غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم

معرکہ کربلا، محض اتفاقی اورحادثاتی واقعہ نہیں

ابوفہد ندوی، دلی

باطل حکمتوں کو نظرانداز کرنے والے ظاہربین تبصرہ نگاروں کے لیے لمحہ فکریہ
افسوس کا مقام یہ ہے کہ موجودہ وقت میں اہل سنت میں سے بہت سے اہل علم انتہائی صدق دلی کے ساتھ اورحضرت حسینؓ کے لیے بے انتہا محبت کے باوجود بھی کہیں نہ کہیں تاریخی روایات سے متاثرہوکراورخاص طورپربعض عقلی استدلال سے متاثر ہوکر، جیسے کہ جب اجلۂ صحابہ اورخود آپ کے اہل وخانہ واہل تعلق نے آپ کو کوفہ جانے سے روکنے کوشش کی تھی اورانتہائی اخلاص اورہمدردی ودلسوزی کے ساتھ کی تھی، توپھرآپ کے سامنے ایسی کیا مجبوری اورعجلت تھی کہ آپ اپنے تمام دوست واحباب اوراہل تعلق کے مشوروں اورمحبتوں کو درکنار کرتے ہوئے آخر کار کوفہ کے دوردرازسفرپرمٹھی بھرافراد کے ساتھ جن میں بچے اورعورتیں تھیں اوربے سروسامانی بھی، حتیٰ کہ ناگہانی معرکہ آرائی کے پیش نظر کسی تیاری کے بغیر ہی نکل کھڑے ہوئے؟ حالانکہ ایسا بھی نہیں تھا کہ حالات پوری طرح موافق رہے ہوں اورراستہ پُرخطرنہ ہو۔ بے شک حالات بھی ناموافق تھے اوراسی لیے آپ مدینہ سے مکہ منتقل ہوئے تھے تاکہ جبری بیعت سے بچ سکیں اورراستہ بھی پُرخطرتھا، کم ازکم پوری طرح مامون تونہیں تھا، لیکن اس کے باوجود آپ کے پاس کوفہ سے مسلسل خطوط آرہے تھے اورآپ کے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل نے کوفہ پہنچ کروہاں کے حالات کی سازگاری کی بذریعہ خط اطلاع دی تھی، حالات کو پوری طرح مامون نہیں کہاجاسکتا تھا کیونکہ ابھی بھی جبری بیعت کا سلسلہ چل رہا تھا۔ اورکوفہ میں آپ کے پہنچے سے پہلے مسلم بن عقیل کی شہادت نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ حالات سازگار نہیں تھے۔
یہاں تک آپ اٹھارہ بیس دن کے مسلسل سفرکے بعد اپنے سفر کے آخری پڑاؤ پر پہنچ گئے اوریہاں کوفہ کے گورنرکی ایک ہزار فوج سے آپ کے قافلے کا سامنا ہوا۔ کوفہ کے گورنرعبیداللہ بن زیاد نے اپنے سپہ سالارکوسخت ہدایات دی تھیں کہ کسی بھی قیمت پرحسینؓ کویزید کی بیعت کے لیے مجبورکرنا ہے۔ اس وقت آپ نے واپس جانے اورکچھ شرائط طے کرنے کی بات کی۔ اس سے پہلے پڑاؤ پرجب آپ کو حضرت عقیلؓ کی شہادت کی خبرملی تھی، تب بھی آپ نے واپسی کا ارادہ ظاہرکیا تھا۔ مگرایک تواس وجہ سے کہ قافلے میں موجود حضرت عقیل کے رشتہ داروں نے قصاص لینے کا مطالبہ کیا اوردوسرے شاید اس وجہ سے بھی کہ وطن سے اتنی دورآکرعورتوں اوربچوں پرمشتمل ایک مسافر قافلے کا دشمن فوجوں سے بچ نکلنا کسی طوربھی ممکن نہیں تھا۔ ان دوبڑی وجوہات کے پیش نظرآپ نے کوفہ میں حضرت عقیل کی شہادت کی خبر ملنے کے بعد بھی، یعنی حالات کے ناسازگار ہونے کے یقینی علم کے باوجود بھی سفرجاری رکھا یہاں تک کہ عبیداللہ بن زیاد کی فوج سے آپ کا مقابلہ ہوگیا۔
اس استدلال کی بنیاد پر ہمارے بہت سے اہل سنت، صاحبانِ علم وتحقیق یہ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ کہیں نہ کہیں حضرت حسینؓ ہی غلط تھے۔ یا آپ وقت کی نزاکت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے یا پھر یہ کہ یہ بس قضا وقدر کا معاملہ تھا کہ ایسا ہونا لکھا تھا سوایسا ہوکررہا۔
