلم برداشت نہیں کریں گے)۔ گروپ کی قائد سونیا نوکس نے تقریر کرتے ہوئے امریکی یہودیوں سے کہا:
"اگر آج فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی برداشت کر لی گئی تو کل کوئی اور اقلیت نشانہ بنے گی۔ اگر آج آواز نہ اٹھائی تو کل شاید آواز اٹھانے کا موقع بھی نہ ملے۔”
پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دھرنا ختم کرایا اور سو افراد کو گرفتار کر لیا، جن پر نجی عمارت میں بلا اجازت داخل ہونے اور کاروباری سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کی اجازت دینے والی جامعات کی امداد میں کٹوتی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ریسرچ اور تحقیق کے معتبر ادارے جامعہ جان ہاپکنز (Johns Hopkins University) نے وفاقی فنڈ میں کٹوتی کی وجہ سے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کے 2,000 افراد کو فارغ کر دیا۔ جامعہ کو طبی تحقیق کے لیے USAID سے 800 ملین ڈالر کی گرانٹ ملتی تھی، جو اب منجمد کر دی گئی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard University) نے بھی اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی بھرتی پر پابندی لگا دی ہے۔
انتہا پسندی، تشدد اور عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ، اسرائیل میں آزادیٔ اظہار پر بھی سخت پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ 10 مارچ کو مشرقی یروشلم میں کتابوں کی ایک دکان پر اسرائیلی خفیہ پولیس نے چھاپہ مارا اور ‘مشتبہ کتب’ کی موجودگی کے الزام میں دکان کو سیل کر دیا، جبکہ اس کے 61 سالہ مالک کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان ‘مشتبہ کتب’ میں اسرائیلی ماہرِ سیاسیات ڈاکٹر ایلان پاپے (Ilan Pappé) اور نوم چومسکی کی تحریریں شامل تھیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ، برطانوی مصور Banksy کے فن پارے بھی قابلِ اعتراض قرار دیے گئے۔ بینکسی، جو ایک گمنام اسٹریٹ آرٹسٹ ہیں، عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ اس دکان پر یہ ایک ماہ میں دوسرا چھاپہ تھا۔ CNN کی تجزیہ نگار کرسٹینا امانپور نے جب اسرائیلی رکن پارلیمان عوفر کسیف (Ofer Cassif) سے سوال کیا کہ "کیا یہ آزادی اظہار کے لیے خطرے کی گھنٹی نہیں؟” تو کسیف نے جواب دیا:
"گھنٹی کیسی؟ اسرائیل میں اب آزادی اظہار نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی!”
بڑی طاقتوں کی بے ضمیری اور مہذب دنیا کے دوغلے کردار کا ماتم اپنی جگہ، لیکن ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے والے افراد کی بھی دنیا میں کمی نہیں۔ معروف پاکستانی آرکیٹیکٹ یاسمین لاری کو اسرائیلی ادارے وولف فاؤنڈیشن نے ایوارڈ اور ایک لاکھ ڈالر انعام سے نوازا۔ تاہم، لاری صاحبہ نے انعام لینے سے انکار کر دیا۔ اپنے مختصر پیغام میں انہوں نے کہا:
"میں اسرائیلی ادارے سے ایوارڈ وصول کر کے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی۔”
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025