
عدم تحفظ کی شکار حکومت نے وضع کیا عوامی تحفظ کا قانون
نام نہاد قانون سازی یا فکری قید کا نیا ہتھیار؟ مہاراشٹر حکومت کا غیر جمہوری چہرہ بے نقاب
ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی
حکومت الزامات لگائے اور ملزم برسوں صفائی دیتا رہے، کیا یہی انصاف اور اس کا تقاضا ہے؟
حکومتِ مہاراشٹر اچھی طرح جانتی ہے کہ اس نے انتخابی نظام پر ڈاکہ ڈال کر غیر معمولی اکثریت حاصل کی ہے اور اگر اگلی بار اس کا موقع نہیں ملا تو وہ اقتدار سے بے دخل ہو جائے گی۔ ایسے میں وہ چاہتی ہے کہ موقع غنیمت جان کر ان تمام آوازوں کو کچل دیا جائے جو اس کی کمیوں اور کوتاہیوں کو اجاگر کر سکتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے ابھی حال ہی میں اسمبلی میں متنازعہ ’’عوامی تحفظ بل‘‘ کو منظوری دے دی۔ حکومت نے اس نئے قانون کا مقصد شہروں میں سرگرم نکسل وادی سرگرمیوں پر قابو پانا بتایا ہے۔ وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس کے مطابق اگرچہ ودربھ کے کئی اضلاع میں نکسل واد تقریباً ختم ہو چکا ہے لیکن نکسل نظریات رکھنے والے لوگ شہری علاقوں میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان ’’شہری نکسلیوں‘‘ سے نمٹنے کے لیے سخت قانون کی ضرورت تھی جسے بنا کر نافذ کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی نکسل واد کو چیلنج ہے یا ’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ والا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟
وزیر اعلیٰ پھڈنویس نے نظریاتی بنیاد پر کی جانے والی سرگرمیوں پر لگام کسنے کی بات تو کر دی مگر وہ نہیں جانتے کہ عدالتِ عظمیٰ کے مطابق نظریات کے سبب لوگوں کو گرفتار کرنا درست نہیں ہے۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں بلکہ ابھی 22 مئی (2025) کو سپریم کورٹ نے واضح انداز میں کہہ دیا کہ ’’کسی کو محض اس کے نظریے کی بنیاد پر جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا‘‘۔ عدالتِ عظمیٰ کا یہ تبصرہ عبدالستار نامی مسلمان ملزم کے بارے میں ہے جو ممنوعہ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی کیرالا یونٹ کا سابق سکریٹری جنرل تھا۔ اس پر 2022ء میں پالکڈ میں آر ایس ایس کارکن سرینواسن کے قتل کا الزام ہے۔ یعنی ایک ایسا ملزم جس پر آر ایس ایس کے کارکن کو قتل کرنے کا الزام ہو نیز اس کا تعلق ممنوعہ تنظیم سے رہا ہو تب بھی وہ ضمانت کا حق دار ہے۔ ایسے میں اگر مہاراشٹر میں اس نئے عوامی تحفظ قانون کے تحت عبدالستار کی گرفتاری ہوتی تو کیا سپریم کورٹ ضمانت نہیں دیتا؟ جبکہ جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجل بھویان کی بنچ نے اس بابت کیرالا ہائی کورٹ کے ذریعہ ضمانت سے انکار کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ آپ کسی کو صرف اس کے نظریے کی بنیاد پر جیل میں نہیں ڈال سکتے۔
مذکورہ بالا مقدمے کی سماعت کے دوران این آئی اے کے وکیل نے بھی مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کی ذہنی عکاسی کر دی۔ اس نے کورٹ میں تسلیم کیا کہ اگرچہ عبدالستار کا نام سرینواسن کے قتل کی بنیادی ایف آئی آر میں شامل نہیں تھا لیکن اس پر پی ایف آئی کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے کارکنوں کو بھرتی کرکے اسلحہ کی تربیت دینے کا الزام ہے۔ نیز، اس کے خلاف دفعہ 353 (سرکاری ملازم پر حملہ) کے تحت7 اور دفعہ 153 (فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے) کے تحت 3مقدمات درج ہیں۔ اس کے جواب میں عبدالستار کے وکیل نے دلیل دی کہ وہ ہڑتالوں کا معاملہ تھا اور ان میں پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔ اس پر این آئی اے کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ مزید جرائم کو روکنے کے لیے حراست ہی واحد راستہ ہے اور یہ کہ بنیادی نظریہ خود سنگین مجرمانہ اعمال کے لیے ابھارتا ہے لہٰذا اسے جیل میں رکھنا چاہیے تاکہ وہ مزید جرائم نہ کر سکے۔ یہی دلیل تو وزیر اعلیٰ پھڈنویس پیش کرتے ہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس بابت سپریم کورٹ کی کیا رائے ہے؟