میں تواس استدلال کواوراس استدلال سے کسی بھی نوعیت کے تاثر کو صریح غلطی ہی کہوں گا۔ اس لیے بھی کہ یہ استدلال طاقت اورعدم طاقت کی بہت ہی ظاہری علت کی بنا پر قائم کیا گیا ہے اوردوسرے یہ کہ اس استدلال کی بنا میں وقتی حالات واسباب کو اوربہت ہی سامنے کی موٹی موٹی علتوں کو ہی پیش نظر رکھاگیاہے۔ مثلا یہ کہ حضرت حسینؓ تنہا تھے اورکمزورتھے جبکہ یزید کے پاس طاقت تھی، حکومت تھی اورپورا لاؤلشکرتھا۔ یہ موازنہ اس لیے غلط ہے کیونکہ حضرت حسینؓ براہ راست یزید سے جنگ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ پھراس استدلال سے اللہ کے دین کے تئیں غیرت اورپرامید وپرشوق جذبات کو اوراللہ کی قدرت پریقین اورایمان کو، سب کو یکسرنظرانداز کردیا گیا ہے۔
انبیاء کرام کی تو پوری تاریخ یہی رہی ہے کہ وہ ہمیشہ کمزورہی رہے اوردشمن ہمیشہ طاقتورہی رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اورنمرود کو دیکھ لیں، موسیٰؓ وفرعون کو دیکھ لیں، داؤود اورجالوت کو دیکھ لی، ہاں سلیمانؓ و بلقیس کی بات الگ ہے، اسی طرح نبیﷺ اورکفارمکہ کو دیکھ لیں، جنگ بدرمیں فریقین کا فرق ملاحظہ کرلیں، پھراس کے بعد بھی دسیوں ایسی جنگیں ہیں جن میں صحابہ کرام کی تعداد بہت کم تھی اورمسلمانوں کی تعداد وتیاری کا دشمن کی تیاری وتعداد سے اورفوجی قوت اورجنگی آلات واسلحہ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔
ظاہر ہے کہ ہم جیسے ظاہربیں اورکم سواد لوگ تو یہی استدلال رکھیں گے کہ خود کوہلاکت میں ڈالنے کا کچھ حاصل نہیں۔ کم سواد اورظاہربیں تبصرہ نگاراورمحققین کا کیا ہے وہ ہمیشہ طاقت،اسباب، وقت وحالات اورنتائج کوسامنے رکھ کرہی بات کرتے ہیں۔ ویسے کرنا بھی چاہیے مگر اسی کے ساتھ نتھی ہوکرنہیں۔ کربلا کا نتیجہ تو خیراپنے ظاہر کے اعتبارسے حضرت حسینؓ کے حق میں منفی نکل آیا لیکن اگرخدا نہ خواستہ جنگ بدرکا نتیجہ بھی مختلف نکلتا توایسے کم سواد اور ظاہر بیں لوگ اوراہل علم اسے بھی (نعوذ باللہ) رسول اللہ ﷺ کی خطا قرار دیتے۔
پھر یہ بھی دیکھیں کہ حکام وقت کے خلاف حضرت حسینؓ کے بعد بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ جبکہ معرکہ تو پہلے سے ہی گرم تھا، اس سے قبل جنگ جمل اورجنگ صفین ہوچکی ہیں۔ پھرکربلا کے چند سال بعد ہی حضرت زبیراورپھران کی حمایت میں ان کے بھائی مصعب بن عمیرمیدان میں آگیے، چارپانچ سال کی قلیل مدت میں اس علاقے کا ایک سردارمختارالثقفی اٹھ کھڑا ہوا اوراس نے حضرت حسینؓ کے قاتلوں سے چن چن کر بدلہ لیا۔ پھراسی عرصے میں کم وبیش آٹھ دس ہزار نفوس پر مشتمل توابین کی جماعت کھڑی ہوئی اوراس پوری جماعت نے حضرت حسینؓ کی محبت میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیے۔ابھی اس واقعے کو بمشکل تمام 60 سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ حضرت حسینؓ کے پوتے زید بن علی بن حسینؓ اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے ظلم وجورکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ خلفائے بنی امیہ کے خلاف مزاحمت کے اس تسلسل سے پتہ چلتا ہے کہ کربلا کوئی پہلا اورآخری معرکہ نہیں تھا۔ اس لیے حضرت حسینؓ کے مزاحمتی اقدام کو اتفاقی اقدام نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اجتہادی خطا کے زمرے میں ڈال سکتے ہیں۔ جیسا کہ بعض سنی حضرات بھی بعض ظاہری اسباب اورغیر مثبت نتیجے کو سامنے رکھ کرسوچ لیتے ہیں اور حکم لگانے لگتے ہیں۔ ظاہر بینوں کے نظر میں بھلے ہی حیسنیوں کا خون رائیگاں چلا گیا ہومگر قدرت کے کارخانے میں ایک معمولی چنگاری اور معمولی ہلچل کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے، گوکہ اس کے اثرات فوری طور پر ظاہر نہ ہوں۔
