
غذاکی بے انتہا کمی سے غزہ کا ہر بچہ متاثر
نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران میں سخت موقف اختیار کروں گا: صدر ٹرمپ
مسعود ابدالی
مزاحمت کاروں کی حتمی جنگ بندی اور غزہ سے فوجی انخلا پر اصرار
اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند اورتجارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں: اقوام متحدہ
غزہ فوجی حکمت عملی پر نیتن یاہو اور جرنیلوں میں شدید اختلاف۔ایک طبی ماہر اور ایک صحافی کا قتل
غزہ میں جنگ بندی کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں لیکن ان کی نوعیت مبہم اور غیر یقینی ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ اگر مزاحمت کار اگلے 60دنوں میں 10قیدیوں اور 18لاشوں کو اقوامِ متحدہ کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو وہ مستقل امن کے لیے ذاتی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ یکم جولائی کو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ٹروتھ سوشل‘‘پر لکھا’’دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران ہم تمام فریقین کے ساتھ مل کر جنگ کے خاتمے پر کام کریں گے۔‘‘اپنے مخصوص انداز میں اس خوشخبری کو دھمکی میں ملفوف کرتے ہوئے مزید کہا ’’میری امید ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مفاد میں مزاحمت کار اس معاہدے کو قبول کرلیں، کیونکہ اس سے بہتر موقع دوبارہ نہیں ملے گا، بلکہ حالات مزید بگڑیں گے۔‘‘
صدر ٹرمپ نے معاہدے کی شرائط واضح نہیں کیں تاہم، مبصرین کے مطابق یہ تجویز کئی ماہ سے جاری بات چیت کا تسلسل ہے، جس کا نکتہ اختلاف یہ ہے کہ 60 دن بعد کیا ہوگا؟ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے دوبارہ جنگ شروع کرنے کا اختیار حاصل رہے، جبکہ مزاحمت کار مستقل جنگ بندی پر اصرار کر رہے ہیں۔
اسی روز واشنگٹن سے فلوریڈا جاتے ہوئے صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے کہا کہ وہ آئندہ ہفتہ دورہ واشنگٹن پر آنے والے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو سے غزہ میں جنگ کے خاتمے پر ’’بہت سخت مؤقف‘‘ اختیار کریں گے۔لیکن نیتن یاہو کے موقف میں نرمی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ پانچ جولائی کو ان کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ قطری تجویز پر مزاحمت کاروں کی جانب سے پیش کردہ یہ تین ترامیم اسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول ہیں:
عارضی جنگ بندی کے دوران مستقل امن کے لیے مذاکرات جاری رہیں اور حتمی معاہدے تک جنگ دوبارہ نہ چھیڑی جائے۔
انسانی امداد کی بلا رکاوٹ آمد کی ضمانت دی جائے اور امداد کی تقسیم اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں اور غزہ ہلالِ احمر کے ذریعے ہو، نہ کہ متنازعہ تنظیم GHF کے تحت؟
اسرائیلی فوج ان پوزیشنوں پر واپس چلی جائے جن پر مارچ میں دونوں فریق رضامند ہوئے تھے۔
مزاحمت کاروں نے اس بیان کا باضابطہ جواب نہیں دیا تاہم، القدس نیوز کے مطابق ان کے عسکری ترجمان نے کہا ’’جنگ اس وقت ختم ہوگی جب مستقل امن معاہدہ ہماری شرائط پر ہوگا۔ دوسری صورت میں ہمارے لیے آزادی یا پھر موت ہی واحد راستہ ہے۔‘‘اتوار کو واشنگٹن روانگی سے قبل تل ابیب ایئرپورٹ پر نیتن یاہو نے اپنا یہ عزم پھر دہرایا کہ ’’مزاحمت کاروں کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کا خاتمہ، بلکہ ان کا غزہ سے انخلا ہمارا ہدف ہے۔‘‘
امن کی باتوں کے ساتھ اسرائیلی مظالم میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے مطابق، گزشتہ چار ہفتوں میں اسرائیلی فائرنگ، ڈرون حملوں اور بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت 613 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔اسرائیل اب پناہ گزین خیموں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
غذائی بحران اور ہسپتالوں کی تباہی
امریکی ڈاکٹر فیروز سدھو نے غزہ سے واپسی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ سرائیلی حملوں سے ہسپتالوں کو تباہ کیا گیا ہے اور اب کوئی ہسپتال، کلینک یا ڈسپنسری پوری طرح کام نہیں کر رہی ہے۔ ہر بچہ غذائی قلت یا malnutrition کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کی سخت رپورٹ