مذکورہ بالا احمقانہ دلیل کے جواب میں عدالت نے کہا کہ احتجاج ایک شہری حق ہے اور نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر کسی کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ملزم کا قتل میں کوئی براہ راست رول نہیں ہے تو محض نظریہ یا احتجاج میں شرکت اسے جیل میں رکھنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ لہٰذا عدالت نے عبدالستار کو ضمانت دے دی۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے این آئی کے وکیل سے کہا کہ ’’ہمیں وہ رجحان نظر آ رہا ہے کہ صرف ایک خاص نظریہ اپنانے کے سبب انہیں جیل میں ڈال دیا جائے۔‘‘ یہاں جس پر تنقید کی گئی وہی رجحان تو عوامی تحفظ قانون کی روح ہے۔ اس معاملے میں ہونے والی بحث نے حکومت کی ذہنیت اور ارادوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پھڈنویس ببانگ دہل اسی منطق کا سہارا لے رہے ہیں جس کے جواب میں جسٹس اوکا نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہی تو مسئلہ ہے۔ آپ اس شخص کو جیل میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ جسٹس بھویان نے واضح کیا کہ مقدمے سے پہلے حراست کو سزا کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے مطابق چونکہ عبدالستار کا سرینواسن کے قتل سے براہ راست کوئی واسطہ نہیں ہے اور ان پر پرانے معاملات احتجاجی سرگرمیوں سے متعلق ہیں اس لیے وہ ضمانت کے حق دار ہیں نیز، یحییٰ کویا تھنگل اور عبدالرؤوف سی اے کو بھی اس لیے ضمانت دے دی کیونکہ مستقبل قریب میں مقدمہ ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پہلے بھی تاخیر کے سبب صدام حسین ایم کے، اشرف اور نوشاد ایم کو ضمانت دی گئی تھی۔
عدالت عظمیٰ کا مذکورہ بالا رویہ اس گناہ کا کفارہ ہے جس کی جانب ملک کے چیف جسٹس بی آر گوائی نے اس ماہ کے اوائل میں اشارہ کیا تھا۔ انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ حالیہ دنوں میں ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ‘ کے اصول کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ سی جے آئی گوئی نے اعتراف کیا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران عدالتی فیصلوں میں اس معیار کو شامل کرنے کے باوجود حالیہ برسوں میں اسے نیک نیتی سے لاگو نہیں کیا گیا۔ انہوں نے خود مختلف مقدمات میں ضمانت دے کر ہائی کورٹوں اور نچلی عدالتوں کے لیے اسی اصول پر عمل کرنے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ جسٹس گوائی نے اپنی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ گزشتہ سال 2024 میں، پربیر پرکایستھ، منیش سسودیا اور کویتا بنام ای ڈی کے معاملات میں انہوں نے اس قانونی اصول کو دہرایا ہے۔ یہ سارے تو سیاسی لوگ تھے مگر حقوق انسانی کے معاملات میں پھنسائے جانے والے عمر خالد، شرجیل امام، سنجیو بھٹ اور یلغار پریشد کے ملزمین کا نام بھی اگر اس فہرست میں شامل ہوتا تو شاید ان کا چیف جسٹس بننا مشکل ہو جاتا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سال اپنے مختلف فیصلوں میں ہائی کورٹوں اور نچلی عدالتوں سے ضمانت دینے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ اگر ضمانت کا معاملہ بنتا ہے تو سنگین جرائم میں بھی راحت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عدلیہ کا رجحان تو بے قصور لوگوں بے جا حراست میں رکھنے کے بجائے رہا کرنے کا ہے مگر اس کے برعکس مقننہ اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر بالکل مخالف سمت میں رواں دواں ہے۔ عوامی تحفظ بل کے تحت کسی بھی ایسی سرگرمی کو جو ریاست میں امن و امان کو بگاڑنے یا قائم شدہ اداروں اور ان کے اہلکاروں کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بنے، غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو دو سے سات سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ یعنی انتظامیہ الزام لگا دے گا اور خود کو بے قصور ثابت کرتے کرتے سات سال گزر جائیں گے۔ مجوزہ قانون میں چونکہ غیر قانونی سرگرمی کی تعریف یہ کی گئی کہ کسی تنظیم یا فرد کا ایسا عمل، تقریر یا تحریر جو امن عامہ میں خلل ڈالنے کا خدشہ پیدا کرے تو وہ قابلِ گردن زدنی ہوگا۔ یہاں تنظیم کے ساتھ فرد کو بھی نہیں بخشا گیا ہے نیز، کسی واردات میں ملوث ہونا تو دور امن عامہ کے لیے واقعی خطرہ نہیں بلکہ خدشے کی صورت میں محض تقریر یا تحریر کا الزام ہی حراست میں لینے کے لیے کافی ہو جائے گا۔
مہاراشٹر میں حزب اختلاف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ قانون جمہوری حقوق پر قد غن لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس قانون کے کئی دفعات مبہم اور غیر واضح ہیں اور اس کی لپیٹ میں حکومت کے سیاسی مخالفین، سماجی کارکنوں اور احتجاج کرنے والوں کو بہ آسانی پھنسایا جا سکتا ہے۔ کئی رہنماوں اور دانشوروں نے سوال کیا کہ مکوکا (MCOCA) اور یو اے پی اے (UAPA) جیسے سخت قوانین کی موجودگی میں اس نئے قانون کی ضرورت ہی کیا ہے؟ چور کی ڈاڑھی میں تنکہ کی مصداق وزیر اعلیٰ پھڈنویس نے یہ یقین دلایا ہے کہ اس قانون کا مقصد سیاسی کارکنوں یا احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنانا نہیں ہے مگر ان کا اصلی چہرہ تو یلغار پریشد کے معاملے میں سامنے آچکا ہے۔ اس وقت چونکہ کوئی قانون نہیں تھا اس لیے ایس آئی ٹی اور این آئی اے وغیرہ کی مدد لینی پڑی لیکن اب وہ اپنے جور و ظلم کو قانون کی آڑ میں جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں کی قیادت میں ریاستی حکومت نے پونے فساد کے مجرم ملند ایکبوٹے اور سمبھاجی بھِڑے کو بچانے کے لیے ‘اربن نکسل ازم’ کے نام پر اپنے نظریاتی مخالفین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا تھا۔ سنگھ پریوار کے اندر فکری سطح پر مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے اس لیے اقتدار کا استعمال کرکے بزورِ قوت غنڈہ گردی کرتا ہے۔
وزیر اعلیٰ پھڈنویس نے بعد از یلغار پریشد انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے ’اربن نکسل‘ نامی جس مبہم اور غیر متعینہ اصطلاح کو بڑے پیمانے پر استعمال کر کے انہیں مجرم قرار دیا تھا اب اسے قانون کا حصہ بنایا دیا گیا ہے۔ حکومت کو اس ظالمانہ قانون کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ جنوری 2018 میں پونے پولیس کے ذریعے درج کیے گئے مقدمہ میں گرفتار کارکنان ورنان گونزالوس اور ارون فریرا کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف دستیاب شواہد نہ ہونے کی صورت میں انہیں لگاتار حراست میں رکھنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی رہائی میں روڑا اٹکانے کے لیے یہ نیا قانون وضع کیا گیا ہے تاکہ اختلاف کرنے والوں کی آواز کو دبانے کا جواز فراہم کیا جائے۔ حکومت بلا ثبوت الزام لگا کر حراست کو ہی سزا میں بدل دینا چاہتی ہے۔ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ 1967 (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار شدہ گونزالوس اور فریرا کو ضمانت دینے سے جب این آئی اے کی خصوصی عدالت اور بامبے ہائی کورٹ نے انکار کر دیا تو انہوں نے عدالتِ عظمیٰ کا رخ کیا جہاں سے انہیں انصاف مل گیا اس لیے پھڈنویس اس راستے کو بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔
بھیما کورے گاوں معاملے میں 16 انصاف پسند افراد پر پہلے تو وہاں جمع ہونے والی بھیڑ کو اپنی تقاریر سے ’اکسانے‘ کا بے بنیاد الزام لگایا گیا اور پھر ’اربن نکسل’ کہہ کر بد نام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ممنوعہ سی پی آئی (ماؤسٹ) تنظیم کے ساتھ ان کی مبینہ وابستگی کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے جعلی ای میل بھیج کر انہیں پھنسایا گیا جس کو کئی آزاد فرانزک تنظیموں نے چیلنج کیا ہے۔ تحقیقات کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آئی تھی کہ کچھ کارکنوں کے نمبر کو این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر سے متاثر کیا گیا تھا۔ میساچیوسٹس واقع ڈیجیٹل فرانزک فرما آرسینل کنسلٹنگ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی لیکن اگر حکومت ہی نا انصافی پر اتر آئے تو کیا کِیا جا سکتا ہے؟ یلغار پریشد کیس میں مصنف اور ممبئی میں مقیم دلت حقوق کے کارکن سدھیر دھولے اور نقل مکانی پر کام کرنے والے گڑچرولی کے نوجوان کارکن شامل تھے۔ ناگپور یونیورسٹی میں انگریزی شعبے کی سابق صدر شوما سین، ایڈووکیٹ ارون فریرا، سدھا بھاردواج، مصنف وراورا راؤ، کارکن ورنان گونزالوس، قیدیوں کے حقوق کے کارکن رونا ولسن، ناگپور میں مقیم یو اے پی اے کے ماہر اور وکیل سریندر گاڈلنگ؛ قبائلی حقوق کے لیے زندگی وقف کرنے والے آنجہانی کارکن فادر اسٹین سوامی، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہنی بابو، آنند تیلمبڑے، شہری آزادی کے کارکن گوتم نولکھا اور ثقافتی گروپ کبیر کلا منچ کے اراکین ساگر گورکھے، رمیش گائچور اور جیوتی جگتاپ کو لپیٹ لیا گیا۔
بھیماکورے گاوں معاملے کے بیشتر ملزمین تو ضمانت پر چھوٹ گئے مگر کچھ لوگ ہنوز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان بے چاروں کی حالتِ زار پر رحم کھا کر سپریم کورٹ نے ابھی حال میں موجودہ عدالتوں کو ہی خصوصی عدالتیں قرار دینے پر مرکز اور مہاراشٹر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور خاص نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لیے نئی عدالتیں نہ کھولنے پر ناراضگی ظاہر کی۔ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوئی مالیہ باگچی کی بنچ نے مرکز اور مہاراشٹر کی جانب سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل راج کمار بھاسکر ٹھاکرے سے کہا کہ اگر موجودہ عدالتوں میں این آئی اے ایکٹ کے تحت مقدمات کی سماعت کی جائے گی تو برسوں سے جیل میں قید زیر سماعت قیدیوں، سماج کے حاشیے پر موجود افراد اور گھریلو تنازعات سے متعلق مقدمات کی سماعت تعطل کا شکار ہو جائے گی۔ سپریم کورٹ کا تو کہنا ہے کہ عدالتی ڈھانچے میں توسیع کرکے ججوں اور عملے کی تقرری کے لیے ان عہدوں کو منظوری دینا وقت کا تقاضا ہے مگر حکومت اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کے بجائے نیا قانون بناکر سیاسی مخالفین پر شکنجہ مضبوط کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی اس بنچ نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اضافی عدالتیں نہیں بنائی گئیں تو عدالتوں کو خصوصی قوانین کے تحت درج ملزمین کو ضمانت دینے پر مجبور ہونا پڑے گا، کیونکہ مقدمات کے فوری تصفیے کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ مہاراشٹر کے گڑچرولی میں ایک نکسل حامی، کیلاش رام چندانی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران سامنے آیا۔ سال 2019 کے دوران ایک آئی ای ڈی دھماکے میں 15 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تو کیلاش رام چندانی کے خلاف مقدمہ درج ہوا مگر پھر سوئی اٹک گئی۔ عدالت عظمیٰ نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مرکز اور مہاراشٹر حکومت کو این آئی اے، مکوکا اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے تحت مخصوص عدالتوں کے قیام کے لیے مناسب تجویز تیار کرنے کا آخری موقع دے کر چار ہفتے کے اندر اپنا جواب داخل کرنے کی مہلت دی ہے۔ اس پہلے 23 مئی کو بھی عدالت نے ایسے ہی معاملات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا تھا مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اس لیے یہ سخت وارننگ دینی پڑی۔ فی الحال ریاست کے نظم ونسق کا یہ حال ہے کہ مہاراشٹر کی جیل میں بھی قیدی محفوظ نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں عاقب ناچن اور عرفان لانڈگے پر تلوجہ جیل میں جان لیوا حملہ ہوا اور ان کے وکیل کو انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کرنا پڑا۔ یہ ظلم مبینہ طور پر جیل اہلکاروں کی مدد سے ہو رہا ہے مگر ریاستی حکومت کمبھ کرن کی نیند سو رہی ہے۔
’’عوامی تحفظ قانون‘‘ کے حوالے سے حزب اختلاف کا اندیشہ بجا ہے کہ اسے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور جمہوری احتجاج کو دبانے کے لیے استعمال کیا سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت اربن نکسل کے نام پر ہر ایسی سرگرمی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا کہ جو ریاست میں امن و امان کو بگاڑنے یا قائم شدہ اداروں اور ان کے اہلکاروں کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن سکتی ہے۔سرکار کے اشارے پر کون امن و امان کی خاطر خطرہ ہے اس کا فیصلہ انتظامیہ کرے گی اور اسے دو سے سات سال قید کی سزا سنا دی جائے گی۔ اس مبہم اور غیر واضح قانون کو حکومت اپنے سیاسی مخالفین، سماجی کارکنوں اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے سے موجود مکوکا (MCOCA) اور یو اے پی اے (UAPA) جیسے سخت قوانین کی موجود گی میں ایک نیا قانون بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وزیراعلیٰ پھڈنویس کہتے ہیں کہ اس بل پر غور کرنے والی کمیٹی میں اپوزیشن کے رہنما بھی شامل تھے لیکن کیا ان کی بات سنی یا مانی گئی؟ ان کا تو ہونا یا نہ ہونا دونوں برابر تھا۔ اسمبلی میں قانون کی واحد مخالفت سی پی آئی (ایم) رکن اسمبلی ونود نکول نے کی مگر کونسل کے اندر مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کے ارکان نے واک آوٹ کرکے اپنی احتجاج درج کرایا۔ انگریزوں کے زمانے میں اسی نام سے بنائے جانے والے ظالمانہ قانون کے خلاف بھگت سنگھ نے ایوانِ پارلیمنٹ پر بم پھینک کر احتجاج کیا تھا۔ اقتدار پر فائز انگریزی سامراج کے وفا دار غلاموں نے اپنے آقا سے بھی سخت قانون بناکر ملک کے عوام کو غلام بنانے کے لیے یہ قانون وضع کرکے غلامی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔
***
***
’’عوامی تحفظ قانون‘‘ کے حوالے سے حزب اختلاف کا اندیشہ بجا ہے کہ اسے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور جمہوری احتجاج کو دبانے کے لیے استعمال کیا سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت اربن نکسل کے نام پر ہر ایسی سرگرمی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا کہ جو ریاست میں امن و امان کو بگاڑنے یا قائم شدہ اداروں اور ان کے اہلکاروں کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن سکتی ہے۔سرکار کے اشارے پر کون امن و امان کی خاطر خطرہ ہے اس کا فیصلہ انتظامیہ کرے گی اور اسے دو سے سات سال قید کی سزا سنا دی جائے گی۔ اس مبہم اور غیر واضح قانون کو حکومت اپنے سیاسی مخالفین، سماجی کارکنوں اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025