اموی حکومت اوران کے طاقتور خلفا کے سامنے اگرچہ یہ سب چھوٹی موٹی کارروائیاں اورلڑائیاں تھیں، جوبعض وقت بہت واضح بھی نہیں تھیں اوران میں سے کسی کو بھی مکمل کامیابی بھی ہاتھ نہیں لگ سکی۔۔ لیکن تاریخ نگارجانتے ہیں کہ انہی لڑائیوں نے امویوں کی وسیع وعریض اور مستحکم زمینوں پرعباسیوں کے لیے جگہ پیدا کی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اموی حکومت کا چراغ ہمیشہ کے لیے گُل ہوگیا۔
اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ برائی کے خلاف اصلاحی جدوجہد کی ایسی کاوشوں کا پورا تسلسل ہے۔ کامیابی وناکامی کی بات الگ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام کے دلوں میں اور ائمہ کرام کے دلوں میں اورخاص طور پرخانوادۂ رسول کے افراد کے دلوں میں یہ بات پختہ تھی کہ خاص طورپرحضرت امیرمعاویہ کے بعد ان کے جانشینوں کی خلافت کا نظام خلافت راشدہ کے خطوط پر نہیں چل رہاہے، گوکہ اسے جائز قراردیا گیا ہواورقابل برداشت سمجھاگیا ہو۔ آخررسول اللہ ﷺ نے بھی تو اپنی جماعت میں منافقوں کو برداشت کیا اورجانتے بوجھتے کیا۔
اس لیے یہ نیک دل اور نیک صفت لوگ نظام کی تبدیلی بہرحال چاہتے تھے۔ ان کے اقدامات بظاہر منظم اور بھرپور نہیں تھے مگر ان کے اقدام کے پیچھے مادی علتیں بھی نہیں تھیں، نہ خاندانی وجاہتیں اور نہ مال واسباب کی ہوس۔ دین وایمان کی تاریخ بہت ہی عجیب وغریب ہے، یہاں عقل اورمادی اسباب اورظاہر پرستی پر ہی نظرنہیں ہوتی، یہاں بہت سے فیصلے باطن کی آواز پر بھی ہوتے ہیں اورکامیاب بھی ہوتے ہیں۔غالبا اسی کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے:
غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیلؑ
مجھے بتایا جائے کہ دنیا کا کونسا ایسا ذہین انسان، انجینئر، ماہرماحولیات وجغرافیہ داں یا کونسا ایسا لیڈراورڈکٹیٹرہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کےاس اقدم کو مادی اورانتظامی اعتبارسے صحیح ٹھیراسکے کہ انہوں نے اپنی اولاد کو بے آب وگیاہ مقام پرلا کربسا دیا تھا اوروہ بھی اسبابِ رہائش وآسائش کے بغیر۔ کیا کوئی بھی "عقلمند” انسان اس کی تائید کرسکتا ہے اوراس فیصلے کو درست قراردے سکتاہے؟ یہ اتنا بڑا اورپرخطر قدم تھا کہ اگرحضرت ابراہیم علیہ السلام خود بھی غیبی اشاروں کے بغیر محض اپنی عقل وخرد کےبھروسے پرایسا اقدام کرنے جاتے توانہیں اپنے اس اقدام پرکم ازکم تعجب ضرورہوتا۔
مجھے بتایا جائے کہ اس دنیا کا کونسا انسان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں بے خوف وخطر کود جانے کو صحیح ٹھیرا سکتا تھا؟ آخر دنیا کا کونسا عقلمند اور ہوشمند انسان ایسا ہے کہ جو اصحاب کہف کے اقدام کو درست قرار دے سکے؟ ان کی نظر میں تو یہ سب کے سب بے موت ہی مارے گئے۔ (نعوذ باللہ)۔