اقوام متحدہ کی نمائندہ Rapporteur فرانسسکا البانیز نے جنیوا میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ ’’اسرائیل غزہ میں منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ 60 سے زائد بین الاقوامی کمپنیاں اس جرم میں ملوث ہیں‘‘ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’’اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند اور اس سے تجارتی و مالی تعلقات منقطع کیے جائیں۔‘‘
اسرائیل کے سفارتی مشن نے اس رپورٹ کو ’’قانونی لحاظ سے بے بنیاد، توہین آمیز اور منصب کا غلط استعمال‘‘ قرار دیا۔
نیتن یاہو بمقابلہ فوجی قیادت
اسرائیلی تجزیہ نگاروں کے مطابق نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند وزراء نے غزہ کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور وہ جنگی تھکن اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔چینل 12 کے مطابق ایک حالیہ ہنگامی اجلاس میں جب نیتن یاہو نے جنرل ایال زامیر کو غزہ کی آبادی کو جنوبی علاقے میں منتقل کرنے کا حکم دیا تو جنرل نے سوال کیا ’’کیا آپ فوجی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں؟ ان 20 لاکھ لوگوں پر کون حکومت کرے گا؟‘‘ اس پر نیتن یاہو غصے سے چیخے ’’فوج اور ریاستِ اسرائیل! میں کسی بھی صورت میں حماس کو برداشت نہیں کروں گا!‘‘ اس پر جنرل زامیر نے خبردار کیا ’’ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ بھوکے
اور غصے سے بھرے ہوئے لوگوں کی جبری منتقلی آسان نہیں ہے۔ اس سے فوج کو سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘ نیتن یاہو نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’’انخلا کا منصوبہ تیار کرو میں واشنگٹن سے واپسی پر اسے دیکھنا چاہتا ہوں‘‘ واشنگٹن جاتے ہوئے تل ابیب ایئرپورٹ پر نیتن یاہو کے بیان کو اس اجلاس میں ہونے والے مکالمے کے تناظر میں دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم ’فتحِ مبین‘ سے کم پر راضی نہیں ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ دباؤ ڈال کر نیتن یاہو کو معقولیت پر قائل کرلیں تو اور بات ہے ورنہ غزہ میں امن کا قیام گفتگو سے پہلے ہی مشکوک نظر آرہا ہے۔
عوامی دباؤ اور اندرونی حملے
ادھر اسرائیل میں قیدیوں کے لواحقین اور عام شہریوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ 5 جولائی کو غزہ کی سرحد اور کئی شہروں میں ہزاروں افراد نے جنگ کے خلاف مظاہرے کیے۔
اسی دوران اسرائیلی فوج کو اپنے ہی مسلح کیے گئے قبضہ گردوں کی جانب سے حملوں کا سامنا ہے۔ 30 جون کو ایک فوجی اڈے پر حملہ کر کے کئی تنصیبات اکھاڑ دی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق وزیرِ داخلہ ایتامار بن گوئر ان گروپوں کو نجی ملیشیا کی شکل دے رہے ہیں۔ عرب کہاوت ’’کتے کو اتنا مت کھلاؤ کہ تمہیں ہی پھاڑ کھائے‘‘۔
بین الاقوامی ردعمل
چار جولائی کو میلبورن، آسٹریلیا میں انتہا پسند اسرائیلی رہنما شاہار سیگل کے مزنون (Miznon) ریستوران پر نوجونوان نے مظاہرہ کیا اور اسرائیلی فوج کے خلاف نعرے لگائے۔ شاہار سیگل غزہ میں امداد تقسیم کرنے کے امریکی واسرائیلی مشترکہ ادارے GHF المعروف ’قتل کا جال‘ کے ترجمان ہیں۔ مظاہرے کے دوران دھکم پیلی سے ریستوران کے برتن ٹوٹ گئے اور میزیں الٹ گئیں۔ اسی دن غروب آفتاب کے وقت ایک افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا۔ یہودی عبادت گاہ (Synagogue) کو اس وقت آگ لگانے کی کوشش کی گئی جب وہاں سبت کی عبادت ہورہی تھی۔اس واقعہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور ربی (امام) سمیت وہاں موجود تمام لوگ بحفاظت وہاں سے نکال لیے گئے۔کسی بھی عبادت گاہ پر حملے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ فلسطینیوں اور مسلمانوں سمیت تمام لوگوں نے اس کی مذمت کی۔
طبی ماہر اور صحافی کا قتل
گزشتہ ہفتے ڈاکٹر مروان سلطان، ڈائریکٹر انڈونیشین ہسپتال، اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوئے۔ پچاس دن میں اسرائیل نے 70 طبی اہلکاروں کو قتل کیا ہے۔
اسی دوران ایک ساحلی ریستوران پر حملے میں 32 سالہ صحافی اسماعیل ابو حطب سمیت 95 افراد جاں بحق ہوئے۔ غزہ میں اب تک 228صحافی دنیا کو سچ دکھانے کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025