آخر دنیا کی کونسی قوم ایسی ہوسکتی تھی کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی بنارہے تھے اور بارش اور پانی کا کہیں دوردور تک اتہ پتہ نہیں تھا، وہ قوم حضرت نوح علیہ السلام کے اس عمل پراسی طرح ٹھٹھا نہ کرتی جس طرح خود ان کی قوم نے کیا؟
اللہ کے برگزیدہ بندوں اور پیغمبروں کے مذکورہ فیصلوں اوراقدامات میں آپ دیکھ لیں، انتظام کہاں ہیں، علتیں کہاں ہیں اور نتائج پرنظرکہا ں ہے۔ ان میں تو بس ایمانی قوت اور جذبہ اندرونی ہے اوربس۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
حد تویہ ہے کہ اللہ کے ایک برگزیدہ بندے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی بعض استدلال ظاہرکی بنیاد پر قائم کیے۔ اور قرآن میں ایک طرح سے ان کے استدلال کی کمزوری واضح کی گئی۔ وہ ایک بندۂ خدا کے سامنے خاموش رہنے کی اپنی تمام شرائط ہار گئے۔ اورحضرت خضرعلیہ السلام کی باطنی اورغیرظاہری حکمتوں اورعلتوں تک نہیں پہنچ سکے۔ حضرت خضرعلیہ السلام کے ساتھ سفرمیں جو واقعات پیش آئے جیسے کشتی کا توڑنا، بچے کا قتل کرنا اوردیواردرست کرنے کی اجرت نہ لینا وغیرہ۔ ان تمام واقعات پر حضرت موسی علیہ السلام نے ظاہری نگاہ سے ہی غورکیا اورسوال کربیٹھے۔ قرآن کے بیانیے سے پتہ چلتا ہے کہ سوال کرنا عدم صبر کی وجہ سے تھا نہ کہ تحصیل علم کی نیت کی وجہ سے۔ جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ حضرت خضر علیہ السلام کی مزید صحبت اختیار نہیں کرسکے،حالانکہ انہوں نے سفر کے آغاز کے وقت علم وحکمت کی باتیں سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا: قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا (الکہف: 66) اور حضرت خضرنے اسی وقت آگاہ کردیا تھا: قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ‎(الكهف 67:‏)
اس سفر کی روداد میں دراصل یہ بڑا پیغام چھپا ہوا ہے کہ دنیا میں صرف ظاہری اسباب ہی کام نہیں کررہے ہیں بلکہ ان ظاہری اسباب کے پیچھے بھی علت واسباب کی ایک وسیع وعریض دنیا ہے۔ اوراس دنیا کے بارے میں اللہ نے اپنے نبیوں میں سے جس کو جتنا چاہا ہے مطلع فرمایا ہے اورپھران انبیاء کے توسط سے ان کے متبعین کو اطلاع دی ہے۔ تاکہ لوگ صرف ظاہر کے پرستار بن کر نہ رہ جائیں بلکہ باطنی اسباب اورعلتوں پر بھی غوروفکر کرتے رہیں۔
بے شک ظاہر کے اسباب بھی اللہ نے ہی رکھے ہیں اوران کی بنیاد پر بھی دنیا جیتی جاتی ہے، اگرچہ موجودہ دنیا توسائنس وٹیکنالوجی کی ظاہری اورمادی طاقتوں اورجوہری قوتوں کی بنیاد پرہی جیتی جارہی ہے۔ اورمیرے اس استدلال سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا ہے کہ ظاہری اسباب کی کوئی اہمیت نہیں، بالکل اہمیت ہے، قرآن نے بھی کہا ہے: وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ (الأنفال60:)، مگریہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ سب کچھ ظاہری اسباب ہی نہیں ہوتے اور جب تقابل ایمان سے ہو تب تو ظاہری اسباب ثانوی حیثیت ہی میں ہوتے، جیسے دواؤں سے شفا ملتی ہے، ٹیکنالوجی اورجوہری قوتوں سے جنگیں جیتی جاتی ہیں، یہ ظاہری اسباب ہیں مگر فی الواقع شفا تو اللہ ہی دینے والا ہے اور شکست وفتح تو اللہ ہی دینے والا ہے۔
پھرتصویر کے اس دوسرے رخ کو بھی اللہ اسی دنیا میں دکھاتا ہے اوربارہا دکھایا ہے۔ اگردنیا میں صرف طاقت کا اصول ہی کارفرما ہوتا توتاریخ کی بڑی بڑی قوتیں ہمیشہ قائم ودائم رہتیں اوردوسری کوئی قوت انہیں چیلنج کرنے والی اورتوڑنے والی نہ ہوتی، مگرظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا، بڑی سے بڑی طاقتیں تاش کے پتوں کی طرح بکھرگئیں اورکئی بارتوخود سے ہزاردرجے کمزورقوتوں سے ہی پسپا ہوکررہ گئیں۔ پھر اللہ نے ہی یہ سسٹم بھی بنادیا ہے کہ طاقت ہمیشہ ایک شخص، ایک قوم، ایک خاندان اور ایک ملک کے پاس نہیں رہتی۔ طاقت پارے کی طرح گھومتی پھرتی ہے، اج اِس کے دَراورکل اُس کے دَر: وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ‎﴿آل عمران: ١٤٠﴾‏
ذرا غورکریں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ فرمایا تھا: "إِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ” (مسلم) تواس وقت آپ مادی اعتبارسے اورجنگی قوت کے اعتبار سے قیصروکسری کی جنگی وعسکری اورمادی قوتوں سے کس قدر کمزور تھے، بلکہ مسلمان رسول اللہﷺ کے بعد بھی مادی واسباب ظاہری کے اعتبار سے ان کے ہمسرنہیں ہوسکے۔ مگر اللہ نے انہی کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں دنیا کی دوسب سے بڑی طاقتوں کےغرور کو خاک میں ملادیا۔
دنیا اگرچہ یہی مانتی ہے کہ طاقتور ہمیشہ کمزور پرغالب آتاہے اورعقل کو اس کے علاوہ اورکوئی بات نہیں سوجھتی اور یہی بات "Survival of the fittest” والی تھیوری بھی بتاتی ہے۔ مگر قرآن نے کہا ہے: ” قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُوا اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ‎(البقرة 249:)‏ "حضرت داؤود کے ساتھ جولوگ کمزورایمان والے تھے وہ جالوت کی طاقت دیکھ کر ڈر گئے اور لڑنے سے انکار کردیا۔۔۔ مگرجولوگ اللہ سے ملاقات کے مشتاق تھےانہوں نے کہا کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کم تعداد والے گروہ محض اللہ کے اذن سے زیادہ تعداد والے گروہ پرغالب آجاتے ہیں۔ اوراللہ ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔” ایمان والے لوگ یہ کہہ کرحضرت داؤودؑ کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے اوراللہ نے فتح ونصرت عطا فرمائی۔
جالوت کے خلاف جنگ میں اہل ایمان کی جو صورت حال تھی تقریبا وہی صورت حال جنگ بدرمیں بھی تھی۔ بدرمیں بھی ایک ہزار کے مقابلے میں 313 تھے اور یہاں بھی تقریبا اتنے ہی اہل ایمان تھے۔
قرآن نے اس آیت (البقرة 249:) کے حوالے سے نہ صرف ایک تاریخی واقعہ بیان کیا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی تاریخ سے کئی حقیقی مثالیں بھی پیش کی ہیں کہ تاریخ میں کئی مرتبہ ایسا ہوچکا ہے کہ ایک بہت ہی کمزورقوم اورکمزورشخص کے سامنے بہت طاقتورقوم اورظالم وجابرانسان بے اعتباروبے وقارہوکررہ گیا۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اورمسقتبل میں بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ یہ بھی اللہ کی سنت ہے جو کبھی ظاہرہوتی ہے اور کبھی مخفی، کبھی لوگ آثارو قرائن سے سمجھ جاتے ہیں اور کبھی نہیں سمجھ پاتے۔
حضرت امام حسینؓ کے اقدام کو بھی اسی نوعیت سے دیکھنا چاہیے۔ صرف ظاہرکی علتوں کو سامنے رکھ کرحکم لگادینا درست نہیں کہ انہوں نے وقت کی بڑی طاقت کے خلاف خاندان کے کمزوراورکم عمرنوجوانوں اورمعمرافراد کے ذریعہ مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ پھر یہ الزام کیسے دیا جاسکتا ہے جبکہ معلوم ہے کہ حضرت امام حسینؓ جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے تھے، کوفہ کے معتبر لوگوں نے وہاں کے ناگفتہ بہ حالات کا ان سے ذکر کیا تھا اوراس معاملے میں ان کی دادرسی چاہی تھی۔ اس لیے حسینؓ حالات کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ جانا چاہتے تھے، پھراگران کے ذہن میں کوئی جنگی مہم تھی بھی تو وہ صرف علاقائی سطح کی مہم جوئی کی پلاننگ ہی ہوسکتی تھی، نہ کہ پوری اموی دنیا کے خلاف یکبارگی ہلہ بولنے جیسی کوئی مہم ان کے پیش نظر رہی ہوگی۔ اوریہ سب بھی وقت اورحالات کے حساب سے ہی طے کیا جانا تھا۔ مگرجیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ حالات ڈرامائی اندازسے حضرت حسینؓ کے خلاف پیدا ہوتے چلے گئے یہاں کہ ’’ تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ جیسی صورت حال پیدا ہوگئی۔ آپ بھی اور آپ کے جاں نثار اپنی تلواریں سونت کر کھڑے ہوگئے،جنگ شروع ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا، بالآخردشمن غالب آیا اورخاندانِ نبوت کے چشم وچراغ کواوراس کے پورے خاندان کوخاک وخون میں تڑپا دیاگیا، زمین وآسمان کی نگاہوں نے ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بے شک اہل ایمان کو بڑی بڑی آزمائشیں پیش آئی ہیں مگر یہ آزمائش اپنی نوعیت کے اعتبارسے بہت مختلف تھی۔ تاریخ کے پہلے سرے پر اگر حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا واقعہ پیش نظر رکھیں توعظیم قربانیوں کا ایک تسلسل صاف سمجھ میں آتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہےکہ اولاد ابراہیم واسماعیل کواس قبیل کی ابھی بہت سی آزمائشوں سے گزرنا ہے، کیونکہ اس وقت دنیا میں اولاد اسماعیل ہی "امانت کبریٰ” کی پاسداروامین ہے۔
آگ ہے، اولاد ابرہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے

 

***

 تاریخ بتاتی ہے کہ حالات ڈرامائی اندازسے حضرت حسینؓ کے خلاف پیدا ہوتے چلے گئے یہاں کہ ’’ تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ جیسی صورت حال پیدا ہوگئی۔ آپ بھی اور آپ کے جاں نثار اپنی تلواریں سونت کر کھڑے ہوگئے،جنگ شروع ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا، بالآخردشمن غالب آیا اورخاندانِ نبوت کے چشم وچراغ کواوراس کے پورے خاندان کوخاک وخون میں تڑپا دیاگیا، زمین وآسمان کی نگاہوں نے ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بے شک اہل ایمان کو بڑی بڑی آزمائشیں پیش آئی ہیں مگر یہ آزمائش اپنی نوعیت کے اعتبارسے بہت مختلف تھی۔ تاریخ کے پہلے سرے پر اگر حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا واقعہ پیش نظر رکھیں توعظیم قربانیوں کا ایک تسلسل صاف سمجھ میں آتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہےکہ اولاد ابراہیم واسماعیل کواس قبیل کی ابھی بہت سی آزمائشوں سے گزرنا ہے، کیونکہ اس وقت دنیا میں اولاد اسماعیل ہی "امانت کبریٰ” کی پاسداروامین ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025